چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) جسٹس یحییٰ آفریدی نے ملک میں عدالتی نظام کو جدید بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر اصلاحات متعارف کروائی ہیں تاکہ شفافیت اور انصاف کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ عدلیہ کے اعلیٰ معیار کو قائم کیا جائے۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس اقدام کا مقصد شہریوں اور مدعی کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ان تک مؤثر انداز میں انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے پاکستان کے عدالتی نظام کو مؤثر، فعال اور جدید بنانے کے لیے ایڈوانسڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کو سسٹم میں متعارف کرایا۔

نئے انفارمیشن ٹیکنالوجی نظام کے تحت (ای- ایفیڈیوٹ) الیکٹرانک بیانِ حلفی متعارف کرایا گیا ہے جو کہ مقدمات دائر کرنے کے نظام کو سہل بنانے کے ساتھ ساتھ وکلا اور سائلین کے لیے مصدقہ نقول حاصل کرنے کے طریقہ کار کو بھی آسان بنائے گا۔

ضلعی عدلیہ کے کردار کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے چیف جسٹس نے دور دراز علاقوں کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے عدالتوں کو درپیش وسائل اور مسائل کا مشاہدہ کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شفافیت اور عوامی اعتماد کو فروغ دینے کے لیے مدعی، سول سوسائٹی اور وکلا کے حوالے سے رائے عامہ کا نظام بھی قائم کیے گئے ہیں۔

تعیناتیوں میں شفافیت کو برقرار رکھنے کے لیے جسٹس یحییٰ آفریدی نے متعدد کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو سینئر ججز اور اٹارنی جنرل آف پاکستان (اے جی پی) منصور عثمان اعوان پر مشتمل ہیں۔

کمیٹیوں کو قائم کرنے کا بنیادی مقصد لا اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان (ایل جے سی پی) کے سیکریٹری، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان (جے سی پی) اور سپریم جوڈیشل کمیشن کونسل (ایس جے سی) میں تعیناتیوں کے عمل کی نگرانی کرنا شامل ہے۔

لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے کمیٹی کی سربراہی چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کریں گے جبکہ ان کے ساتھ جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید بھی انٹرویو پینل میں شامل ہوں گے، لا اینڈ جسٹس کمیشن کے سیکریٹری کے لیے صوبائی چیف سیکریٹریز امیدوار نامزد کریں گے۔

ججز کی تعیناتی کے لیے قائم ادارے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل اور اٹارنی جنرل پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی۔

اسی طرح سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری کی تعیناتی کے لیے کمیٹی جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور اٹارنی جنرل آف پاکستان پر مشتمل ہوگی۔

مذکورہ کمیٹیاں امیدواروں کا انٹرویو کریں گی جس میں 5 ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اور صوبوں کے چیف سیکریٹریز کی جانب سے نامزد حاضر سروس اور ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ اور سیشن جج شامل ہوں گے۔

دوسری طرف ایک علیحدہ پیش رفت میں پاکستان بار کونسل نے سال 2025 کے لیے لاہور سے چوہدری طاہر نصراللہ وڑائچ کو اپنے وائس چیئرمین کے طور پر منتخب کیا، جبکہ پشاور سے محمد طارق آفریدی کو بطور ممبر ایگزیکٹیو کمیٹی شامل کرلیا۔

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی تعیناتی کے لیے کے سیکریٹری ا ف پاکستان چیف جسٹس

پڑھیں:

عدالتی بینچز کے اختیار سماعت سے متعلق کیس: اٹارنی جنرل کا عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض

عدالتی بینچز کے اختیار سماعت سے متعلق کیس: اٹارنی جنرل کا عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض WhatsAppFacebookTwitter 0 22 January, 2025 سب نیوز

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کے اختیار سماعت کے تعین سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ اس کیس کا 26 ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں جب کہ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کیس میں عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کیا۔

سپریم کورٹ میں عدالتی بینچز کے اختیار سماعت کے تعین کا معاملے کی سماعت جاری ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل دو رکنی بنچ سماعت کر رہا ہے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت عظمٰی میں پیش ہوئے اور عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کیا۔

انہوں نے مؤقف اپنایا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ 26ویں ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلاء ہیں۔

دوران سماعت عدالت نے مزید 2 عدالتی معاون مقرر کردیے، خواجہ حارث اور احسن بھون کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے، شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا اسکا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔

گزشتہ روز عہدے ہٹائے گئے جوڈیشل افسر نذر عباس عدالت میں پیش ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ نے نذر عباس سے مکالمہ کیا کہ ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا، آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے، پتا نہیں آپ کا اس میں کتنا کردار ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کرمنل اوریجنل اختیار سماعت کے تحت یہ معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے، جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے، وہ 26 ویں ترمیم چیلنج کرنے والے وکلا ہیں۔

جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپ کی رائے درست ہے، ہمیں اس بات کا ادراک بھی ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چلیں ہم اسی گروپ میں سے کسی اور بھی عدالتی معاون مقرر کر لیتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت اب بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس کیس کا 26ویں آئینی ترمیم سے کوئی لینا دینا نہیں، اگر خود سے ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات ہے۔

عدالت نے نذر عباس کو کل تک تحریری جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ مسکرا رہے ہیں، عدالتی معاون کیلئے کوئی نام تجویز کر دیں۔

اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے کہا میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، کسٹم ایکٹ کا مرکزی کیس آپ کے سامنے نہیں ہے ابھی۔

عدالتی معاون منیر اے ملک وڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ایک جوڈیشل آرڈر کو انتظامی حکم سے بدلا نہیں جا سکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2اے کے تحت فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ انتظامی کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ منیر اے ملک صاحب یہ بتائیں کہ کیا توہین عدالت کیس میں ہم ایسا کوئی حکم جاری کر سکتے ہیں؟ منیر اے ملک نے جواب دیا کہ اس مسئلہ کو ہمیشہ کے لیے طے ہونا چاہیے کیونکہ یہ عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہوا ہے۔

عدالتی معاون حامد خان نے دلائل شروع کیے، عدالت مزید 2 عدالتی معاونین مقرر کردیے، خواجہ حارث اور احسن بھون عدالتی معاونین مقرر کیا گیا، کیس میں عدالتی معاونین کی تعداد 4 ہوگئی، گزشتہ سماعت میں منیر اے ملک اور حامد خان کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھاعدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

منیر اے ملک نے کہا کہ اب جوڈیشل آرڈرکو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بینچ تبدیل ہوا تھا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا، سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے ایک معزز جج کو نکال دیا جاتا ہے، ایک کیس چل رہا ہو اسکو بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ مطلب یہ کہ جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اسکی واپسی نہیں ہے،وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ جہاں سوال اٹھے گا وہ کیس لیا بھی جا سکتا ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ۔سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بینچ کے سامنے نا ہو، وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ پہلے سارے کیسز ۔سیکشن 2 کی کمیٹی کے پاس جائیں گے،

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک 2 اے کی کمیٹی کی ایکسر سائز رہی ہے کہ کمیٹی ریگولر بینچز ،ہی بنائے گی، 2 اے میں کمیٹی بینچ تبدیل کر سکتی تھی اس صورت میں جب کیس کسی کورٹ میں نا ہو،

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ آئینی بینچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے، وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں، مطلب یہ اوور لیپنگ ہمشیہ رہے گی، یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لئے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ آئین میں چیف جسٹس پاکستان اور دیگر ججز کا زکر ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا ہم دیگر ججز کی تعریف میں آتے ہیں،جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ اب تو ہم دیگر ہی ہو کر رہ گئے ہیں، عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل مسکراتے رہے۔

منیر اے ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے، تین رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بنچ کو بھیجنا ہیں، میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی، کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے۔

کہا یہ گیا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بنچ میں لگ گیا تھا، اگر یہ غلطی تھی تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ بلڈنگ میں کھلا دھندا،عبد الرشید سولنگی من پسند ٹھیکیداروں پر مہربان
  • چیف جسٹس نے جوڈيشل کمیشن میں تقرریوں کیلئے کمیٹیاں بنادیں، اعلامیہ
  • الیکٹرانک بیان حلفی اور سپریم کورٹ میں اہم تقرریاں
  • بینچز اختیارات کیس کا آئینی ترامیم سے تعلق ہیں کوئی ویسے ڈرجائے تو الگ بات ہے،جسٹس منصور
  • کمیشن نہیں تو حکومت کے ساتھ مذاکرات بھی نہیں ، پی ٹی آئی کا اعلان
  • بینچز اختیارات کیس کا آئینی ترمیم سے تعلق نہیں، خود ہی ڈرنے لگ جائیں تو الگ بات، جسٹس منصور
  • عدالتی بینچز کے اختیار سماعت سے متعلق کیس: اٹارنی جنرل کا عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض
  • جسٹس اعجاز سواتی نے قائم مقام چیف جسٹس بلوچستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • چیئرمین زرعی ریسرچ کونسل کو ہٹانے کا عدالتی حکم معطل