Daily Ausaf:
2025-04-16@13:46:55 GMT

مولوی زادہ، ایمان مزاری اور گستاخانِ رسول

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

سوشل میڈیا پر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی توہین پر مبنی بدترین گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث زیر حراست گستاخ ملزمان کو تحفظ دینے کے لئے ایک ’’مولوی زادہ‘‘بھی میدان میں آگیا ہے۔مذکورہ گستاخ ملزمان کی وکیل ایمان مزاری کی جانب سے ایک یوٹیوبر کو دیئے گئے انٹرویو کی بنیاد پر مذکورہ مولوی زادے نے بھی گستاخوں کے حق میں سوشل میڈیا پر مہم کا آغاز کر دیا ہے۔اس مولوی زادے نے ایمان مزاری کے انٹرویو پر ایسے یقین کر لیا ہے کہ جیسے موصوفہ رابعہ بصری ہوں،اب اگر وہ مولوی زادہ ’’ایمان‘‘پریقین کامل کر ہی چکا ہے تو اسے میرا چیلنج ہے کہ وہ صرف خود نہیں،بلکہ اپنے پیر و مرشد جاوید احمد غامدی کو بھی امریکہ سے بلاکر پاکستان لے آئے اور پھر پورے پاکستان میں اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے گرفتار کئے گئے تقریبا ًپانچ سو گستاخوں میں سے کسی ایک گستاخ کے خلاف بھی درج مقدمے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت بھی سامنے لے آئے تو یہ خاکسار بھی اس کے موقف کے ساتھ کھڑا ہو جائے گا۔ورنہ اسے چاہیے کہ وہ توبہ تائب ہو۔اس کے فیس بک وال پر گستاخوں کے سہولت کاروں کا جھوٹا بیانیہ نہیں بلکہ اس کے باپ دادا کے بیانات اچھے لگتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایمان مزاری کون ہے؟کیا ایمان مزاری گستاخ ملزمان کی وکالت نہیں کررہی؟اگر وہ گستاخوں کی وکالت کر رہی ہے تو کیا وہ یہ تسلیم کرے گی کہ ’’گستاخ‘‘واقعی گستاخ ہیں؟وہ تو اپنے کلائنٹس کا دفاع کرنے کے لئے جھوٹا یا سچا کوئی بھی بیانیہ بنائے گی۔اب یہ ثابت کس فورم پر ہو گا کہ جنہیں گستاخ کہا جارہا ہے،وہ واقعی گستاخ ہیں؟یا جن گستاخوں کو بے گناہ کہا جارہا ہے،وہ واقعی بے گناہ ہیں؟ یقینا اس کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق عدالتی فورم پر ہو گا۔نہ تو فیس بک پر کسی مولوی زادے نے اس بات کا فیصلہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی یوٹیوبر نے۔
حقائق بتاتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے جون 2021ء سے لے کر اب تک تقریباً پانچ سو گستاخ ملک بھر سے گرفتار کئے جاچکے ہیں۔جن میں سے 24گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر ٹرائل کورٹس سزائے موت سنا چکی ہیں۔دو گستاخوں کو جرم ثابت ہونے پر عمر قید کی سزا سنائی جاچکی ہے۔جنہیں سزائے موت میں تبدیل کرنے کے لئے اپیلیں ہائیکورٹس میں زیر سماعت ہیں۔باقی تمام زیر حراست گستاخوں کے خلاف بھی مقدمات اس وقت انڈر ٹرائل ہیں۔ان کے فیصلے بھی جلد ہو جائیں گے۔مذکورہ حقائق تو یہی ثابت کرتے ہیں کہ جن کے خلاف سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث ہونے پر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے مقدمات درج کئے گئے ہیں،وہ واقعی گستاخ ہیں۔اسی لئے تو عدالتیں انہیں سزائیں سنا رہی ہیں۔عدالتیں ان کے خلاف مقدمات کے فیصلے بغیر کسی دبا کے بالکل آزادانہ ماحول میں آئین و قانون کے مطابق میرٹ پر کررہی ہیں۔مذکورہ زیر حراست تقریبا ًپانچ سو گستاخ ملزمان کے خلاف عدالتوں میں زیر سماعت کسی ایک مقدمے کے حوالے سے یہ بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ کسی ایک دن بھی ٹرائل کے دوران عدالتوں پر اثر انداز ہونے کے لئے ’’جتھے‘‘ لائے گئے ہوں۔صرف مدعی،مدعی مقدمہ کا وکیل اور گواہ ہی عدالت کے سامنے پیش ہوتے ہیں۔کوئی ایک ایسا غیر متعلقہ شخص عدالت میں نہیں لایا جاتا کہ جس کا مقدمے سے تعلق نہ ہو۔اب تک عدالتوں کی جانب سے گستاخوں کو سزائیں سنانا اور کسی ایک گستاخ ملزم کا بھی مقدمے سے بری نہ ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ تمام مقدمات بالکل درست ہیں۔گستاخوں کو تحفظ دینے کے لئے گستاخوں کے سہولت کاروں کی جانب سے جو پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو اس کے متعلق ثبوت عدالتوں کے سامنے لائے جاتے اور ان ثبوتوں کی بنیاد پر یقینا عدالتیں ملزمان کو ریلیف بھی دیتیں۔اس لئے کہ ہمارے ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی کریمنل مقدمے میں ذرہ سا شک کا فائدہ بھی ہمیشہ ملزم کو ہی دیا جاتا ہے۔
