صوبائی محکمہ منصوبہ بندی وترقیات سندھ نے تمام محکموں کی سالانہ آڈٹ رپورٹ تیار کرنا شروع کردی محکمہ منصوبہ بندی وترقیات نے تمام محکموں کو خط لکھ کر ترقیاتی منصوبوں کی تفصیلات طلب کرلیں ۔ آڈٹ اعتراضات پر ایک کھرب چودہ ارب انتالیس کروڑ روپے کی مالی بے قاعدگیوں کی چھان بین شروع کی ہے ۔ یہ مالی بے قاعدگیاں نامکمل ترقیاتی منصوبوں میں کی گئی ہیں جن کی تفصیلات مانگ لی گئی ہیں ۔ مالی سال دوہزار تئیس چوبیس میں کی گئی بے قاعدگیوں پر اب تک کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں اور تمام محکموں نے ڈپارٹمنٹل اکاؤنٹس کمیٹیوں نے اب تک کتنے اجلاس بلائے ہیں جبکہ ڈی اے سی کے اجلاس میں آڈٹ اعتراضات ختم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں ۔ آڈٹ اینڈ انسپیکشن رپورٹ پر تمام محکمے اپنے اقدامات کے بارے میں آگاہ کریں۔

.

ذریعہ: Juraat

پڑھیں:

