Daily Sub News:
2025-04-16@04:33:18 GMT

پی ٹی آئی 28 جنوری کو آئے اور حکومت کا جواب سنے:

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

پی ٹی آئی 28 جنوری کو آئے اور حکومت کا جواب سنے:

پی ٹی آئی 28 جنوری کو آئے اور حکومت کا جواب سنے: WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:اسپیکر قومی اسمبلی نے حکومت اور پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس 28 جنوری کو طلب کر لیا ہے۔
اس حوالے سے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے، پی ٹی آئی نے ابھی تک شرکت سے معذرت نہیں کی نہ مذاکرات ختم کرنے سے متعلق تحریری طور پر آگاہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ حکومت نے مذاکرات ختم نہیں کیے، پی ٹی آئی 28 جنوری کو آئے اور حکومت کا جواب سنے۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ تحریکِ انصاف اب کسی مذاکراتی میٹنگ میں شریک نہیں ہو گی۔
اس حوالے سے بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ 28 جنوری کو ہونے والے مذاکراتی اجلاس میں پی ٹی آئی شرکت نہیں کرے گی۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے کہا تھا کہ عمران خان نے پہلے بھی حکومت کو 7 دن کا وقت دیا تھا، بانیٔ پی ٹی آئی نے کہہ دیا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنا لہٰذا بات چیت نہیں ہو گی، حکومت کی طرف سے تعاون نہ کرنے پر مذاکرات ختم کیے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے کمیشن کا اعلان ابھی تک نہیں کیا، ہماری خواہش تھی مذاکرات ہوں اور آگے چلیں

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی جنوری کو

پڑھیں:

غرہ جنگ بندی مذاکرات، صیہونی حکومت کی جانب سے نئے مطالبات

حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مصر نے کہا ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کے سلسلے میں اسرائیل کی نئی شرائط بحران پیدا کر رہی ہیں تاہم معاملات جلد مثبت ہوں گے۔ مصر کی سٹیٹ انفارمیشن سروس کے سربراہ ضیا رشوان نے کہا ہے کہ غزہ جنگ بندی مذاکرات میں مصری قطری ثالثی بین الاقوامی قانون، جائز حقوق اور بین الاقوامی قانونی قراردادوں کی طرف موقف کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ قاہرہ اور دوحہ کی طرف سے پیش کردہ تجاویز انصاف کے اصولوں پر کاربند اور بحران کی انسانی اور سیاسی جہتوں کو مدنظر رکھ کر پیش کی گئی ہیں۔ رشوان نے میڈیا کے بیانات میں وضاحت کی کہ اسرائیل اس دور کے دوران اپنی مذاکراتی تجاویز پیش کرنے کا خواہشمند تھا، جو اس کے خیال میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے ماہ خطے کا دورہ کرنے کے ارادے سے متعلق اندرونی ٹائمنگ کے مسئلے سے منسلک ہے۔ امریکہ تل ابیب پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ اس تاریخ سے پہلے مذاکراتی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے حالیہ دورہ واشنگٹن سے امریکی انتظامیہ کے ساتھ تعلقات میں ان کے سابقہ ​​استقبالیہ کے مقابلے میں ایک غیر معمولی بحران کا انکشاف ہوا، جو غزہ پر جاری جنگ کے حوالے سے سیاسی اور بین الاقوامی مزاج میں تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔

ان کا خیال تھا کہ اسرائیل کی نئی شرائط اسرائیلی حکومت کے اندرونی بحران کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان سے اس کی طاقت کی پوزیشن کی عکاسی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ ثالث اس دور کی نازک نوعیت سے واقف ہیں اور اسرائیل مذاکرات کے ذریعے اپنے مطالبات کی حد کو غیر حقیقی طور پر بڑھا رہا ہے۔ حماس کو حال ہی میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے لیے ایک نئی اسرائیلی تجویز موصول ہوئی ہے۔ اس تجویز میں 45 دنوں کی عارضی جنگ بندی شامل ہے، جس کا مقصد اس عرصے کے دوران مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ فلسطینی قیدیوں کے بدلے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کرنا ہے۔ اسرائیلی تجویز میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی شرط رکھی گئی ہے۔ اسرائیلی تجویز کی ایک بنیادی شرط مصری اقدام سے بالکل مختلف ہے۔ اس تجویز میں 10 اسرائیلی قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس کا آغاز جنگ بندی کے پہلے دن اسرائیلی نژاد امریکی قیدی عیڈان الیگزینڈر کی رہائی سے ہو۔ اس کے بعد کے مراحل میں عمر قید کی سزا پانے والے 120 فلسطینی اسیران کی رہائی کے بدلے 9 اضافی اسرائیلی قیدیوں کی رہائی اور 7 اکتوبر 2023ء کے بعد گرفتار کیے گئے 1,100 سے زائد فلسطینی قیدیوں کی رائی بھی شامل ہے۔

اس تجویز میں دونوں فریقوں کے درمیان اسرائیلی قیدیوں اور فلسطینی اسیران کی قسمت کے بارے میں معلومات کا تبادلہ اور اسرائیل کے زیر حراست 160 فلسطینیوں کی باقیات کے بدلے میں 16 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشوں کے حوالے کرنا بھی شامل ہے۔ اس میں سات دنوں کے لیے غزہ کی پٹی کے علاقوں سے اسرائیلی فوج کے انخلاء کی شرط بھی رکھی گئی ہے، جس میں رفح اور غزہ کے شمال اور مشرقی غزہ کے کچھ علاقے شامل ہیں۔ اس تجویز میں غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کے داخلے، شہریوں تک اس کی رسائی کو یقینی بنانے کے لیے ایک طریقہ کار کے قیام اور بے گھر افراد کو پناہ دینے کے لیے ساز و سامان کی فراہمی پر زور دیا گیا ہے۔ تاہم اس تجویز میں ایک شق شامل ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اسرائیل "غزہ کو غیر مسلح علاقہ قرار دے”، جسے حماس ایک سرخ لکیر سمجھتی ہے۔حماس کے بیرون ملک سیاسی بیورو کے رکن سامی ابو زہری نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی تحریک ان تمام پیشکشوں کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرے گی جو فلسطینی عوام کے مصائب کو کم کر سکتی ہیں، لیکن اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جنگ بندی کے کسی بھی معاہدے کو ناکام بنانے کے لیے ناممکن شرائط کا تعین کر رہے ہیں۔ وہ حماس کے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے کی تلاش میں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • جامعہ کراچی میں آئی ایس او کے تحت یکجہتی فلسطین ریلی، طلبہ و طالبات کی شرکت
  • غرہ جنگ بندی مذاکرات، صیہونی حکومت کی جانب سے نئے مطالبات
  • حکومت نے پی پی تحفظات پر کوئی مناسب جواب نہیں دیا، ذرائع
  • وفاقی حکومت کی کینال منصوبہ ختم کرنیکی پیشکش لیکن پیپلزپارٹی نے کیا جواب دیا؟ تہلکہ خیز دعویٰ 
  • واشنگٹن کیساتھ آئندہ مذاکراتی دور روم میں منعقد ہو گا، فواد حسین کی سید عباس عراقچی کیساتھ گفتگو
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ، جواب کا ارادہ نہیں، وزیر خزانہ
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں: وزیر خزانہ
  • کراچی سمیت سندھ بھر میں ملیریا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ
  • امریکی ٹیرف پر پریشان ہیں مگر جوابی اقدام کا ارادہ نہیں،وفاقی وزیرِ خزانہ
  • حکومت کا کنونشن میں شرکت کرنیوالے اوورسیز پاکستانیوں کو ریاستی مہمان کا درجہ دینے کا فیصلہ