بارش اور برفباری والا سسٹم بلوچستان سے نکل گیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
---فائل فوٹو
صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ بارش اور برف باری برسانے والا مغربی سسٹم بلوچستان سے نکل گیا ہے۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان کے شمالی اور وسطی علاقے شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں جبکہ شمالی ہوائیں بلوچستان اور سندھ کی ساحلی پٹی تک پھیل گئی ہیں۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق کئی روز بعد آج بیشتر علاقوں میں دھوپ نکلی ہے، سردی کی شدت کل سے کم ہونا شروع ہو جائے گی۔
ملک کے بالائی اور میدانی علاقے سخت سردی کی لپیٹ میں ہیں۔
پی ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ جنوری کے آخری اور فروری کے پہلے ہفتے میں ایک اور مغربی سسٹم متوقع ہے۔
یاد رہے کہ ملک کے بالائی اور میدانی علاقے سخت سردی کی لپیٹ میں ہیں۔
گزشتہ ماہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے شمالی علاقوں میں درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے گرنے کے بعد تالاب، جوہڑ اور سڑکوں پر پڑا پانی بھی جم گیا تھا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: سردی کی
پڑھیں:
میرا نام ہے فلسطین، میں مٹنے والا نہیں
اسلام ٹائمز: فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔ تحریر: سید عباس حیدر شاہ ایڈووکیٹ (سید رحمان شاہ)
فلسطین، ایک ایسا نام جو سننے والے کے ذہن میں قدیم تہذیبوں کی خوشبو، روحانی ورثے کی گونج اور ایک مظلوم قوم کی جدوجہدِ آزادی کی طویل داستان کو تازہ کر دیتا ہے۔ یہ محض ایک خطۂ زمین نہیں بلکہ ایک تہذیبی وراثت، ایک قومی شناخت اور ایک ناقابلِ تسخیر عزم کی علامت ہے۔ فلسطین کا شمار دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی تہذیب نے بہت ابتدا میں قدم جمائے۔ آثارِ قدیمہ اور تاریخی روایات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہاں سب سے پہلے کنعانی قوم نے سکونت اختیار کی، جو سامی نسل سے تعلق رکھتی تھی۔
کنعانیوں نے زراعت، تعمیرات، تجارت اور مذہبی نظام میں خاصی ترقی کی اور فلسطین کو ایک تہذیبی اور اقتصادی مرکز بنایا۔ ان کے بعد یبوسی، اموری اور دیگر اقوام نے اس خطے کو اپنا وطن بنایا۔ بعد ازاں یہ خطہ مصری، بابلی اور سمیری تہذیبوں کے زیرِ اثر رہا۔ بعد کے ادوار میں یہی سرزمین انبیائے کرامؑ جیسے حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے پیغام کی آماجگاہ بنی، جس نے اس کی روحانی حیثیت کو مزید بلند کیا۔ زیرِ نظر تحریر میں ہم فلسطین کی تاریخی ارتقا سے لے کر موجودہ سیاسی و انسانی بحران تک کا تحقیقی و تجزیاتی جائزہ پیش کریں گے۔
قدیم فلسطین: کنعان سے اسلامی فتوحات تک
فلسطین کی قدیم تاریخ کا آغاز کنعانیوں سے ہوتا ہے، جنہوں نے یہاں اولین شہر آباد کئے۔ ان میں یروشلم (جسے اس وقت یبوس کہا جاتا تھا) خاص اہمیت رکھتا ہے۔ بعد ازاں بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں اس سرزمین میں قدم رکھا۔ یہودی روایات کے مطابق یہ خطہ انہیں الٰہی وعدے کے تحت عطا کیا گیا، تاہم تاریخی طور پر یہ علاقہ مختلف اقوام کے درمیان مسلسل تنازعات کا مرکز رہا۔ رومی دور میں یہودیوں کو بغاوت کے بعد جلاوطن کر دیا گیا اور یروشلم کو عیسائیت کا مرکز بنا دیا گیا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں نے دوسرے خلیفہ کی خلافت کے دور میں اس خطے کو فتح کیا۔ مسجد اقصیٰ، جو پہلے سے ایک مقدس مقام تھی، اسلامی تاریخ کا تیسرا مقدس ترین مقام قرار پائی۔ صلیبی جنگوں کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو دوبارہ اسلامی ریاست میں شامل کیا۔ 1517ء سے 1917ء تک فلسطین عثمانی سلطنت کے زیرِ انتظام رہا، جس نے یہاں امن، رواداری، اور کثیرالمذہبی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔
برطانوی استعمار اور صیہونی تحریک کا آغاز
پہلی عالمی جنگ کے بعد عثمانی سلطنت کے انہدام کے ساتھ ہی فلسطین برطانوی انتداب کے تحت آ گیا۔ 1917ء میں برطانوی حکومت نے اعلانِ بالفور کے ذریعے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک "قومی وطن" کے قیام کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ اعلان صیہونی تحریک کی سیاسی کامیابی تھا، جس نے یورپ سے یہودی آبادکاری کے دروازے کھول دیے۔ اس آبادکاری نے مقامی عرب آبادی کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی خطرے میں ڈال دیا، جس کے نتیجے میں شدید کشیدگی پیدا ہوئی۔
