سپریم کورٹ میں جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے انسدادِ دہشتگردی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا مسترد کردی۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اس واقعہ میں راکٹ لانچر استعمال ہوا ہے، جب اسلحہ استعمال ہوگا تو کیس اے ٹی سی میں ہی جائے گا۔

مزید پڑھیں: الیکٹرانک بیان حلفی اور سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں

درخواستگزار عابد حسین نے انسدادِ دہشتگردی عدالت کا حکم چیلنج کیا تھا۔ وکیل درخواست گزار نے کہا کہ اے ٹی سی عدالت نے کیس واپس مجسٹریٹ کے بجائے تفتیشی افسر کو بھیجا۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فیصلہ مجسٹریٹ نے نہیں عدالت نے کرنا ہوتا ہے۔ مجسٹریٹ نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ تحقیقات ٹھیک ہوئیں یا نہیں۔

مزید پڑھیں: پختونخوا میں کوئی لائسنس نہیں لیتا مگر اسلحہ سب کے پاس ہے، سپریم کورٹ

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ آپ نے درخواست دائر کرکے عدالت کا اتنا وقت ضائع کیا، جمعہ کے دن جرمانہ کرنے سے زیادہ ثواب اور کیا ہوسکتا ہے؟ درخواست گزار کے وکیل کی عدالت سے جرمانہ نہ کرنے کی استدعا کی تو سپریم کورٹ نے درخواست خارج کردی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلحہ انسداد دہشتگردی عدالت اے ٹی سی جسٹس جمال مندوخیل جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انسداد دہشتگردی عدالت اے ٹی سی جسٹس جمال مندوخیل جسٹس نعیم اختر افغان سپریم کورٹ سپریم کورٹ جسٹس جمال اے ٹی سی

پڑھیں:

سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد

جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اسلام ٹائمز۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے اور قائم مقام چیف جسٹس کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی جس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ کے 5 ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل دیے۔ دلائل کے آغاز میں وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دوں گا، اس پر جسٹس علی مظہر نے کہا ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہیں سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔ جسٹس علی مظہر  نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر 4 درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، جس ہائیکورٹ میں آناہوتا ہے اس ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتے ہیں، آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے یا سینارٹی پر؟ اس پر منیر اے ملک نےجواب دیا ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔

جسٹس علی مظہر نے کہا آپ نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کر کے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے ان ہی صوبوں سے نئے جج تعینات کیوں نہیں کیے گئے؟ کیا حلف میں ذکر ہوتا ہے کہ جج کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟ اس پر وکیل منیر اے ملک نے کہا حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا ذکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے" اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری" کا ذکر آتا ہے۔ بعد ازاں آئینی بینچ نے اسلام آباد ہائیکورٹ ججز کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنےکی استدعا مسترد کر دی، اس کے علاوہ ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کر دی گئی۔ بعد ازاں عدالت نے 5 ججز کی درخواست پر نوٹسز جاری کرتے ہوئے قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم حسین، جسٹس محمد آصف اور جوڈیشل کمیشن سمیت اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 17 اپریل تک ملتوی کر دی۔ واضح رہے کہ 3 ججوں کی دوسرے ہائی کورٹس سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں تبالے اور انہیں کام سے روکنے کے لیے 7 آئینی درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ درخواستوں میں جسٹس سرفراز ڈوگر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا سینئر جج قرار دینے کی سینارٹی لسٹ کو بھی چیلنج کیا گیا تھا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی سمیت 5 ججوں نے سینارٹی لسٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف جسٹس آف پاکستان نے جوڈیشل کمیشن کا اجلاس طلب کرلیا
  • سپریم کورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نئی سنیارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد
  • جنگلات اراضی کیس، تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹس طلب
  • 9 مئی کے واقعات سے متعلق کیسز :سپریم کورٹ کا بڑا حکم
  • سپریم کورٹ نے جنگلات اراضی کیس میں واگزار کروائی گئی اراضی کی تفصیلات طلب کر لیں
  • جنگلات اراضی کیس: سپریم کورٹ نے تمام صوبوں اور وفاقی حکومت سے تفصیلی رپورٹ طلب کرلی
  • جنگلات اراضی کیس: درخت لگوانا سپریم کورٹ کا کام نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل
  • سپریم کورٹ کی 9مئی واقعات سے متعلق کیسز کا ٹرائل چار ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • قومی اہمیت کے حامل 2 اہم کیسز آئینی بینچ میں سماعت کے لیے مقرر
  • دہشتگردی میں ریاستی مشینری کے استعمال کا کیس سماعت کیلئے مقرر