گستاخوں کے سہولت کار بالخصوص ایمان مزاری جو پروپیگنڈہ کررہی ہے،اسے ثابت کرنے کے لئے کوئی ایک ثبوت تو سامنے لائے۔صرف کسی پر الزام لگا دینا ہی تو کافی نہیں۔ایمان مزاری گوجرانوالہ کے ایک مولوی زادے کے لئے تو شائد رابعہ بصری ہو کہ وہ محض اس کے الزام کو ہی درست مان کر اس پر ایمان لے آئے۔مگر قوم ثبوت چاہتی ہے۔ایسا نہیں ہو سکتا کہ بعض افراد پر توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کا غلط اندراج کرانے یا توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میلنگ کرنے کے بے بنیاد الزامات لگا کر مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے گستاخوں کو تحفظ دیا جائے۔یہ خاکسار اس حوالے سے بالکل کلیئر ہے کہ مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے کسی ایک گستاخ کو بھی قانونی سزا سے نہیں بچنا چاہئیے۔مزید یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پر توہین مذہب و توہین رسالت کا جھوٹا الزام عائد کرتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے ارتکاب پر اکساتا ہے یا کسی کو توہین مذہب و توہین رسالت کے مقدمات کی بنیاد پر بلیک میل کرتا ہے تو اسے بھی قانون کے مطابق سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔مگر اس حوالے سے محض زبانی الزامات کافی نہیں بلکہ ثبوت کا ہونا ضروری ہے اور اب تک زیر حراست گستاخوں کے خلاف تو ثبوت ہیں مگر اس کے برعکس کوئی ثبوت نہیں۔صرف الزامات ہی ہیں اور صرف الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم یا بے گناہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔آخری بات کہ سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث گستاخوں کے خلاف مقدمات کا اندراج (پیکا) جسے سادہ لفظوں میں انسداد سائبر کرائم ایکٹ کہا جاسکتا ہے،کے تحت کیا جارہا ہے۔ پیکا کے تحت ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ میں درج مقدمات میں زبانی شہادتیں نہیں بلکہ ’’ڈیجیٹل شواہد‘‘کی اہمیت ہوتی ہے۔ان مقدمات میں سب سے اہم ثبوت ملزم سے برآمد ہونے والا اس کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہوتا ہے۔ملزم کا اپنا موبائل یا لیپ ٹاپ ہی یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ مجرم ہے یا بے گناہ؟سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کی تشہیر میں ملوث جن زیر حراست مجرمان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے،ان کے موبائل فون وغیرہ ایف آئی اے کے قبضے میں ہیں۔ان موبائل فون وغیرہ کے فرانزک رپورٹ ریکارڈ کا حصہ ہیں کہ جو انہیں مجرم ثابت کرتی ہیں۔گستاخوں کے تمام سہولت کاروں بشمول گوجرانوالہ کے مولوی زادے کو چیلنج ہے کہ وہ کسی ایک انڈر ٹرائل گستاخ کے مقدمے کو بطور مثال پیش کر دیں کہ اس کے خلاف مقدمہ غلط درج کیا گیا ہے،تو اس سے برآمد ہونے والے موبائل فون وغیرہ کا ان کی مرضی کے لیب سے دوبارہ فرانزک کروا لیا جائے۔دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔اس میں کوئی اتنی بڑی راکٹ سائنس تو ہے نہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: توہین مذہب و توہین رسالت کے گستاخوں کے خلاف قانون کے مطابق گستاخ ملزمان ایمان مزاری کی بنیاد پر کرنے کے لئے گستاخ ملزم گستاخوں کو کی جانب سے ایف آئی اے نہیں بلکہ جارہا ہے کرتا ہے کسی ایک بے گناہ