1948ء کا المیہ: اسرائیل کا قیام اور النکبہ
1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کو ایک یہودی اور ایک عرب ریاست میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی مگر فلسطینیوں اور عرب ریاستوں نے اسے غاصبانہ سمجھ کر مسترد کر دیا۔ 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس کے فوراً بعد عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اسرائیل نے 78 فیصد فلسطینی سرزمین پر قبضہ کر لیا اور سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ یہ جبری ہجرت تاریخ میں النکبہ (یعنی المیہ) کے نام سے یاد کی جاتی ہے۔
1967ء کی جنگ: قبضے کا نیا باب
جون 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں اسرائیل نے مشرقی یروشلم، مغربی کنارہ، غزہ کی پٹی، گولان کی پہاڑیاں، اور سینائی کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ اس جنگ نے فلسطینی عوام کی جدوجہد کو نیا رخ دیا۔ فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن (PLO) نے یاسر عرفات کی قیادت میں مزاحمت کو منظم کیا، اور مسلح جدوجہد کو اپنایا۔ 1987ء میں حماس نے پہلی انتفاضہ کے دوران مزاحمت کی عوامی لہر کو جنم دیا، جس نے فلسطینی شناخت کو عالمی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ بتایا کہ بے سر و سامانی کے با وجود فلسطینی اپنے حقوق کیلئے لڑ سکتے ہیں اور پھر 2000ء کے دوسرے انتفاضہ نے مزاحمت کو نئی جہت دی
اوسلو معاہدہ: دھوکہ یا امید؟
1993ء میں اوسلو معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی قائم کی گئی، جسے بعض علاقوں میں محدود خودمختاری دی گئی۔ اگرچہ اس معاہدے سے امن کی امیدیں وابستہ کی گئیں مگر اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غیر قانونی یہودی آبادکاری اور فوجی نگرانی جیسے حساس امور پر اپنا قبضہ برقرار رکھا غزہ کو جیل بنا دیا گیا بلکہ 2006ء میں حماس کی انتخابی فتح کے بعد غزہ پر اسرائیلی محاصرہ عائد کر دیا گیا، جس نے انسانی المیے کو جنم دیا۔
2023ء کے حالات: ظلم، محاصرہ اور مزاحمت تا حال جاری
2023ء میں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر شدید فضائی حملے، مسجد اقصیٰ پر چھاپے، اور مغربی کنارے میں صیہونی آبادکاروں کے مظالم جاری رہے۔ اکتوبر 2023ء میں حماس نے آپریشن طوفان الاقصی لانچ کیا اور اس کے بعد سے اسرائیل و حماس کے درمیان شدید لڑائی شروع ہوگئی حالات بگڑتے چلے گئے اسرائیل نے وسیع پیمانے پر بے گناہ انسانوں کا قتل عام شروع کردیا۔ بوڑھے، بچے، خواتین، صحافی، ڈاکٹرز ہر طبقے کے افراد کو اپنی بندوق اور میزائل سے شکار کیا، یہ انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ امریکہ کی مدد کے ساتھ تا حال جاری ہے۔
درجنوں اسپتال، اسکول اور پناہ گاہیں تباہ ہوئیں، اور سینکڑوں معصوم فلسطینی، بالخصوص بچے اور خواتین، شہید ہوئے۔ عالمی برادری کی جانب سے اسرائیل پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے گئے لیکن اقوامِ متحدہ اور بڑی طاقتوں کی خاموشی نے فلسطینیوں کو مزید مایوس کیا ہے۔ دنیا کے منافقانہ رویہ یعنی امریکہ و یورپ کی غیر مشروط حمایت، عرب لیگ کی خاموشی و دوغلی پالیسی اور اقوامِ متحدہ کی مجرمانہ بے عملی فلسطین میں انسانی المیہ کو جنم دینے میں ملوث ہیں.
فلسطینی شناخت: مزاحمت کا استعارہ
فلسطین آج بھی ظلم کے خلاف مزاحمت کی ایک شناخت، ایک خواب اور ایک استعارہ ہے۔ فلسطینی قوم آج بھی "میرا نام ہے فلسطین" کے نعرے کے ساتھ اپنی زمین، ثقافت اور مقدس مقامات کے دفاع میں ڈٹی ہوئی ہے۔ اگرچہ اقوامِ متحدہ نے 2012ء میں فلسطین کو "غیر رکن مبصر ریاست" کا درجہ دیا، مگر تاحال دو ریاستی حل کا عملی نفاذ ایک جھوٹ ہی ہے اور فلسطین تو دراصل پورے کا پورا ہی (نہر تا بحر) فلسطینیوں کا ہے۔
ایک زندہ، سلگتی تاریخ
فلسطین زندہ باد جیسا کہ محمود درویش نے کہا کہ ’’ہم اس سر زمین پر مریں گے، ہماری جڑیں اتنی گہری ہیں کہ کوئی ہمیں اکھاڑ نہیں سکتا‘‘۔ فلسطین کی تاریخ ایک مسلسل جدوجہد کی داستان ہے۔ ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا استعارہ اور ایک ایسی قوم کی کہانی جو صدیوں سے اپنی شناخت اور زمین کے تحفظ کے لیے لڑ رہی ہے۔ لاکھوں فلسطینی آج بھی جلاوطنی، محاصرے، اور بنیادی سہولیات کی کمی کا شکار ہیں مگر ان کا عزم کمزور نہیں ہوا۔ فلسطین ایک خطہ نہیں, انصاف کے لئے انسانیت کی اجتماعی آزمائش ہے. جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، دنیا کے ضمیر پر ایک داغ رہے گا۔