سرویلنس کیپیٹلزم اور آن لائن پرائیویسی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 24 جنوری 2025ء) اگرچہ ڈیٹا اکھٹے کرنے سے کئی فوائد حاصل ہوئے ہیں، جیسے کہ ٹارگٹڈ اشتہارات لیکن اس کے ساتھ آن لائن پرائیویسی اور نگرانی کے سرمائے (Surveilance Capitalism) کے حوالے سے خدشات بھی پیدا ہوئے ہیں۔
سرویلنس کیپیٹلزم کی اصطلاح شوشانا زوبوف (Shoshana Zuboff) نے وضع کی ہے۔ وہ ان طریقوں کو بیان کرتی ہے، جن کے ذریعے کمپنیاں صارفین کے رویوں اور ان کی آن لائن ایکٹیویٹی کو ٹریک کر کے اس سے حاصل شدہ ڈیٹا کا استعمال کرتی ہیں۔
اس ماڈل میں صارفین کے ڈیٹا کو ایک ایسے ذریعے کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جسے منافع کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔کمپنیاں جدید الگورتھمز اور ڈیٹا اینالیٹکس کا استعمال کرتے ہوئے صارفین کی تفصیلی پروفائلز تیار کرتی ہیں، جنہیں پھر ذاتی نوعیت کے اشتہارات اور دیگر مارکیٹنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
جیسے جیسے افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ڈیٹا اکٹھا کیا جا رہا ہے، اس بات پر خدشات ہیں کہ یہ ڈیٹا کس طرح استعمال ہو رہا ہے اور کس کو اس تک رسائی حاصل ہے۔
یہ مسئلہ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں زیادہ اہمیت رکھتا ہے، جہاں کمپنیوں اور سرکاری اداروں کے ذریعے ڈیٹا کے جمع کرنے اور استعمال کے حوالے سے قوانین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ڈیٹا اور پرائیویسی کے ایک ماہر ریسرچر ڈیویڈ لیون لکھتے ہیں کہ جدید تکنیکی ڈھانچہ، جیسے کوکیز، ڈیوائسز، آن لائن اور موبائل سروسز، سرچ انجنز اور پلیٹ فارمز کو اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیٹا پیدا کیا جا سکے جسے الگورتھمز کے ذریعے پڑھا جا سکتا ہے۔
نتیجتاً، ڈیجیٹل ڈیٹا کی بڑی مقدار کی دستیابی اور اس کے پراسیسنگ کے لیے بہتر کمپیوٹیشنل ٹیکنالوجی، جو زیادہ تر مصنوعی ذہانت پر تحقیق سے اخذ کی گئی ہے، نے وسیع پیمانے پر سماجی، ثقافتی اور سیاسی زندگی کی ڈیٹا فیکیشن کو ممکن بنایا ہے اور ایک رجحان "Big Data" کے نام سے شروع کیا ہے۔
اس تناظر میں یہ جاننا دلچسپ ہو گا کہ کتنے ڈیجیٹل میڈیا صارفین الگورتھمز کے ان میکانزم کے بارے میں جانتے ہیں، جو ان کی نجی زندگی کی حدود کو ان کی منظوری کے بغیر پامال کرتے ہیں اور انہوں نے نگرانی کے سرمایہ داری کے خلاف کیا حفاظتی حکمت عملی اپنائی ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ اسمارٹ فونز میں نصب مختلف ایپلیکیشنز کی وجہ سے، کمپنیاں یہ جان سکتی ہیں کہ ہم کتنی دیر سوتے ہیں، دن بھر کیا سرگرمیاں انجام دیتے ہیں، کام، اسکول اور گھر آنے جانے میں کتنا وقت صرف کرتے ہیں، ہمیں کیا پسند ہے، ہم فارغ وقت کیسے گزارتے ہیں، ہمارے مشاغل کیا ہیں، وغیرہ۔ بگ ڈیٹا مختلف اقسام کے ڈیٹا فراہم کرتا ہے، جنہیں کسی بھی طرح جوڑا جا سکتا ہے۔
ان کا موازنہ اور تجزیہ بھی کیا جا سکتا ہے۔معلومات کی اس نئی شکل کا مقصد انسانی رویوں کی پیش گوئی اور ان میں تبدیلی لانا ہے تاکہ آمدنی اور مارکیٹ کنٹرول کو بڑھایا جا سکے۔
سرویلنس کیپیٹلزم انسانی رویے کی پیش گوئی اور اس میں تبدیلی لانے کے لیے اسے ایک ذریعہ سمجھتی ہے۔ شوشانا زوبوف اس ڈیٹا کے ضمنی اثرات کو 'Behavioral Surplus' کہتی ہیں۔
زوبوف کے مطابق، یہ 'Surveillance Assets' ہیں، جو انسانی تجربے کو خام مال کے طور پر دیکھتے ہیں جسے رویے کے ڈیٹا میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور آمدنی اور مارکیٹ کنٹرول کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔بگ ڈیٹا تک رسائی کی یہ دوڑ اور اس کا استعمال جارج اورویل (George Orwell) کے ناول "1984" کے ڈسٹوپین تصور کی عکاسی کرتے ہیں، جہاں ایک ہمہ گیر، سب کچھ دیکھنے والا ادارہ اپنے شہریوں کے خیالات اور اعمال پر مکمل کنٹرول رکھتا ہے۔
صارفین اکثر اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ ان کا ڈیٹا کس حد تک حاصل کیا جاتا ہے اس عمل کو ڈیٹا مائنگ (Data Mining) کہتے ہیں۔ ان طریقوں کے حوالے سے واضح رضامندی اور شفافیت کی کمی اس احساس کو مزید بڑھا دیتی ہے کہ وہ مسلسل نگرانی میں ہیں۔اب آگے بڑھنے کا راستہ صارفین، ریگولیٹرز اور محققین کی مشترکہ کوشش کا تقاضا کرتا ہے تاکہ آن لائن پلیٹ فارمز کو جوابدہ ٹھہرایا جا سکے اور زیادہ اخلاقی طریقوں کو فروغ دیا جا سکے۔
اس ضمن میں مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کرنا نہایت اہم ہے۔صارفین کو اپنے ڈیٹا پر زیادہ کنٹرول کا مطالبہ کرنا چاہیے اور پرائیویسی سیٹنگز کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔ اپنی پرائیویسی ترجیحات کو خود سیٹ کریں اور غیر ضروری ڈیٹا تک رسائی کے عمل کو روکیں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کوئی ایسی ایپ ڈاؤن لوڈ کر رہے ہیں، جس کو آپ کے کونٹیکٹس یا کیمرہ تک رسائی کی ضرورت نہیں لیکن وہ ایپ یہ رسائی حاصل کرنا چاہتی ہے تو آپ رسائی نا دیں۔
اس طرح ریگولیٹری اداروں کو جامع پرائیویسی اور ڈیٹا پروٹیکشن قوانین قائم کرنے اور ان پر عمل درآمد کروانے کی ضرورت ہے۔ اس میں ایک ایسے عالمی فریم ورک کو تیار کرنا شامل ہے، جو تمام صارفین کے لیے یکساں تحفظ فراہم کرے، چاہے وہ کسی بھی ملک میں رہتے ہو۔ ریگولیٹرز کو چاہیے کہ ان قوانین پر عمل درآمد نہ کرنے والوں پر سخت جرمانہ عائد کریں اور ڈیٹا کے حصول کے لیے اپنائے گئے طریقوں کے باقاعدہ آڈٹ کو لازمی قرار دینا چاہیے۔
محققین اور ماہرین تعلیم کا کردار مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا کے حصول کے لیے اپنائے گئے طریقوں کے اخلاقی اثرات کا جائزہ لینے میں اہم ہے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ڈیجیٹل میڈیا صارفین کو آگاہی دینے اور اپنے ڈیٹا کا تحفظ کرنے کے لیے حفاظتی اقدامات اختیار کرنے میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ڈیجیٹل لیٹریسی کا تناسب بہت کم ہے، وہاں حکومتی سطح پر ڈیجیٹل میڈیا صارفین کی تعلیم پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کیا جا سکتا ہے اور ڈیٹا تک رسائی ڈیٹا کے آن لائن کے لیے جا سکے ہیں کہ اور اس اور ان
پڑھیں:
بورڈنگ پاس اور چیک ان کا خاتمہ؟ عالمی فضائی سفر کی انڈسٹری میں بڑی تبدیلیوں کا امکان
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)عالمی فضائی سفر کو تیز اور آسان بنانے کے لیے بڑی تبدیلیوں کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔
ممکن ہے بین الاقوامی ائیرپورٹس پر پروازوں کے لیے چیک ان کرنے یا اپنا بورڈنگ پاس تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔
دی گارڈینز کی رپورٹ کے مطابق انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (ICAO)، جو دنیا بھر میں ایئر لائن کے قوانین کو ترتیب دینے میں مدد کرتا ہے، ایک ایسی تبدیلی لانا چاہتا ہے جسے ”digital travel credential“ کہا جائے گا۔ یہ آپ کو اپنے پاسپورٹ کی تفصیلات اپنے فون پر محفوظ کرنے کی اجازت دے گا۔
رپورٹ کے مطابق آئندہ چند سالوں میں ہو سکتا ہے کہ آپ فلائٹ بک کر سکیں اور اپنے فون پر فوری طور پر ”سفر پاس“ حاصل کر سکیں۔ اگر آپ کی پرواز کے ساتھ کچھ بھی بدل جاتا ہے تو یہ پاس خود بخود اپ ڈیٹ ہو جائے گا۔ آپ کو چیک ان کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جب آپ کا چہرہ چیک پوائنٹ پر اسکین کیا جائے گا تو ایئر لائن کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ ہوائی اڈے پر موجود ہیں۔
اس کے علاوہ آپ اپنا پاسپورٹ اپنے فون پر بھی اپ لوڈ کر سکتے ہیں اور ID اور ٹکٹ دکھانے کے بجائے ہوائی اڈے سے گزرنے کے لیے چہرے کی شناخت کا استعمال کر سکیں گے۔
ٹریول ٹیک کے ماہر Valérie Viale نے کہا کہ یہ 50 سالوں میں ہوائی سفر میں سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔ آخری بڑی تبدیلی 2000 کی دہائی کے اوائل میں ای ٹکٹس تھی۔ اب، انڈسٹری آن لائن شاپنگ جیسے نظام کی طرف جانا چاہتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ انڈسٹری نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جدید سسٹمز کو اپ گریڈ کیا جائے۔
ائیرپورٹ کو فیس اسکینرز اور ٹولز جیسی چیزوں کے ساتھ اپنے سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی ضرورت ہوگی جو فون سے پاسپورٹ دیکھ اور معلومات پڑھ سکیں ۔ وائل نے کہا کہ بہت سے ایئر لائن سسٹم پرانے ہوچکے ہیں اور 50 سال سے گزرنے کے بعد بھی تبدیل نہیں ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے ممالک میں مختلف ایئر لائن سسٹم اچھی طرح سے کام نہیں کرتے۔ مستقبل میں، چیزیں مسافروں کے لیے زیادہ مربوط اور ہموار ہوں گی۔
مزیدپڑھیں:پی ایس ایل 10: کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پشاور زلمی کو شکست دیدی