مذاکرات یکطرفہ طور پر ختم کیے گئے، اب کس سے بات کریں؟ عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ مذاکرات یک طرفہ طور پر ختم کیے گئے ہیں، اب کس سے بات کریں؟۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ اس حوالے سے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آج بانی پی ٹی آئی عمران خان سے میری اور دیگر وکلاء کی ملاقات ہوئی ہے، خان صاحب نے پہلے بھی حکومت کو 7دن کا وقت دیا تھا، بانی پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ آج اگر حکومت نے کمیشن کا اعلان نہ کیا تو ہمارے مذاکرات ختم ہیں۔
آج میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم نے مذاکرات ختم نہیں کیے۔ جب ایک طرف سے ختم ہو گئے ہیں تو ہم کس سے بات کریں؟۔ ہم اُس کمرے میں بیٹھ کر دیواروں سے بات کریں۔
گزشتہ روز بھی عرفان صدیقی نے گفتگو کرتے ہوئے مشورہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی دوبارہ غور کرے، مذاکرات نہ چھوڑے۔ انہوں نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات سے انکار کیا ہے، آج بیرسٹر گوہر کے بیان پر افسوس ہوا، پی ٹی آئی والوں کو کہتے ہیں کچھ دن ٹھہر جائیں، پی ٹی آئی کو آنے اور جانے کی بھی جلدی ہے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی سے بات کریں پی ٹی آئی نے کہا
پڑھیں:
عوام خود کھڑے ہوں,حکمرانوں کی پروا کیے بغیر اسرائیلی ظلم و جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں:مولانا فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کراچی میں منعقدہ اسرائیل مردہ باد ملین مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کراچی کے عوام نے جمعیت علمائے اسلام کی آواز پر لبیک کہہ کر اسلامی تاریخ کا ایک عظیم اجتماع قائم کیا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے اپنے پرجوش خطاب میں کہا کہ ہم خون کے آخری قطرے تک اہلِ غزہ اور مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔ آج کا یہ اجتماع اسلامی دنیا کے حکمرانوں کو غیرت دلا رہا ہے۔ اگر بیس ہزار بچوں اور بیس ہزار خواتین کی شہادت بھی انہیں بیدار نہیں کر سکی، تو ہم اور آپ انہیں کیسے جگائیں گے؟انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام خود کھڑے ہوں اور حکمرانوں کی پروا کیے بغیر اسرائیلی ظلم و جارحیت کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کریں۔مولانا نے تاریخی تناظر میں اسرائیل کی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد فلسطین میں یہودی آبادی صرف دو فیصد تھی۔ اسرائیل کوئی ملک نہیں، بلکہ عرب سرزمین پر ایک غاصب قبضہ ہے۔ یہ ایک خنجر ہے جو عربوں کی کمر میں گھونپا گیا۔”انہوں نے عالمی قوتوں پر بھی کڑی تنقید کرتے ہوئیے کہا کہ آج امریکہ اور یورپ انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، لیکن مسلمانوں کا خون انہیں سستا نظر آتا ہے۔اگر سعودی عرب میں قصاص لیا جائے تو شور مچایا جاتا ہے. لیکن فلسطین میں بے گناہوں کے قتل پر خاموشی چھائی رہتی ہے۔”ان کا کہنا تھا کہ ہم امریکہ کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر افغانستان سے کچھ نہیں سیکھا، تو وہ وقت دور نہیں جب آپ کو ہمیں جواب دینا ہوگا۔انہوں نے اس اجتماع کو فلسطینی عوام کے عزاز میں ایک تاریخ ساز مظاہرہ قرار دیا اور کہا کہ دنیا بدل رہی ہے .معیشت کا توازن تبدیل ہو رہا ہے اور مسلمانوں کو اب ایک نئی حکمت عملی کے تحت متحد ہونا ہو گا۔آخر میں مولانا فضل الرحمان نے عوامی بیداری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وقت آ گیا ہے کہ مسلمان مذہبی، سیاسی اور معاشی میدانوں میں متحد ہوکر اپنا کردار ادا کریں اور مظلوم فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