فوج اور قوم کے خاص تعلق کا افسانہ اور حقیقت
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
پاک فوج کے سربراہ جنرل سید حافظ عاصم منیر نے فوج اور قوم کے تعلق کے حوالے سے دو بڑے دعوے کیے ہیں۔ خیبر پختون خوا کے سیاسی قائدین سے پشاور میں گفتگو کرتے ہوئے جنرل عاصم منیر نے کہا کہ قوم اور فوج کے درمیان ایک ’’خاص‘‘ رشتہ ہے۔ اس رشتے میں کسی خلیج کا جھوٹا بیانیہ بنیادی طور پر بیرونِ ملک سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت چلایا جارہا ہے۔ (روزنامہ جسارت۔ 15 جنوری 2025ء)
فوج اور قوم کے درمیان کسی ’’خاص رشتے‘‘ کی موجودگی کا بیان ایک افسانہ ہے اور پوری انسانی تاریخ میں یہ رشتہ کہیں موجود نہیں۔ جنرل عاصم منیر خیر سے سید بھی ہیں اور حافظِ قرآن بھی… وہ بتائیں کہ قرآن میں کہیں اس خاص رشتے کا ذکر ہے؟ ہم نے آج تک جتنی احادیث پڑھی ہیں ان میں کہیں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا ذکر موجود نہیں ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عہدِ مبارک ہمارے سامنے ہے، اس دور میں کوئی باضابطہ فوج یا Standing Army ہی نہیں تھی، چنانچہ اس دور میں قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے کا کوئی وجود ہی نہیں ہوسکتا تھا۔ مسلمانوں نے باضابطہ فوج یا ’’اسٹینڈنگ آرمی‘‘ حضرت عمرؓ کے زمانے میں تخلیق کی، اور اس فوج نے دو بڑے کارنامے انجام دیے۔ اس فوج نے وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرا دیا، مگر اس کے باوجود اس فوج نے سول افراد یا قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اب جرنیلوں کو ریاست چلانے کا اختیار دیا جائے۔ حضرت خالدؓ بن ولید اسلامی فوج کے سالار اور زندہ ’’لیجنڈ‘‘ تھے، عام فوجیوں اور عام مسلمانوں کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو جتنی فتوحات میسر آئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی وجہ سے آئی ہیں۔ حضرت عمرؓ تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے بیک جنبش قلم حضرت خالدؓ بن ولید کو معزول کردیا۔ لوگوں نے حضرت عمرؓ کو بہت سمجھایا کہ اس فیصلے سے فوج میں بددلی پھیلے گی، مگر حضرت عمرؓ نے واضح کیا کہ مسلمانوں کو جو فتوحات حاصل ہوئی ہیں وہ خالدؓ بن ولید کی شجاعت اور ذہانت سے نہیں بلکہ اسلام کی برکت سے حاصل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے خالدؓ بن ولید کو اُن کے عہدے پر بحال کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اگر وقت کی دو سپر پاورز کو منہ کے بل گرانے والی فوج کو کوئی ’’تقدس‘‘ حاصل نہیں تھا تو کسی اور فوج کو کیا ’’تقدس‘‘ حاصل ہوسکتا ہے، اور وہ قوم اور فوج کے کسی خاص رشتے پر کیسے اصرار کرسکتی ہے؟
فاتحین کی تاریخ بھی ہمارے سامنے ہے۔ محمد بن قاسم کے 17 ہزار فوجیوں نے راجا داہر کے ایک لاکھ کے لشکر کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، مگر اس کے باوجود سندھ پر فوج کی حکومت نہیں چلی۔ محمد بن قاسم کی حکومت چلی، اور محمد بن قاسم ایک ریاست کی علامت تھے۔ بابر نے 8 ہزار فوجیوں کی مدد سے ہندوستان فتح کیا مگر اُس کے کسی جرنیل نے یہ نہیں کہا کہ اب اس کی فوج کو ہندوستان پر حکمرانی کا حق حاصل ہوگیا ہے۔
جدید تاریخ کا پورا سفر ہمارے سامنے ہے۔ امریکا کی فوج نے امریکا کو دوسری عالمی جنگ جیت کر دی، مگر امریکا کی فوج نے اس فتح کے بعد قوم سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ اسے اب امریکا پر حکمرانی کا اختیار دیا جائے، نہ ہی کسی امریکی جنرل نے اقتدار پر قبضے کی کوشش کی۔ جنرل میک آرتھر امریکی فوج کا ’’لیجنڈری‘‘ جنرل تھا، اُسے امریکا کے ’’سول حکام‘‘ نے دوسری جنگ ِ عظیم میں بعض محاذوں پر پیش قدمی نہ کرنے کا حکم دے دیا۔ جنرل میک آرتھر نے صحافیوں کے روبرو اس حکم پر تبصرہ کرتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ امریکی فوجوں کی پیش قدمی جاری رہتی تو اچھا رہتا۔ یہ تبصرہ امریکی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوا تو امریکا کے سول حکام نے جنرل میک آرتھر کو فوراً محاذ سے واپس آنے کا حکم دے دیا۔ 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فوج نے پاکستان کو دو ٹکڑے کردیا اور 90 ہزار پاکستانی فوجیوں سے ہتھیار ڈلوا دیے، لیکن اس غیر معمولی فتح کے باوجود بھارتی فوج نے نہ قوم اور فوج کے درمیان کسی خاص رشتے کی موجودگی پر اصرار کیا، نہ اپنی عظیم الشان فتح کو بنیاد بناکر اقتدار پر قبضہ کیا، نہ اقتدار میں حصہ مانگا۔ اس کے برعکس پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے کا کریڈٹ بھارت کی سول قیادت یعنی اندرا گاندھی نے لیا اور انہوں نے کہا کہ آج ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزار سال کی تاریخ کا بدلہ لے لیا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے حصے میں جو فوج آئی وہ برٹش آرمی کا تسلسل تھی اور دونوں ہی ملکوں کو انگریزوں کے تربیت یافتہ فوجی میسر آئے۔ لیکن بھارتی فوج دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی فوج بن گئی اور اس نے ’’سول بالادستی‘‘ کو قبول کرکے سول اتھارٹی کی ماتحتی کو دل سے قبول کرلیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ 1947ء سے آج تک بھارت کے کسی جرنیل نے نہ اقتدار پر قبضہ کیا اور نہ مارشل لا لگایا۔ اس کے برعکس پاکستان کے حصے میں جو جرنیل آئے وہ اقتدار کے بھوکے تھے اور انہوں نے آج تک پاک فوج کو حقیقی معنوں میں ’’قومی فوج‘‘ نہیں بننے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمیدگل نے ہمیں ایک انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ پاک فوج تک برٹش آرمی کا تسلسل ہے۔ اس کا سب سے بڑا اور ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی جرنیل برطانوی سامراج کی طرح آقا اور غلام کی نفسیات کے دائرے میں سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ اپنی نظر میں ’’آقا‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’غلام‘‘۔ وہ ’’حاکم‘‘ ہیں اور پوری قوم اُن کی ’’محکوم‘‘۔ وہ ’’فاتح‘‘ ہیں اور قوم اُن کی ’’مفتوح‘‘۔ ساری دنیا کے جرنیل دشمن کو فتح کرتے ہیں مگر پاکستانی جرنیل ہر آٹھ دس سال بعد مارشل لا لگاکر اپنی ہی قوم کو فتح کرلیتے ہیں۔ وہ مارشل نہ لگائیں تو بھی حکم ملک پر جرنیلوں ہی کا چلتا ہے۔ وہ نہ آئین کو خاطر میں لاتے ہیں، نہ عدالتوں کی چلنے دیتے ہیں، نہ پارلیمنٹ کو سربلند ہونے دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں نہ قومی سیاسی جماعتوں کی کوئی وقعت ہے، نہ انہیں ’’آزاد ذرائع ابلاغ‘‘ درکار ہیں۔ انہیں ایسے سیاست دان درکار ہیں جو ان کے ’’ایجنٹ‘‘ کا کردار ادا کریں۔ انہیں ایسے صحافیوں سے محبت ہے جو ان کی شان میں قصیدے لکھ سکیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قوم اور فوج کے تعلق کو کسی اور نے نہیں خود جرنیلوں نے مجروح کیا ہے۔
تحریکِ پاکستان اور قیامِ پاکستان میں جرنیلوں اور فوج کا کوئی کردار نہیں تھا، اس لیے کہ 1940ء سے 1947ء تک کوئی فوج موجود تھی نہ کسی ’’پاکستانی جرنیل‘‘ کا وجود تھا۔ پاکستان ’’سول اتھارٹی‘‘ نے بنایا تھا اور وہی سول اتھارٹی پاکستان پر حکومت کی حق دار تھی۔ پاکستانی جرنیلوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا ہوتا تو قوم اور فوج کے تعلق میں کبھی کوئی خلیج پیدا نہ ہوتی، مگر جنرل ایوب نے 1958ء میں ملک پر پہلا مارشل لا مسلط کرکے پاکستان کی پوری نظریاتی اور سیاسی تاریخ پر پانی پھیر دیا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا مگر جنرل ایوب نے ملک و قوم پر سیکولر ازم مسلط کرنے کی گھنائونی سازش کی۔ قومیں آئین سے چلتی ہیں مگر جنرل ایوب نے 1956ء کے آئین کو ختم کردیا۔ آزاد صحافت ملک و قوم کے اساسی مفادات کی محافظ ہوتی ہے مگر جنرل ایوب نے آزاد صحافت کا گلا گھونٹ دیا۔ جنرل یحییٰ نے 1971ء میں ملک ہی توڑ دیا اور ملک بھی اس طرح ٹوٹا کہ ہمارے 90 ہزار فوجیوں نے ذلت کے ساتھ بھارت کے آگے ہتھیار ڈالے۔ اسلامی تاریخ میں اتنا بڑا ’’سرینڈر‘‘ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ حمود الرحمن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں جنرل یحییٰ سمیت 6 جرنیلوں کے کورٹ مارشل کی تجویز دی تھی، مگر اس تجویز پر عمل ہی نہیں ہوسکا۔ چنانچہ 1977ء میں جنرل ضیا الحق نے ملک پر مارشل لا مسلط کرکے ایک بار پھر قوم اور فوج کے رشتے میں دراڑ ڈال دی۔ جنرل ضیا الحق نے ملک کو ایٹمی پروگرام دینے والے اور ملک کو 1973ء کا متفقہ اسلامی آئین فراہم کرنے والے بھٹو کو پھانسی پر لٹکا دیا۔ جنرل پرویزمشرف نے نوازشریف کو اقتدار سے باہر کرکے ایک بار پھر قوم کو فتح کرنے کا مظاہرہ کیا۔ اس سے قوم اور فوج کے تعلق میں ایک اور دراڑ پڑی۔ پاک فوج کے موجودہ سربراہ جنرل عاصم منیر کی تین فضیلتیں ہیں۔ وہ ’’سیّد‘‘ ہیں، ’’حافظ‘‘ ہیں اور اقبال کے ’’عاشق‘‘ ہیں۔ چنانچہ ان کے کردار کو ماضی کے جرنیلوں کے کردار سے مختلف ہونا چاہیے تھا، مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت یہ ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں عمران خان کی پی ٹی آئی دو تہائی اکثریت حاصل کررہی تھی، مگر ماضی کی طرح جرنیلوں نے عمران خان کے سیاسی مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا اور پی ٹی آئی کو اکثر مقامات پر ہرا کر ن لیگ کو فتح یاب کردیا گیا۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پہلے نمبر پر تھی اور حافظ نعیم شہر کے میئر بننے والے تھے، مگر ایجنسیوں نے شہر پر پیپلز پارٹی کے مرتضیٰ وہاب کو مسلط کردیا۔ کراچی میں ایم کیو ایم تیسرے اور چوتھے نمبر پر تھی مگر ایجنسیوں نے گندا کھیل کھیل کر اُسے کراچی میں پہلے نمبر کی جماعت بنادیا۔ عمران خان کے خلاف 190 ملین پائونڈ کا فیصلہ ’’سیاسی‘‘ ہے ’’عدالتی‘‘ نہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ سیاست دان اور صحافی نہیں ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق میں دراڑ ڈالی ہے، بلکہ یہ جرنیل ہیں جنہوں نے قوم اور فوج کے تعلق کو تباہ کیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: قوم اور فوج کے تعلق مگر جنرل ایوب نے پاکستانی جرنیل کسی خاص رشتے مارشل لا ہیں اور پاک فوج اور قوم بن ولید ئی ہیں فوج کو فوج نے کی فوج کو فتح قوم کے کے کسی کہا کہ
پڑھیں:
موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، جسٹس منصور
سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سے تحریری جواب طلب کرلیا۔
نجی ٹی وی کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کے اعتراض پر مزید 2 عدالتی معاون مقرر کر دیے، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے بینچز اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا۔
ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں؟ آج آئے ہوئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا تھا؟، آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں۔
دوران سماعت اٹارنی جنرل آف پاکستان نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کیا اور موقف اختیار کیا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے، وہ چھبیسویں ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں، توہین عدالت کے کیس میں عدالتی معاون کا تقرر پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ توازن قائم کرنے کے لیے آپ کے تجویز کردہ نام بھی شامل کر لیتے ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا، تاہم عدالت نے وکلا خواجہ حارث اور احسن بھون کو بھی عدالتی معاون مقرر کر دیا۔
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ اور کوئی بھی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں کہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے سے نذر عباس کا کتنا تعلق ہے؟ نذر عباس صاحب! آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں، قانونی سوال پر 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کر سکتا ہوں، توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میرا کردار ذرا مختلف ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا موقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جاسکتا، توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے، شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا، اس کا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا؟۔