فتوی آ گیا جہاد فرض ہے

کتِب علیکم القِتال ۔ مسلمان مظلوم ہوں تو ان کی مدد کے لئے جہاد کرنے کو اللہ تعالیٰ نے خود بلایا ہے، جھنجھوڑ کر بلایا ہے۔ اور جب وہ مدد کے لئے پکاریں تو ان کی مدد کے لئے فوری اقدام کرنا ہی مسلمانوں کی لازمی ذمہ قرار دیا ہے۔
وِانِ استنصروکم فِی الدِینِ فعلیکم النصر فعلیکم النصر کے جملے میں صرف مدد کا حکم نہیں تین تاکیدوں کے ساتھ حکم ہے ۔ وجوب کی تاکید، علیکم کا معنی ہے کہ یہ کام لازم ہے ۔حصر کی تاکید یعنی صرف یہی آپشن ہے۔ جلدی کی تاکید کہ یہ کام فوری کرنے کا ہے ۔اگر مسلمان اب تک فتوے کے انتظار میں رہے تو الحمد للہ وہ بھی آ گیا ہے اور متفقہ آ گیا ہے۔ اور جب جہاد کی فرضیت کا حکم آ جائے تو معاشرہ ہمیشہ تین طرح کے لوگوں میں تقسیم ہو جاتا ہے۔
-1 جہاد کے لئے نکل پڑنے والے الحمدللہ امت میں ایسے اہل ایمان ہیں اور ہمیشہ رہیں گے جو مسلمانوں کی مدد کے لئے قتال کرنے کو اپنی لازمی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ اپنی اولین ترجیح بنائے رکھتے ہیں۔ ان کے کان ہمیشہ مظلوموں کی پکار کی طرف لگے رہتے ہیں۔ ان کے دل ہمہ وقت امت کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ان کے بازو شجاعت کے جوہر دکھانے اور اللہ کے ان دشمنوں کو عذاب دینے کے لئے مچلتے رہتے ہیں جو اہل ایمان پر ظلم و ستم کریں اور اللہ کے دین کو مٹانے کے در پے ہوں۔ وہ اپنے جسموں کو مضبوط اور عزائم کو توانا رکھتے ہیں۔ وہ اپنی دنیا کو آخرت کے بدلے میں بیچ ڈالتے ہیں اورجنت کے حصول کے میدانوں کی طرف دیوانہ وار لپکتے ہیں۔ وہ نہ فتاوی کا انتظار کرتے ہیں نہ دلائل کی موشگافیوں میں الجھتے ہیں۔ انہیں قرآن سے ، آقا مدنی ﷺ کی سیرت مبارکہ سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے طرز عمل سے یہ مسئلہ سمجھ آ چکا ہے اور ذہن نشین ہو چکا ہے کہ ایسے وقت میں ان مظلوموں کی مدد کو پہنچنا ہی ان کی اولین ذمہ داری ہے۔ ان کے گھوڑے تیار اور تلواروں کی دھار آبدار رہتی ہے اور وہ میدانوں کی کھوج میں رہتے ہیں۔ وہ دن رات یہی پیغام لے کر پھرتے ہیں اور اسی فکر کو عام کرتے ہیں۔ اگرچہ ملامتیں سہتے ہیں اور تنہائیاں برداشت کرتے ہیں۔ انہیں مبارک ہو یہ اصل کامیابی کے راستے پر ہیں۔ یہ قرآن کا فیصلہ ہے۔ انہوں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا اور ان کی مبارک جماعت کا راستہ پایا ہے۔
لِکنِ الرسول و الذِین امنوا معہ جاھدوا بِاموالِہِم و انفسِہِم ۔ رسول اللہﷺ اور ان کی مبارک جماعت ہر طرح کے حالات میں جہاد پر نکلے۔ یہ ان کا طرز عمل اور اسوہ حسنہ ہے۔ بدر جیسی بے سروسامانی ہو یا احزاب جیسے ایمانی امتحان کے مواقع۔ احد کے لاشوں سے اٹے میدانوں سے بھی نکل پڑنے کا حکم آ گیا تو اپنے زخموں کو سہلاتے ہوئے چل پڑنے والے۔
الذِین استجابوا لِلہِ و الرسولِ مِن بعدما اصابہم القرح ۔ ان اہل ایمان کے لئے کیا انعام ہے؟ و اولٓئک لہم الخیرت۔ یہی بھلائیاں پانے والے ہیں۔ دنیا آخرت کی خیریں سمیٹنے والے اور رب سے رضا کی اکبر نعمت پانے والے ہیں۔ و اولٓئک ہم المفلِحون اور کامیابی تو بس انہی کے لئے ہے۔
بھائیو! دوستو ! بزرگو!اللہ تعالیٰ نے دنیا آخرت کی کامیابی جہاد میں رکھ دی ہے اوریہ قرآن کا واضح اعلان ہے۔یہ جہاد ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا؟اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے۔ہر وقت جہاد، دعوت جہاد، سچے نظریہ جہاد اور جہاد کی مکمل تیاری سے جڑے رہنے والوں کو خوشخبری ہو۔ ان کی یقینی کامیابی اور ان کے لئے دنیا آخرت کی بھلائیوں کا وعدہ رب تعالیٰ کی طرف سے آ چکا ہے۔
