بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کوغیر ملکی ایجنسیوں کی سپورٹ حاصل ہے: سابق بی ایل اے کمانڈر
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
ویب ڈیسک: ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے والے سابق بی ایل اے کمانڈر نجیب اللہ نے کہا ہے کہ بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کو غیر ملکی ایجنسیاں سپورٹ کررہی ہیں۔
مختلف دہشت گرد تنظیموں کو چھوڑ کر ہتھیار ڈالنے والے کمانڈرز نے کوئٹہ میں صوبائی وزرا اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی بلوچستان کے ہمراہ نیوز کانفرنس کی اور قومی دھارے میں شامل ہونے کا اعلان کیا، ہتھیار ڈالنے والے اہم دہشتگرد کمانڈرز میں نجیب اللہ عرف درویش عرف آدم، عبدالرشید عرف خدائیداد عرف کماش اور دیگر شامل ہیں۔
مراکش کشتی حادثے میں ملوث انسانی سمگلر گرفتار
دہشتگرد کمانڈر نجیب اللہ نے کہا کہ تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں قومی دھارے میں شامل ہونے کا موقع دیا، میں نے اپنی زندگی کے قیمتی 19سال ان تنظیموں کے نام کیے جس پر افسوس ہے، جو دوست اس وقت پہاڑوں میں ہیں ان کو بھی پیغام دینا چاہتا ہوں، دشمن ممالک ریاست کے خلاف ہمارے سر پر کھیل کھیل رہے ہیں، ریاست واپس آنے والوں کیلئے راستے کھولے تاکہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ باقی زندگی گزاریں،دہشتگرد کمانڈر عبدالرشید نے کہا کہ 2009 میں میری ملاقات بی ایل ایف کے کمانڈر عابد عمران سے ہوئی، عابد عمران نے میری ذہن سازی کی اس کی باتوں میں آکر دہشتگرد بن گیا، مجھے بہت خوشی ہے کہ واپس آچکا ہوں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کی بانی پی ٹی آئی کی بیٹوں سے فون پر بات کروانے کی ہدایت
ایک اور دہشتگرد کمانڈر جنگیز خان نے کہا کہ میری عمر اٹھارہ سال اور تعلیم میٹرک ہے، غریب گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں، مزدوری کرتا تھا،مالی حالات خراب تھے، ہمارے علاقے کے بی ایل اے کمانڈر نے رابطہ کیا اور ذہن سازی کی، بی ایل اے کمانڈر نے پیسے کا لالچ دیاتھا۔
اس موقع پر ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا کہنا تھا کہ یہ دہشتگرد کمانڈرز قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں، پراپیگنڈے کے تحت نوجوانوں کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔
خطرناک اشتہاری ملزم عمان سے گرفتار
صوبائی وزیر ظہور احمد بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے، دہشت گردوں کے ہینڈلرز معصوم بچوں کو سبز باغ دکھا کر پہاڑوں پر لے جاتے ہیں، حکومت ہتھیار ڈالنے والوں کا کھلے دل سے خیر مقدم کرتی ہے، ہم نے پہاڑوں پر بیٹھے گمراہ افراد کیلئے راستہ کھولا ہے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: قومی دھارے میں بی ایل اے کمانڈر دہشتگرد کمانڈر نے کہا کہ
پڑھیں:
بلوچستان میں مذاکراتی تعطل، بلوچ خواتین کی رہائی پر ڈیڈلاک برقرار
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اپریل 2025ء) بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے لکپاس میں جاری احتجاجی دھرنے کے خاتمے کو گرفتار خواتین کی رہائی سے مشروط کر دیا ہے، جبکہ بلوچستان کی صوبائی حکومت نے سکیورٹی خدشات اور خواتین پر عائد الزامات کی بنیاد پر ان کی رہائی سے انکار کر دیا ہے۔
بلوچستان نیشنل پارٹی اور صوبائی حکومت کے درمیان اب تک مذاکرات کے چار دور ہوئے ہیں، جن میں تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آ سکی ہے۔ گرفتار بلوچ خواتین اور الزاماتبلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، گل زادی بلوچ، بیبو بلوچ اور دیگر خواتین کو کوئٹہ کی مقامی جیل میں '3 ایم پی او‘ کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔
(جاری ہے)
ان پر سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج ہیں، جن میں دہشت گردوں سے رابطوں اور جعفر ایکسپریس حملے میں ہلاک عسکریت پسندوں کی لاشیں لے جانے کی کوشش شامل ہیں۔بی وائی سی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حکومتی دباؤ کا ایک حربہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت ان خواتین کو رہا کرنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ وہ ان پر عائد الزامات کو سنجیدہ سمجھتی ہے۔
انہوں نے کہا، ''حکومت مذاکرات تو کر رہی ہے، لیکن دھرنا ختم کرنے کا دباؤ ڈال رہی ہے۔‘‘ احتجاج اور حکومتی اقداماتدریں اثنا بی وائی سی نے گرفتار خواتین کی رہائی نہ ہونے کے خلاف 13 اپریل کو بلوچستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب، بی این پی 14 اپریل کو لکپاس میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے جا رہی ہے، جس میں 'تحریک تحفظ آئین پاکستان‘ کی قیادت بھی شریک ہو گی۔
بی این پی کے رہنما ثناء اللہ بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''حکومت مذاکراتی عمل میں غیر سنجیدگی دکھا رہی ہے۔ ہمارا مطالبہ واضح ہے کہ گرفتار خواتین کو رہا کیا جائے۔ سندھ میں سمی دین بلوچ اور دیگر خواتین کو رہا کیا گیا، لیکن بلوچستان حکومت اس قانون کے استعمال میں بے اختیار کیوں ہے؟‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''اس کشیدگی کو اس وقت تک ختم نہیں کیا جا سکتا، جب تک صوبائی اور مرکزی حکومت بلوچستان کے زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی۔
‘‘آغا حسن بلوچ نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے قومی شاہراہوں کو خندقیں کھود کر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر رکھا ہے، جس سے صوبے بھر میں خوراک کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ''بی این پی کارکنوں کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے عوام کو مشکلات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔‘‘
حکومتی موقف کیا ہے؟صوبائی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما علی مدد جتک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ بی این پی احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا، ''احتجاج قانون کے دائرے میں رہ کر کیا جا سکتا ہے، لیکن بی این پی صوبے کو شورش کا شکار بنانا چاہتی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر کے خلاف الزامات کا دفاع عدالتوں میں ہونا چاہیے، سڑکوں پر نہیں۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ حالیہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے سکیورٹی انتظامات سخت کیے گئے ہیں اور دفعہ 144 نافذ ہے، جس کی بی این پی خلاف ورزی کر رہی ہے۔
جے یو آئی (ف) کی ثالثی کی کوششجمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر مولانا عبدالواسع نے کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی ہے اور اسے سیاسی بصیرت سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''ہم نے سردار اختر مینگل اور وزیر اعلیٰ سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو۔ اختر مینگل کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں کہ حل نہ ہو سکے۔‘‘
انہوں نے زور دیا کہ طاقت کے بجائے دانشمندی اور دور اندیشی سے حالات بہتر کیے جائیں، کیونکہ سیاسی عدم استحکام سے نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے دیگر حصے بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد