کوئٹہ: ’جبل نورالقرآن‘ سے قران پاک کے قدیم نسخے چوری
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قرآن پاک کے ضعیف نسخوں اور اوراق کو بے حرمتی سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے معروف مرکز ’جبل نورالقرآن‘ سے نامعلوم افراد نے 120 قدیم نسخے چوری کرلیے۔
نجی ٹی وی کے مطابق تھانہ بروری پولیس نے ’جبل نور القرآن‘ کے انچارج اجمل خان کی مدعیت میں مقدمہ درج کر کے واقعے کی تحقیقات شروع کر دی۔
فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق منگل اور بدھ (21 اور 22 جنوری) کی درمیانی شب نامعلوم افراد غار میں موجود شو کیس کے شیشے توڑ کر قرآن مجید کے نسخے لے گئے۔
اجمل خان نے پولیس کو بتایا ہے کہ جب وہ بدھ کی صبح 10 بجے جبلِ نورالقرآن پہنچے تو غار کےدروازے کا تالا ٹوٹا ہوا تھا اور وہاں 12 شو کیس کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔
جبل نور کمیٹی کے رکن بالاج لہڑی نے بتایا کہ ’جبل نور القرآن‘ سے ہاتھ سے لکھا گیا قرآن پاک اور احادیث کے نسخے چوری ہوئے، اس جگہ پر پاکستان کے حوالے باہر ممالک سے لائے گئے نسخے محفوظ تھے۔
جبل نور القرآن کیوں بنایا گیا؟
جبل نورالقرآن کوئٹہ کے مضافات میں چلتن پہاڑی سلسلے میں واقع ہے جہاں پہاڑوں میں سرنگ کھود کر قرآن کریم کے ضعیف اور مخدوش نسخے اور دیگر مذہبی کتب اور ان کے اوراق رکھے گئے ہیں تاکہ انہیں بے حرمتی سے بچایا جائے۔
1992 میں جبل نور فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں آیا اور میر عبد الصمد لہڑی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا جسے ان کے بھائی میر عبد الرشید لہڑی نے آگے بڑھایا، اب اس کام کو لہڑی خاندان کی دوسری اور تیسری نسل کررہی ہے۔
دینی اوراق جو ضعیف اور بوسیدہ ہوجاتے ہیں انہیں بے حرمتی سے بچانے کے لیے ایک پہاڑی میں سرنگ کھودی گئی اور ضعیف صفحات کو وہاں محفوظ کردیا گیا، 30 سال پہلے ایک سرنگ سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ آج 100 سے زیادہ سرنگوں تک جا پہنچا ہے۔
جبلِ نورالقرآن میں 100 سے زیادہ سرنگیں ہیں جن میں اب تک اندازاً ڈھائی سے 3 کروڑ قرآن پاک اور دینی کتب آچکی ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
کوئٹہ: غیر آباد علاقے سے 60 کلو چرس برآمد
—فائل فوٹوکوئٹہ کے کچلاک بائی پاس روڈ کے قریب غیر آباد علاقے میں اے این ایف نے کارروائی کر کے 60 کلو چرس بر آمد کر لی۔
کراچی کے علاقے سولجر بازار میں پولیس نے ایک...
ترجمان اینٹی نارکاٹکس فورس کے مطابق کارروائی میں 20 کلو ہیروئن بھی بر آمد کی گئی ہے۔
ترجمان نے بتایا ہے کہ اس حوالے سے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں تاہم کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