اٹارنی جنرل نے کہا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے، 26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے۔
دوران سماعت وکیل شاہد جمیل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بینچ تبدیل ہوا تھا، پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا، سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے، یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے، درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے ایک معزز جج کو نکال دیا جاتا ہے، ایک کیس چل رہا ہو اس کو بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مطلب یہ ہوا کہ جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اس کی واپسی نہیں ہے۔
شاہد جمیل نے کہا کہ جہاں سوال اٹھے گا، وہ کیس لیا بھی جا سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سوال اس صورت میں اٹھے گا، اگر کیس بینچ کے سامنے نا ہو۔
شاہد جمیل نے کہا پہلے سارے کیسز سیکشن ٹو کی کمیٹی کے پاس جائیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ٹو اے کی کمیٹی کی ایکسر سائز رہی ہے کہ کمیٹی ریگولر بینچز ہی بنائے گی، ٹو اے میں کمیٹی بینچ تبدیل کر سکتی تھی، اس صورت میں جب کیس کسی کورٹ میں نا ہو۔
شاہد جمیل نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے۔
وکیل نے موقف اپنایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں، مطلب یہ اوور لیپنگ ہمشیہ رہے گی، یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے۔
دوران سماعت عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کیا ہم توہین کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟
منیر اے ملک نے کہا کمیٹی فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے، کمیٹی اختیار پر بالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے، آئینی بینچ سپریم کورٹ کا صرف ایک سیکشن ہے، سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے۔ 3 رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنے ہیں، میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی۔
منیر اے ملک نے بتایا کہ کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے، کہا یہ گیا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا، اگر یہ غلطی تھی، تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا، اب جوڈیشل آرڈر کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے، یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے، معاملہ ہمیشہ کے لیے فل کورٹ سے ہی حل ہو سکتا ہے۔
عدالتی معاون حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی فورم عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کسی کیس میں 9 رکنی بینچ بنانے کی ہدایت کر سکتا ہے؟
حامد خان نے موقف اپنایا کہ عدالت 9 رکنی بینچ بنانے کا حکم دے تو عمل کرنا ہوگا، کوئی آئینی سوال آئے تو ریگولر بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے، سپریم کورٹ آئین کے مطابق ہی قائم کی گئی ہے، آئین میں لکھا ہے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دیگر ججز ہوں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمارا شمار دیگر ججز میں ہوتا ہے؟
جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے اب تو شاید ہم دیگر ججز ہی رہ گئے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب ویسے پوچھ رہا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے ججز کا حصہ ہیں؟
اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی بالکل آپ حصہ ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ویسے ہی پوچھ رہا تھا کہ آج کل پتا نہیں چلتا، دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے۔
عدالت نے مزید سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی۔