پڑھیں:

کوچۂ سخن

غزل
حق و باطل کبھی یکجا نہیں رہنے دیتا
آئینہ جھوٹ پہ پردہ نہیں رہنے دیتا
اس کو میں روتا بلکتا ہوا چھوڑ آیا ہوں
ساتھ لاتا تو قبیلہ نہیں رہنے دیتا
جذبۂ فخر و تکبر بھی عجب ہوتا ہے
دیر تک شخص کو اونچا نہیں رہنے دیتا
ساتھ پا جاتا اگر تپتے ہوئے سورج کا
مجھ کو ساحل پہ یہ دریا نہیں رہنے دیتا
تجربہ عمر کے ہمراہ بڑھے گا سرمدؔ
وقت کوئی گھڑا کچا نہیں رہنے دیتا
(سرمد جمال۔ لالیاں)

۔۔۔
غزل
کیوں نہ پھر خود کو میں رانجھا وہ مری ہیر لگے
اس کو جب دیکھوں مرے خواب کی تعبیر لگے 
ضربتِ چشم کے منکر میں تجھے کیا بولوں
بس دعا ہے ترے دل میں بھی کوئی تیر لگے
آپ کے دست شفاعت  کے تو کیا ہی کہنے
آپ کے ہاتھ سے تو زہر بھی اکسیر لگے
اس طرح ٹھاٹ سے رہیو کہ گدا ہو کے بھی
آدمی اہلِ حکومت میں کھڑا میر لگے
مجھ کو چھوڑا ہے تو تحفہ بھی مرا آگ میں ڈال
اس سے پہلے کہ یہ پائل تجھے زنجیر لگے
ہجر سے رب ہی بچائے کہ جسے یہ ڈس لے
وہ تو بھر پور جواں ہو کے بھی اک پیر لگے
ہم جنوں زاد ہیں ڈرتے ہیں صعوبت سے بھلا
ہم کو پھندہ بھی تری زلفِ گرہ گیر لگے
عاشقی اس کو ہی سجتی ہے جہاں میں بابرؔ
سامنے شیر بھی جس شخص کے نخچیر لگے
(بابر علی ویرو وال  سرگودھا)

۔۔۔
غزل
روز جھنجھٹ میں نئے ڈال دیا جاتا ہے
کس مہارت سے مجھے ٹال دیا جاتا ہے
کیوں قطاروں میں رہیں کاسہ گدائی کا لیے
روند کے پھول بھی پامال دیا جاتا ہے
ہم سے کہتے ہیں کہ ہشیار ذرا رہیے گا
اور صیّاد کو بھی جال دیا جاتا ہے
کھول کر حسن کا صفحہ وہ ترے رکھتا ہے
اور قصّے کو بھی اجمال دیا جاتا ہے
دل یہ بن باپ کے ہو جیسے یتیم اے لوگو
گھر میں جو غیر کے بھی پال دیا جاتا ہے
پیار کرنے کو میسّر ہے گھڑی دو لیکن
درد سہنے کو کئی سال دیا جاتا ہے
علم اپنا نہیں، اوروں کی بتانے کے لیے
قسمتوں کا بھی یہاں فال دیا جاتا ہے
تو نے تو مجھ کو دیا خام، مگر ظرف مرا
پھل تجھے میٹھا بھی اور لال دیا جاتا ہے
یہ بلوچی کی روایات میں شامل ہے رشیدؔ
پوچھا کرتے بھی ہیں، اور حال دیا جاتا ہے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

۔۔۔
غزل
جو تیرگی میں لہو کا الاپ جانتا ہے
خدا پرستوں کے سارے ملاپ جانتا ہے
خلافِ دنیا ہے لیکن بدن کی قید میں ہے 
جو زندگی کو بھی ڈھولک کی تھاپ جانتا ہے
لباسِ حضرتِ آدم کو اوڑھنے والے
برہنہ سوچ پہ آدم کی چھاپ جانتا ہے؟
ادھیڑ عمر میں بیٹے کی موت ہو جانا
یہ ایسا دکھ ہے جو اکبر کا باپ جانتا ہے
ہمیشگی میں یہ تکرار ہست و بود کہاں
جو اہلِ فن ہے وہ قدرت کا ناپ جانتا ہے
(علی رقی۔ فیصل آباد)

