“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو!
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو! WhatsAppFacebookTwitter 0 24 January, 2025 سب نیوز
بیجنگ : ” میگا ” ” میگا “) میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ ۔تو ہمارے بارے میں کیا؟ اس دنیا کے بارے میں کیا؟ ڈونلڈ ٹرمپ واپس آ گئے! مقامی وقت کے مطابق 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز انہوں نے تقریباً 200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں معیشت، امیگریشن، توانائی اور قومی سلامتی جیسے کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حکم ناموں کا مقصد امریکہ کی مکمل تعمیر نو اور اسے دوبارہ عظیم بنانا ہے۔ اگر آپ خود کو دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں تو آپ کو پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب ٹرمپ “امریکہ فرسٹ”، اور ” میگا ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنانے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے ، ٹیڑف میں اضافہ اور امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو دی جانے والی امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے یورپی سیاست دان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما ہیں جو مضبوط قوم پرستی اور قدامت پسندی کی وکالت کرتے ہیں ۔
یوں دنیا بھر کے لوگ فکر کیے اور سوال کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس دنیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ دنیا کا تعلق صرف ایک امریکہ سے ہی نہیں ہے۔ اگرچہ عالمگیریت کے عمل کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم اب یہ وقت کا رحجان ہے کہ سیاست دانوں کے یہ نعرے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں دنیا بھر کے ممالک کے لئے مل کر کام کرنے کے خوبصورت وژن اور کوششوں کو روک نہیں سکتے اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور امریکہ کے درمیان تعاون ،بلاشبہ مندرجہ بالا اہداف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے،
لہٰذا اگر امریکہ فرسٹ اور میگا کے نعرے بلند تر بھی ہوتے رہے تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حقیقت پسند ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے تعاون کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے اور چین اور امریکہ دونوں نے ایک دوسرے کو بروقت کچھ مثبت اشارے دیے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ مل کر دنیا کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں جو دراصل چین امریکہ تعاون کی اہمیت کے بارے میں ان کی سنجیدہ تفہیم کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے دوران چین کا دورہ کرنے کی امید ظاہر کی جس پر چینی وزارت خارجہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات میں مزید پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں چین کے اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت نے بھی دوطرفہ تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے حوالے سے چین کے مثبت رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔
چین اور امریکہ دنیا کی کل معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور دنیا کی دو طرفہ تجارت کے حجم کے تقریباً پانچویں حصے کے مالک ہیں۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ ہارمیٹس نے حال ہی میں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے چائنا انسٹی ٹیوٹ ان امریکہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اگر امریکہ اور چین آب و ہوا، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں تو دنیا بہتر ہوگی۔ اگر دونوں فریق محاذ آرائی کی طرف بڑھتے ہیں تو دنیا کو شدید نقصانات ہونگے۔ وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور امریکہ کا مل کر چلنا بڑی حد تک دنیا کی سمت کا تعین کرے گا ۔ دونوں ممالک کے مستحکم تعلقات عالمی امن و استحکام کی بنیاد ہیں اور چین امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور صحت عامہ کے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت اور تعاون کا مضبوط ہونا بھی تمام فریقوں کے مفاد میں بہترین انتخاب ہے۔ امریکہ چین تعلقات سے متعلق امریکی قومی کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن اولینز نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے زیادہ مشکل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے اتنی ہی جرات کی ضرورت ہوگی اور ان کے درمیان تعمیری اور نتیجہ خیز تعلقات سے امریکی عوام کو بھی ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔ ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز کر رہے ہیں،
دنیا تمام متعلقہ فریقوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ “زیرو سم گیم” اور سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں، بات چیت اور مواصلات کو مضبوط کریں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ طور پر تعاون کو وسعت دیں، تاکہ دنیا کے اتحاد اور ترقی اور عالمی پیداواری چین اور سپلائی چین کے استحکام اور اصلاح میں حصہ لیا جاسکے۔ لہذا ہم اب بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ ، صرف “ڈرل بے بی ڈرل” جیسے عارضی مقاصد اور امریکہ کے اندرونی امور کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دنیا کو ایسی بلند نگاہی سے دیکھیں جو دور اندیش ہو اور جو تمام رکاوٹوں کو ختم اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا حل دیکھ سکے۔دنیا کو تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ،”ڈرل بے بی ڈرل” کے نعرے سے بڑھ کر .
ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
دنیا پر ٹرمپ کا قہر
جب امریکا کسی ملک کو دھمکیاں دے رہا ہے، کسی پر پابندیاں لگا رہا ہے، کسی پر قبضہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے اور اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے گویا خود کو پوری دنیا کا مالک اور ٹھیکیدار سمجھ رہا ہے پھر اپنی ہر زیادتی کو اپنا استحقاق بھی سمجھ رہا ہے تو ایسے میں دنیا میں افراتفری، انتشار اور سیاسی و معاشی عدم استحکام کا پیدا ہونا یقینی ہے پھر جب سب کچھ امریکا کو ہی کرنا ہے تو اقوام متحدہ کے وجود کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟
امریکا تو اپنی من مانی کر ہی رہا ہے، اس کا بغل بچہ اسرائیل اس سے بھی دو ہاتھ آگے جا رہا ہے، اس نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی اسے روک یا ٹوک سکے۔ اقوام متحدہ میں حالانکہ اسرائیل کے خلاف اسے جنگی جنون سے باز رکھنے کے لیے کئی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں مگر اس کے آقا امریکا نے کسی کو پاس نہ ہونے دیا اور اگر کوئی پاس بھی ہو گئی تو اس پر عمل نہ ہونے دیا۔
چنانچہ غزہ کیا پورے فلسطین میں مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے دنیا تماشا دیکھ رہی ہے اور مسلمان ممالک بھی خاموش ہیں کیونکہ وہ اپنے مفادات کو دیکھ رہے ہیں۔ ایسے حالات میں اقوام متحدہ کی بے بسی پر ترس آ رہا ہے پہلے لوگ او آئی سی کو بے حس گھوڑا کہتے تھے مگر اب تو اقوام متحدہ کا اس سے بھی برا حال ہے اگر اقوام متحدہ امریکا کے آگے بے بس ہے تو پھر اسے بند ہی کر دینا چاہیے اور امریکا بہادر کو من مانی کرنے دی جائے۔
اس سے کم سے کم یہ تو ہوگا کہ تمام ہی ممالک امریکا سے کیسے نمٹنا ہے اس پر سوچنا شروع کریں گے ابھی تو دنیا اپنے معاملات کے لیے یو این او کی جانب دیکھتی ہے مگر ان کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں ہو پاتے اس لیے کہ تمام معاملات کو UNOخود نہیں امریکی مرضی سے نمٹاتی ہے۔
افسوس اس امر پر ہے کہ امریکا اپنے مفادات کا غلام ہے وہ صرف اپنے ملک اور قوم کی بھلائی کو دیکھتا ہے اسے کسی ملک کی پریشانی یا مشکل کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اس نے روس کو زیر کرنے کے لیے پاکستان کے دائیں بازو کے حکمرانوں، مذہبی طبقے اور افغان مجاہدین کو خوب خوب استعمال کیا۔ پھر پاکستان نے امریکی گلوبل وار آن ٹیررزم میں ہزاروں جانیں گنوائیں اور کروڑوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب اس کا کام نکل گیا تو اس نے پاکستان کو اپنے حلیفوں کی فہرست سے نکال کر چین سے تعلقات توڑنے پر زور دینے لگا۔
امریکی حکمرانوں کو اگر اپنے ہم وطنوں کے علاوہ کسی کی پرواہ ہے تو وہ اسرائیل ہے۔ امریکی ویٹو پاور اسرائیل کے کھل کر کام آ رہی ہے۔ وہ امریکی سپورٹ کے بل بوتے پر عربوں کو خاطر میں نہیں لا رہا ہے اور کسی بھی عرب ملک کو نشانہ بنانے سے ذرا نہیں ہچکچا رہا ہے۔ شام اور عراق کے بعد اب وہ ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی وقت وہ یہ حرکت کر سکتا ہے اور اگر ایران نے پلٹ کر وار کیا تو پھر امریکا اسے معاف نہیں کرے گا اور اسے اپنے مہلک ترین میزائلوں سے نشانہ بنا دے گا۔