ومن اوفی بِعہدِہ مِن اللہ۔ معذوری کی وجہ سے جہاد میں نہ نکل پانے والے یہ اگر چاہیں کہ نہ نکل سکنے کی وجہ سے تارکین میں شمار نہ کئے جائیں، انہیں اس محرومی پر سوال اور عذاب کا سامنا نہ کرنا پڑے اور گنہگار نہ ہوں تو انہیں دو کام کرنے ہوںگے۔ -1 جہاد کی مکمل حسب استطاعت تیاری میں رہ کر اپنی نیت کی صداقت ثابت کرنا ہو گی۔ اگر تیاری سے غافل رہے تو یہ دعویٰ قبول نہ کیا جائے گا۔ قرآن مجید نے واضح اعلان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کا دعوی جھوٹ قرار دے دیا ہے ولو ارادوا الخروج لاعدوا لہ عدۃ ۔ ٹھیک ہے کہ آج امت کی اکثریت اسی حالت میں ہے کہ ان مظلوم مسلمانوں کی عملی مدد کو نہیں پہنچ سکتی۔ سرحدوں کی رکاوٹیں ہیں اور عالمی قوانین کی جکڑ بندیاں۔ اور سب یہی کہہ رہے ہیں کہ ہم اگر ان مجبوریوں میں نہ ہوتے تو ضرور جاتے۔ تسلیم بجا لیکن وہ تیاری کی وہ شرط کہاں ہے جو اس عذر کو سچا ثابت کر سکتی؟اور تیاری کے بغیر اگر پہلوئوں کا عذر ناقابل قبول ٹھہرا تو پچھلوں کے حق میں کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے؟جہاد کی فرضیت کے فتوے کا مخاطب حکمرانوں کو قرار دیا گیا۔ اللہ کرے انہیں شرم و حیا آئے اور وہ اپنے اختیار کو اسلام کے اس لازمی فرض کی ادائیگی میں استعمال کریں۔ لیکن ان سے امید کتنی ہے یہ ہم سب جانتے ہیں۔ عام المسلمین کو حسب طاقت مالی معاونت، بائیکاٹ اور آواز اٹھانے کا مکلف قرار دیا گیا۔ سب مسلمان یہ کام ضرور کریں کہ ایمانی غیرت کا کم سے کم تقاضا ہے۔
لیکن کیا جہاد کرنے کی ذمہ داری حکمرانوں کو سونپ دینے سے عام مسلمان اس فرض کی عملی ادائیگی سے بری ہو گئے؟کیا انہیں یہ نہیں بتانا چاہئے کہ ہر مسلمان پر عملی جہاد کی حسب استطاعت تیاری رکھنا ہر حال میں لازم ہے، اور ان حالات میں بطور خاص اس کا کیا حکم ہے؟ واعِدوا لہم ( دشمنوں سے مقابلے کی تیاری کرو)کیا یہ حکم صرف اہل اقتدار کے لئے ہے؟مِن قوۃ جسمانی قوت، اسلحہ، نشانہ بازی اور جہاد میں کام آنے والی ہر طاقت کا حصول کیا امت کے ایک طبقے پر لازم ہے دوسرے پر نہیں؟و مِن رِباطِ الخیل ِ۔گھوڑے پالنے، گھڑ سواری سیکھنے شہسوار بننے کا حکم کیا مخصوص مسلمانوں کے لئے ہے؟کیا جہاد کی سچی نیت کے بغیر موت آ جانے پر مات علی شعبۃ من نفاق کی وعید کسی کے لئے ہے اور کسی کے لئے نہیں؟اور اس سچی نیت کی جانچ کا پیمانہ اور کسوٹی جہاد کی تیاری کو کسی ایک طبقے میں حق میں قرار دیا گیا ہے یا سب مسلمان اس کے مخاطب ہیں؟ہم بائیکاٹ ضرور کریں اور ایسی تمام مصنوعات کو اپنی ذاتی استعمال سے بھی باہر کریں اور کاروبار سے بھی جن کا نفع ان دشمنان اسلام کو پہنچتا ہے۔
جہاد کو نہ ماننے والے، تاویلیں کرنے والے، بہانے ڈھونڈنے والے، مجاہدین پر طعن و تشنیع کے تیر برسانے والے، ان کے مقابل اپنی بزدلی اور بے حمیتی کو عقلمندی سمجھنے والے۔ انہیں برے حالات کا ذمہ دار قرار دینے والے اور ان سب سے بڑھ کر لوگوں کو جہاد سے روکنے والے عبد اللہ بن ابی کے فرزندقرآن مجید کا زندہ معجزہ ہے کہ اس کا کوئی کردار بھی محو نہیں ہوتا۔ کسی نہ کسی شکل میں زمین پر ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ کل بدر تھا آج غزہ ہیکل عبد اللہ بن ابی اور اس کی جماعت تھے تو آج غامدی اور اس کے ہمنوا ہیں ماضی میں غزوہ تبوک سے رہ جانے پر آنسو بہانے والے تھے تو آج بھی رات کی تاریکیوں میں سسکیوں اور آہوں سے اپنی بے بسی پر رونے والے موجود ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • حکومت کا آئندہ مالی سال کا بجٹ عید الاضحیٰ سے قبل پیش کرنے کا فیصلہ
  • وفاقی محتسب کے افسران کی پنڈ دادن خان میں کھلی کچہر ی،حا ضر نہ ہو نیوالے محکموں کے مقا می سر برا ہان کیخلاف کا رروائی نے کا فیصلہ
  • فتوی آ گیا جہاد فرض ہے
  • آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کیا ریلیف ملے گا؟ اہم خبر آگئی
  • سندھ اور بلوچستان میں 18 اپریل تک گرمی رہے گی
  • ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا اور جرمانے بڑھانے کی تجویز
  • سندھ کابینہ نے فرسٹ ایئر کراچی بورڈ کے طلبہ کو گریس مارک دینے کی منظوری دیدی
  • سندھ کابینہ نے پلاسٹک بیگز پر پابندی عائد کردی
  • حکومت کی عام آدمی پر مزید بوجھ ڈالنے کی تیاری، کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہونے کا خدشہ
  • سندھ: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر سزا اور جرمانے بڑھانے کی تجویز