۔۔۔
غزل
کوئی عجلت ہے مجھے اور نہ بیزاری ہے
وقت کے ساتھ ہی چلنے میں سمجھ داری ہے
جان جاتی ہے چلی جائے کوئی بات نہیں
میری عزت تو مجھے جان سے بھی پیاری ہے
وقت جیسا بھی ہو آخر کو گزر جاتا ہے
فکرِ فردا ہے مجھے، اُس کی ہی تیاری ہے
ایک میں ہوں جسے محرومِ محبت رکھا
ورنہ اُس شخص کی دنیا سے وفاداری ہے
حاکمِ وقت سے شکوے تو بہت ہیں لیکن
میں ہوں مجبور مِری نوکری سرکاری ہے
موسمِ ہجر نے یہ حال کیا ہے میرا
دل ہے پُرسوز اور آواز مری بھاری ہے
اُس کی ہر بات پہ مت کان دھرا کر شوبیؔ 
بولتے رہنے کی اُس شخص کو بیماری ہے
(ابراہیم شوبی۔ کراچی)

۔۔۔
غزل
سوگ واروں کا تمسخر اڑانا تھا جنہیں 
شوخ بھی آئے جی بھر مسکرانا تھا جنہیں
چاند سے اوجھل انھوں نے رکھے دست و قلم 
ایک کاغذ پر سمندر بنانا تھا جنہیں 
اِن بچھے پھولوں سے اُن کو ہی چھالے بن گئے
اپنی پلکوں کو سرِ رہ بچھانا تھا جنہیں
وہ مرے اعصاب سے آشنا ہوا ہی نہیں 
چھید ڈالے ہیں وہی گدگدانا تھا جنہیں
عرش کو بھائی نہیں سب ستاروں کی چمک
ٹوٹ کر بکھرے بہت جگمگانا تھا جنہیں
تیرے پہلے جھوٹ کے وہ کہاں ہیں سامعین
تو نے اپنا آخری سچ بتانا تھا جنہیں
رہ پہ خوشبو کی جگہ بھر گئی ہے شام اب 
کیا نہیں آئیں گے وہ، آج آنا تھا جنہیں
بے تکی ترتیب سے گزری ساگرؔ زندگی
یاد رکھا ہے انہیں، بھول جانا تھا جنہیں
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)

۔۔۔
غزل
شماریات سے باہر ہے تشنگی اپنی
کبھی نہ ختم ہو پائے گی بے بسی اپنی
تمہارے آنے سے پر لطف ہو گئی ورنہ
پڑی تھی بے سر و سامان زندگی اپنی
تمام عمر بھی کم ہے یہ غم منانے کو
کہ ہو گئی ابھی سے ختم دوستی اپنی
تمہیں یقین نہیں آ رہا، یقین کرو
ہر ایک شے سے ہے نایاب دل لگی اپنی
تلاشتے ہیں گریبان کو حیا والے
کہ عام لوگ نہیں جانتے کمی اپنی
مری زبان مرے سر سے کچھ تو اونچی ہے
کبھی فروخت نہ ہو پائے گی خودی اپنی
تمہارا دل تمہیں جھنجھوڑتا نہیں ہے کیا؟
جو ناک پر لیے پھرتے ہو برہمی اپنی
ضمیر مار کے جینے سے موت افضل ہے
ہے ایسی جیت سے بہتر شکستگی اپنی
کسی کی طرز پہ رہنا مجھے قبول نہیں 
مجھے نمود سے پیاری ہے سادگی اپنی
طویل وقت سے رویا نہ تھا وسیم خلیل 
وہ چھوڑ کر گیا تو آنکھ نم ہوئی اپنی
(وسیم اشعر۔تحصیل شجاع آباد، ضلع ملتان)

۔۔۔
غزل
دل میں اتر جو آئی وہی چیخ اور پکار
ہم نے سنی، سنائی وہی چیخ اور پکار
ہم کو دیا تو کیا دیا دنیائے بے ثبات 
آنسو خلش دہائی، وہی چیخ اور پکار
اور کچھ بھی نہیں جانتا یہ جانتا ہوں میں
حصے میں میرے آئی وہی چیخ اور پکار
بے ساختہ ہی سوئی ہوئی آنکھ کھل گئی 
پھر ہم کو یہاں لائی وہی چیخ اور پکار
معلوم کر سکا نہ کہ وہ تھی تو کس کی تھی؟ 
جب ذہن میں پھرائی وہی چیخ اور پکار
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)

۔۔۔
غزل
سینہ تراش کے لکھے اک نام کے حروف
اک حسنِ بے مثال پہ کچھ کام کے حروف 
خلوت کے خوگروں پہ عیاں ہیں سبھی میاں 
کیا صبح کے حروف تو کیا شام کے حروف 
کیسے ٹکوں میں بیچتے ہو، ہوش میں تو ہو؟
ارض و سما سے بیش بہا دام کے حروف 
یوں شاعری نسوں میں گھلی ہے میاں کہ میں
مدہوش ہو کے لکھ رہا ہوں جام کے حروف 
تم خود کو کہہ رہے ہو سخن فہم، خیر ہے؟
تم پر ابھی کھلے نہیں خیّامؔ کے حروف
(خیام خالد۔ ٹیکسلا)