اب بتائیے تقریباً دو سال سے اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے مگر امریکا سمیت تمام یورپی ممالک تماشا دیکھ رہے ہیں انھوں نے اسرائیل کو اس کی جارحیت روکنے کے لیے آج تک کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ امریکا نے اسرائیل کے لیے خطرہ بننے والے کتنے ہی ممالک کو تباہ و برباد کر ڈالا ہے، اگر اس کے مفادات اور برتری قائم رکھنے کے راستے میں روس اور چین آڑے نہ آتے تو وہ پوری دنیا پر اپنا پرچم لہرا دیتا۔
دراصل امریکا کی برتری اس کی فوجی طاقت ہے۔ معیشت تو اس کی بھی ڈانواڈول ہے۔ وہ دنیا کو صرف اپنی فوجی طاقت سے ڈراتا رہتا ہے جہاں تک معیشت کا تعلق ہے تو اس سے بڑا اس کے لیے اور کیا لمحہ فکریہ ہوگا کہ وہ خود 36 ٹریلین ڈالر کا مقروض ہے۔ امریکی معیشت روز بہ روز تنزلی کی جانب گامزن ہے۔
صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھال کر امریکی معیشت کو پٹری پر لانے کے لیے ہی مختلف اقدام کیے ہیں جن میں مختلف عوامل شامل ہیں۔ امریکی ایڈ ختم کرنے سے لے کر ٹیرف کا بڑھایا جانا انھی اقدام میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ اپنے لگائے گئے ٹیرف کو امریکا کے لیے مفید قرار دے دیتے ہوئے تین روز قبل اسے نافذ کرنے کا اعلان کیا کیا تو اس انتہائی اقدام سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی تھی۔
اسٹاک ایکسچینجوں میں لوگوں کے اربوں ڈالر ڈوب گئے ، وال اسٹریٹ میں کہرام بپا ہوا۔ جب خود امریکی عوام ٹرمپ کے اس اقدام سے بے زارنظر آتے ہیں تو ٹرمپ نے یو ٹرن لیتے ہوئے ٹیرف کے نافذ کو تین ماہ کے لیے معطل کرنے کا اعلان کیا ،البتہ چین کے خلاف 125 فی صد ٹیرف برقرار رکھنے کا اعلان بھی کیا۔
ٹرمپ کے اس غیر متوقع اقدام سے خود پاکستان کے بری طرح متاثر ہونے کا امکانات بڑھ گئے ہیں، کیونکہ اس وقت پاکستان اپنے معاشی بحران سے نکلنے کے لیے کوششیں کر رہا ہے اور اس میں اسے کئی کامیابیاں بھی ملی ہیں جس سے ملک میں معاشی استحکام پیدا ہونے کی امید ہو چلی تھی مگر ٹرمپ نے پاکستانی برآمدات پر29 فی صد بھاری محصول عائد کرکے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔
دراصل امریکا پاکستانی مصنوعات کی ایک فائدہ مند منڈی ہے۔ پاکستان اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے امریکی انتظامیہ سے مذاکرات کرنے کا آغاز کرنے جارہا ہے مگر یہاں تو دنیا کا ہر ملک ہی امریکی حکومت سے اس کے ٹیرف کو کم کرنے پر مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
کیا ٹرمپ اپنے اعلان کردہ محصولات سے مستقل طور پر پیچھے ہٹ جائیں گے ؟ان کی سخت طبیعت کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا نہیں ہے مگر انھیں پیچھے ہٹنا پڑے گا ورنہ خود امریکی معیشت پہلے سے زیادہ تنزلی کا شکار ہو سکتی ہے۔
اس وقت دنیا کی تجارت ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے تحت انجام پا رہی ہے اس کے اصول بنانے میں بھی امریکی ہاتھ تھا اب خود امریکا اپنے مفاد کی خاطر عالمی تجارت کو ایسا نقصان پہنچانے جا رہا ہے جس کا نقصان اسے خود بھی بھگتنا پڑے گا اور ٹرمپ کو عوامی مقبولیت سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
انھیں چاہیے کہ امریکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے کچھ دوسرے اقدام اٹھائیں۔ ٹیرف کے نفاذ کو اگر مناسب سطح پر بھی لے آئیں جس سے عالمی تجارت رواں دواں رہے اور چھوٹے ممالک کو نقصان نہ ہو تو اس سے نہ صرف امریکی امیج برقرار رہے گا بلکہ شاید اگلی بار انتخابات میں کامیابی ٹرمپ کا پھر مقدر بن جائے۔