WE News:
2025-01-24@09:45:18 GMT

وہ ایک ’لفافہ‘ جسے تو۔۔۔۔

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

 ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جناب عمران خان معروف اینکر پرسن جناب حامد میر کے ٹی وی پروگرام میں، پاکستان میں کرپشن کے خلاف گرما گرم گفتگو کر رہے تھے، وہ اس وقت اپوزیشن رہنما تھے اور ابھی ایوان وزیراعظم میں داخل ہونے سے چند برس دور تھے۔ وہ فرما رہے تھے’ ملک ریاض ہم پر ایک احسان کر جائے  کہ وہ ان سارے لوگوں کے نام بتا دے جنھیں اس نے رشوت دی ہے۔ اس کے پاس ثبوت ہیں، ٹیپس ہیں، رسیدیں ہیں۔‘

جناب عمران خان کے بقول’ ملک ریاض لوگوں کو ’کانا‘ کرکے آپریٹ کرتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح ان لوگوں کی شکلیں سامنے آ جائیں جنھیں اس نے رشوت دی ہے۔‘

یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک ریاض حسین کراچی میں بھی بحریہ ٹاؤن کے نام پر رئیل اسٹیٹ کا خوب بزنس کر رہے تھے، ان کے بارے میں کہانیاں زبان زدعام تھیں کہ ان کے  پھیلتے ہوئے بزنس کی راہ میں کوئی چھوٹی رکاوٹ آ نہیں سکتی، اگر کبھی کوئی موٹی رکاوٹ آئے تو وہ اس کا علاج بھی کافی تگڑا سا کرتے ہیں۔ وہ وکیل کرنے کے قائل نہیں، بلکہ وہ جج بھی نہیں کرتے، سیدھا چیف جسٹس کرتے ہیں۔ وہ اس قدر طاقت ور ہیں کہ جن افسروں سے پوری قوم ڈرتی ہے،  وہ افسر ملک ریاض کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہوتے ہیں۔

جناب عمران خان مذکورہ بالا ٹی وی پروگرام میں جو کچھ کہہ رہے تھے، وہ اس تناظر میں درست ہی تو تھا۔ لیکن جب وہ یہ باتیں کہہ رہے تھے تو انھیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایک روز وہ خود بھی ملک ریاض کے’ کانے‘ ہوجائیں گے اور پھر انھیں بھی ’آپریٹ‘ کیا جائے گا۔

آپ سوچیں، اگر ملک ریاض کے ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس کے ساتھ جناب عمران خان نتھی نہ ہوتے تو  وہ  کم از کم اس کیس میں ’رسوا‘ نہ ہوتے، اس کیس کے چھینٹے ان کے دامن پر نہ پڑتے۔ اور ان کے ساتھیوں کو  اُس ملک ریاض کا دفاع کے لیے میدان میں چومکھی لڑائی نہ لڑنا پڑتی جس کے بارے میں عمران خان کہا کرتے تھے کہ وہ لوگوں کو ’کانا‘ کرکے آپریٹ کرتا ہے۔

اس امر پر سب ہی متفق ہیں کہ ملک ریاض حسین ایک سو نوے ملین پاؤنڈ غلط طور پر برطانیہ لے کر گئے تھے۔ یہ سب اتفاق کرنے والے اس لیے متفق ہیں کہ سب سمجھتے ہیں کہ برطانیہ کی عدالتوں میں انصاف ہوتا ہے۔ وہاں جو فیصلے ہوتے ہیں، غلط نہیں ہوسکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان فیصلوں پر کسی قسم کا کوئی سوال اٹھایا نہیں جا سکتا۔ ایک سو نوے ملین پاونڈ کیس کے تمام فریقوں میں سے کسی نے بھی  دہائی نہیں دی تھی کہ برطانوی عدالت نے انصاف کا خون کیا ہے حتیٰ کہ اس کیس کے مرکزی فریق ملک ریاض حسین نے بھی عدالت کے سامنے سرجھکایا اور فیصلے کو من و عن تسلیم کیا۔

عمران خان کے گلے میں اصلاً وہ لفافہ اٹکا اور لٹکا ہے جس کے اندر ملک ریاض حسین کے ساتھ ایک ڈیل چھپی ہوئی تھی۔ یہ ڈیل جناب عمران خان کے دست راست شہزاد اکبر نے کروائی تھی۔

سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ شہزاد اکبر ایک دستخط شدہ نوٹ لے کر ان کے پاس آئے، اس نوٹ پر شہزاد اکبر کے اپنے دستخط موجود تھے۔ نوٹ پر کابینہ سے منظوری لینے کا لکھا ہوا تھا۔ شہزاد اکبر نے بتایا کہ اس کانفیڈینشل ڈیڈ کو کابینہ میں منظوری کے لیے پیش کرنے کی وزیراعظم (عمران خان) نے ہدایت کی ہے۔ چنانچہ شہزاد اکبر کی یہ بات سن کر فائل کیبنٹ سیکرٹری کو بھجوا دی تاکہ معاملہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔

جب اعظم خان عدالت میں یہ بیان دے چکے  تو وہاں بیٹھے سابق وزیراعظم عمران خان نے ہاتھ کے اشارے سے انھیں سلام کیا۔ پھر دونوں کے مابین خوشگوار موڈ میں کچھ باتیں ہوئیں، روسٹرم کے قریب کھڑے صحافیوں کو عمران خان نے کہا کہ اعظم خان نے بالکل ٹھیک کہا، زبردست بیان ریکارڈ کروایا۔

اب اس سے آگے کا احوال عمران خان کی کابینہ کی رکن محترمہ زبیدہ جلال کی زبانی جانیے:

2019 ء میں کابینہ میٹنگ کے دوران شہزاد اکبر کی جانب سے ایک بند لفافہ پیش کیا گیا، بند لفافہ کابینہ میں ایڈیشنل ایجنڈے کے طور پر پیش کیا گیا۔ ایڈیشنل ایجنڈا کابینہ میں پیش کرنے سے قبل ضروری طریقہ کار نہیں اپنایا گیا۔ ضروری ہے کہ ایڈیشنل ایجنڈا کابینہ میں پیش کرنے سے قبل ممبران کو بریفنگ دی جائے۔ شہزاد اکبر نے کہا کہ 190 ملین پاؤنڈ کا معاملہ ہے جو کابینہ کے سامنے رکھنا ہے۔ شہزاد اکبر نے زور دیا کہ معاملہ حساس ہے، اسے فوری طور پر منظور کیا جائے۔

زبیدہ جلال نے بتایا ’ ایڈیشنل ایجنڈے کو بغیر بریفنگ پیش کرنے پر مجھ سمیت دیگر ممبران نے اعتراض کیا۔ ممبران نے اعتراض کیا کہ ایجنڈے پر منظوری سے قبل بحث ہونی چاہیے۔ شہزاد اکبر نے زور دیا کہ یہ پیسہ پاکستان واپس آئے گا، اس لیے اس ایجنڈے کو فوری طور پر منظور کریں۔ اس موقع پر عمران خان نے بھی کہا کہ اس ایڈیشنل ایجنڈے کو منظور کر لیں۔  صرف اس منطق پر مجھ سمیت کابینہ ممبران نے اس ایڈیشنل ایجنڈے کی منظوری دی۔‘ یہ ایڈیشنل ایجنڈا ہی  وہ بند لفافہ تھا۔‘

جس طرح ملک ریاض حسین ایک سو نوے ملین پونڈ کیس میں ہونے والے برطانوی انصاف پر انگلی نہیں اٹھاتے، اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کی قیادت بھی بند لفافے پر کابینہ کے دستخط ہونے سے انکار نہیں کرتی۔ اس کا، مگر کہنا یہ ہے کہ کابینہ کے فیصلوں کو  عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اب اس معاملے کے تین پہلو ہیں:

اول: کابینہ کو لاعلم رکھ کر ایک فیصلے پر دستخط کروانا کیسے قانونی اور اخلاقی طور پر جائز ہوا؟

دوم: ملک ریاض کی رقم سیدھے سادے طور پر برطانیہ سے پاکستانی خزانے میں آتی تو کیا برا تھا؟ ایسا ہوتا تو ساری دنیا دیکھتی کہ عمران خان نے جو لوٹی ہوئی دولت پاکستان واپس لانے کا اعلان کیا تھا، اس میں ایک سو نوے ملین پاؤنڈ واپس آگئی۔ ساری پاکستانی قوم اس پر اش اش کرتی۔ لیکن شہزاد اکبر نے بھولے بھالے اور معصوم عمران خان کے کان میں جو پھونک ماری تو  وہ  اپنی ہی کہی ہوئی بات بھول گئے کہ ملک ریاض لوگوں کو ’کانا‘ کرکے آپریٹ کرتا ہے۔

پھر انھوں نے یہ معاملہ ساری قوم حتیٰ کہ اپنی ہی کابینہ، اپنے ہی قابل اعتماد ساتھیوں سے مخفی رکھ کر، اسے ’ حساس‘ قرار دے کر منظور کرایا۔ بلکہ اس معاملے کو سب سے پوشیدہ رکھ کر، ‘حساس’ قرار دے کر مشکوک بنا دیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ آخر اس معاملے بلکہ لفافے میں ایسا کیا تھا کہ اسے اپنی کابینہ اور اپنے انتہائی قابل اعتماد ساتھیوں سے چھپایا گیا کہ آنکھیں بند کرکے اس پر دستخط کردو، اگر یہ معاملہ صرف 190 ملین پاونڈز کا تھا، اگر اس رقم نے برطانیہ سے پاکستان آنا تھا اور بس!

آخر ملک ریاض سے ڈیل کیوں کرنے کی ضرورت پیش آئی؟ اور وہ ڈیل کیا تھی؟ اس کے مندرجات کیا تھے؟ دیانت دار شخص کی پوری زندگی کھلی کتاب ہوتی ہے، پھر جناب عمران خان کو معاملہ سربمہر کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

کیا ڈیل یہ نہ تھی کہ سپریم کورٹ نے ملک ریاض کو جو جرمانہ کیا تھا، وہ اسی ایک سو نوے ملین پاونڈز میں سے ادا کردیا جائے؟ اور اس کے بدلے میں جناب عمران خان کی خدمت میں کچھ عطیات اور کچھ تحائف پیش کردیے جائیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔ جبکہ بحریہ ٹاؤن کے متاثرین جائیں بھاڑ میں جو دراصل اس ایک سو نوے ملین پاونڈز کے اصل مالک تھے۔

جناب عمران خان کی خدمت میں جو عطیات اور تحائف پیش کیے گئے، ان کی تفصیل ہر جگہ بیان کی جارہی ہے۔ایک ٹرسٹ جس کے ٹرسٹی صرف میاں بیوی، 200 کنال زمین، انگوٹھیاں اور نجانے کیا کچھ۔

پاکستان تحریک انصاف کہ قیادت محض یہ کہہ کر چھوٹ نہیں سکتی کہ کابینہ کا فیصلہ عدالت میں چیلنج نہیں ہوسکتا۔

جناب عمران خان جس شفافیت کے پرچارک ہیں، اس کے بنیادی اخلاقی اصولوں کے مطابق کیا واقعی کابینہ کے فیصلوں پر عدالت میں انگلی نہیں اٹھائی جاسکتی؟

پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کو چیلنج کیا جاسکتا ہے تو کابینہ کے فیصلوں کو کیوں نہیں پرکھا جاسکتا؟

کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب عمران خان کی کابینہ کے فیصلے چیلنج نہیں ہوسکتے، باقی سب سربراہان حکومت کے ہوسکتے ہیں؟

کہیں ایسا تو عمران خان کی جماعت کو جس پارلیمان میں اکثریت حاصل ہو تو اس کی قانون سازی پر عدالت میں ایک بھی انگلی نہ اٹھے بصورت دیگر بیس، تیس انگلیاں اٹھنی چاہئیں؟؟؟

عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے خلاف خبر لگانے والے صحافیوں کو ’لفافہ ‘ کہا کرتے تھے، وہ لفافہ تھے یا نہیں، یہ  موضوع بحث ہے، البتہ آج کل عمران خان کا نام سنتے، پڑھتے ہی ’لفافہ‘ ہر کسی کو ضرور یاد آ جاتا ہے۔ دوسری طرف لفافے کا نام لیا جائے تو جناب خان صاحب کی تصویر اذہان و قلوب میں آویزاں ہوجاتی ہے۔

وہ ایک لفافہ جسے انہوں نے گراں سمجھا، اور یہ بھی سمجھا کہ وہ انھیں ہزار لفافوں سے نجات دے گا لیکن وہ ان کے گلے میں لٹک اور اٹک گیا۔

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عبیداللہ عابد

.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلوں کی منظوری دے دی گئی

اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلوں کی منظوری دے دی گئی۔

نجی ٹی وی کے مطابق وفاقی کابینہ کے اجلاس میں پاکستان میں کام کرنے والے غیرملکی 86 پائلٹس کے لائسنس کی توثیق میں دو سال کی منظوری دے دی۔

2025 میں نئے پائلٹس کی شمولیت کی فارن ویلیڈیشن میں تین سال کی توسیع کردی گئی۔

توشہ خانہ ایکٹ 2024 پر نظرثانی کے لیے وزیر دفاع کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن کی تعمیر نو کے عمل کی نگرانی کے لیے بھی کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔

وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ پرائم منسٹر ریلیف پیکیج مستحق تک پہنچانے کے لیے نئی موثر حکمت عملی بنائی جائے۔

علاوہ ازیں پریونشن آف الیکٹران کرائمز ایکٹ 2016 سے متعلق رولز آف بزنس میں ترمیم کی منظوری دی گئی،نیشنل سییڈ ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین اور ممبران کی تعیناتی کے قواعد کی منظوری دی گئی۔

عمار حبیب کی بطور ممبر فنانس نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ایپلٹ ٹریبونل تعیناتی کی منظوری دی گئی، اقتصادی رابطہ کمیٹی کے 6 اور 17 جنوری کے فیصلوں کی توثیق کی گئی ہے۔
مزیدپڑھیں:گاڑی اور پلاٹ کی‌ خریداری ، نان فائلرز کے لئے بڑی خبر آگئی

متعلقہ مضامین

  • وزیر اعظم کی نجی مصروفیت  وفاقی کابینہ کا   اجلاس ملتوی
  • وزیراعظم کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا آج ہونے والا اجلاس ملتوی
  • وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس کل بلانے کا فیصلہ
  • عمران خان کو ڈیل آفر نہیں ہورہی: فیصل واوڈا
  • عمران خان کو ڈیل آفر نہیں ہو رہی : فیصل واوڈا 
  • خیبر پختونخوا کابینہ کا اجلاس 24 جنوری کو طلب
  • اتراکھنڈ کی کابینہ نے یکساں سول کوڈ کے مَینُوَل کو منظوری دے دی
  • وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اہم فیصلوں کی منظوری دے دی گئی
  • عمران خان کی رہائی اب 6 ماہ کی نہیں صرف دو تین ماہ کی بات ہے. حامدرضا