۔۔۔
غزل
ہم پہ ہر سمت اجالے تھے سبھی وار دیے
اور مرے یار جیالے تھے سبھی وار دیے
کچھ ترے ہجر کے تھے زخم مری جان پہ اور
طعنِ اغیار کے جالے تھے سبھی وار دیے
اپنا دیوان حوالے ہے سمندر کے کیا
تم پہ کچھ شعر نکالے تھے سبھی وار دیے
ہم نے کھولی تھی جو اک بار کفِ دستِ سخن
جن کو بھی جان کے لالے تھے سبھی واردیے
تم نے اک ہجر زدہ شخص پہ احسان کیا
تم نے جو راز سنبھالے تھے سبھی وار دیے
اور پھر چھوڑ دیے  دوست سبھی فاروقیؔ
اور وہ سانپ جو پالے تھے سبھی وار دیے
(حسنین فاروقی۔ چکوال)

۔۔۔

غزل
روگ آنکھوں سے محبت کا چھپاؤں کیسے
یادِ جاناں لیے ہوں یاد مٹاؤں کیسے
وحشتیں تم کو دسمبر کی بتاؤں کیسے 
اپنے سینے میں لگی آگ دکھاؤں کیسے
شدتِ درد نے تو چھین لی گویائی میری 
اے مرے دوست تجھے حال سناؤں کیسے 
یاد میں اس کی جلا جاتا ہے سینہ میرا
دل تو کرتا ہے مگر اس کو بلاؤں کیسے
چارہ گر! نشتر مرہم ہیں زہر ناک ترے
زخمِ دل تجھ کو دکھاؤں تو دکھاؤں کیسے
تیری موجودگی سے ہے مرا سب فنِ سخن 
تو بھلا تیرے سوا مصرعے سجاؤں کیسے
چاہتا ہوں کبھی ہو شام ترے پہلو میں
شام قسمت سے یہی میں بھی چراؤں کیسے
تیرے ہی حسن نے آنکھوں کی بدولت مجھ کو 
ایسے مدہوش کیا، ہوش میں آؤں کیسے 
دوست میرے ہیں سبھی جان سے پیارے مجھ کو
جان سے تنگ ہوں تو جان چھڑاؤں کیسے
(رستم۔ ڈیرہ غازی خان)

۔۔۔
غزل
کام چاہے جس قدر ہو دور ہونا چاہیے 
خامشی تکلیف دے تو شور ہونا چاہیے 
ظاہری حالت سے اندازہ لگایا نہ کرو
کوئی جب آواز دے تو غور ہونا چاہیے
ہے محبت میں نرم لہجہ بڑا ہی پراثر 
ہو صدا حق کے لیے تو زور ہونا چاہیے
روز اپنوں پر بھڑکنا اور دھمکانا انہیں
ہو بہادر تو مقابل اور ہونا چاہیے
جیب کاٹے،مال لوٹے یا بجٹ کھا جائے وہ
چور ہے توچور کو پھر چور ہونا چاہیے
کتنی آساں ہے یہاں تہذیبِ نو کی ہمسری
شرم سے خالی ذہن سے کور ہونا چاہیے
موم کو پتھر بنا دیتا ہے شاہدؔ انتظار 
ہے اگر جذبہ تو کچھ فی الفور ہونا چاہیے
(محمد شاہد اسرائیل۔ آکیڑہ، ضلع نوح میوات، انڈیا)
 

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔ 
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
 روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

 

متعلقہ مضامین

  • ببو برال، جو جینا چاہتے تھے مگر۔۔
  • آرمی چیف ملک کو معمول کی سطح پر لے آئے، فیصل واوڈا
  • جنگ  میں سب کچھ جائز نہیں ہوتا!
  • کوچۂ سخن
  • حکمران عوام کے زندہ بیدار ایمان پروَر جذبات کی قدر کریں، لیاقت بلوچ
  • فطرت،انسانیت اور رحمتِ الٰہی
  • پاکستان میں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ دیکھا، امریکی اراکین کانگریس
  • ’پاکستان میں ایمان، اتحاد اور نظم و ضبط کا عملی مظاہرہ دیکھا‘، امریکی اراکین کانگریس نے دورہ پاکستان کو کامیاب اور مثبت قرار دیدیا
  • مرزا رسول جوہؔر
  • نون لیگ اور اُس کے پروجیکٹس