Jasarat News:
2025-04-15@11:14:21 GMT

اپنا اپنا فخر

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

اپنا اپنا فخر

ڈاکٹر زاہد منیر عامر
خبر آئی ہے کہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے نہم جماعت کے لیے سات کتابوں کا نیا سلیبس تیار کر لیا ہے، اب طلبہ اپنی مرضی سے اردو یا انگریزی میں سلیبس پڑھ سکیں گے۔ خبر کے مطابق پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ نے تمام تعلیمی اداروں اور بورڈز کو کتابوں کی تبدیلی کے حوالے سے آگاہ کر دیا ہے۔جولائی2019ء میں حکومت پنجاب نے ذریعہ تعلیم کو انگریزی سے تبدیل کر کے اردو بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے پنجاب کے محکمہ تعلیم نے بائیس اضلاع میں اساتذہ، طلبہ اور والدین کا سروے کروایا تھا جس کے مطابق ہر طبقے سے 85 فیصد افراد نے اردو کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حق میں رائے دی۔ اس کے باجود ذریعہ تعلیم میں زبان کی دورنگی جاری رہی اور یہ خبر اس بات کی مظہر ہے کہ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حیرت ہے کہ جو بات ایسٹ انڈیا کمپنی کو 1873ء میں معلوم ہو گئی تھی جب انہوں نے اردو کو سرکاری زبان بنانے کا فیصلہ کیا تھا وہ بات ہمارے منصوبہ سازوں کو اب تک کیوں معلوم نہیں ہو سکی۔ برطانوی دور حکومت میں ہندوستان کی تعلیمی ضروریات پوری کرنے کے لیے ایک ہی بڑی یونی ورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی تھی جس کا ذریعہ تعلیم انگریزی تھا۔ انگریزی کو یہ منصب فارسی سے چھین کر دیا گیا تھا، جس نے سات سو سال تک ہندوستان کے نظام تعلیم پر حکمرانی کی تھی۔ خطے کی تہذیبی اور تعلیمی زبان سے اس کا منصب چھین کر ایک اجنبی زبان کو دیے جانے کے نتائج اسی دورمیں آنا شروع ہو گئے تھے۔ حیرت ہے کہ ہم آج تک ان نتائج سے بے خبر ہیں۔ ہم کوئی تبصرہ کیے بغیر انگریزوں ہی کے قائم کردہ دہلی کالج کے ایک پرنسپل ای ولموٹ کی 31دسمبر 1876ء کی رپورٹ کی جانب قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہتے ہیں۔ یہ رپورٹ آج بھی پنجاب آرکائیوز میں موجودہے۔ ای ولموٹ کیمبرج یونی ورسٹی کے ممتاز ماہر تعلیم تھے۔ انہوں نے انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے والی کلکتہ یونیورسٹی کے حاصل کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا:’’ہمارے فاضلین کی اکثریت نہایت سطحی علم کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پاتی، خواہ وہ انگریزی ہو یا اس زبان میں حاصل کیے جانے والے دوسرے علوم، لہٰذا عمومی طور پر اس سے جو ذہنی تربیت ہو رہی ہے وہ خالص نقالی کے سوا کچھ نہیں‘‘۔ سطحیت ،نقالی اور تحصیل علوم میں زبان کی اجنبیت کے باعث پیدا ہونے والی رکاوٹ جیسے ان عوامل کواسی عہد میں جس اعلیٰ ترین سطح تک محسوس کیا گیا اس کا بڑا ثبوت اورینٹل کالج، پنجاب یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور کے بانی ڈاکٹر جی۔ ڈبلیو۔ لائٹنر کے خیالات ہیں جو انہوں نے ہندوستان آنے اور یہاں اعلیٰ ترین تعلیمی عہدوں پر فائز ہونے کے بعد ظاہر کیے۔ یہی احساس تھا جس نے 1856ء میں انجمن پنجاب کی تشکیل کی اور ڈاکٹر جی ڈبلیو لائٹنر نے اس نیم علمی، ادبی، سماجی انجمن کے مقاصد میں یہ بات شامل کروائی کہ اس انجمن کے ذریعے قدیم مشرقی علوم کا احیا کیا جائے گا اور اس ملک کے باشندوں کو مقامی زبانوں کے ذریعے تعلیم دے کر ان میں مفید علوم کی اشاعت کی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں جہاں لاہور سے اردو اخبارات ورسائل جاری ہوئے وہاں اورینٹل اسکول بھی قائم ہوا۔ انجمن پنجاب کی رپورٹوں کے مطابق قیام انجمن کے پہلے ہی سال 11ستمبر 1856ء کو منعقد ہونے والے اجلاس میں ڈاکٹر لائٹنر نے اورینٹل یونیورسٹی کے قیام کا تخیل بھی پیش کر دیا جس کے نتیجے میں بعد ازاں پنجاب یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ تاریخ کے طالب علم کے لیے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تہذیبی تفاوت کے جس المیے کا رونا آج رویا جاتا ہے اسے سب سے پہلے ان لوگوں نے محسوس کر لیا تھا جنھیں ہماری تہذیب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، آج ہم مسٹر میکلوڈ کا نام صرف لاہور کی ایک سڑک کی نسبت سے جانتے ہیں ،بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ مسٹر میکلوڈ sir donald friell mcleod 1856سے 1870 تک پنجاب کے گورنر رہے۔ جب اہل پنجاب کی جانب سے مشرقی علوم کی ایک یونیورسٹی کے قیام کے مطالبے پر مشتمل ایک محضر نامہ انہیں پیش کیا گیا تو انہوں نے اس حوالے سے لکھا تھا کہ غیر ملک کی زبان میں تعلیم دینے سے تعلیم کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ مسئلے کو تاریخی تناظر میں دیکھتے ہوئے مسٹر میکلوڈ نے یہ بھی لکھا کہ خود انگلستان میں جہاں شائستگی کے حصول کے لیے لاطینی اور یونانی زبانوں کی تحصیل ضروری سمجھی جاتی ہے، عام تعلیم کے لیے دیسی زبان یعنی انگریز ی ہی کو موزوں سمجھا جاتا ہے۔

مسٹر میکلوڈ کی یہ تحریر اپنے اندر بصیرت کا خاصا سامان رکھتی ہے۔ اس تحریر میں اعتراف کیا گیا کہ نئے نظام تعلیم نے اردو اور ہندی کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صرف یہی نہیں اس نظام سے کوئی اچھا انگریزی دان بھی نہیں نکلا۔ اس نظام کا حاصل فقط وہ لوگ ہیں جو سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے محض انگریزی بول چال سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے طلبہ کا فقدان ہے جو تعلیمی اداروں سے حصول علم کی خاطر منسلک ہوتے ہوں۔ گورنر نے اس طریقہ تعلیم کو ناقص قراردیتے ہوئے اس پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔ سر ڈانلڈ میکلوڈ نے اورینٹل یونیورسٹی کی اس تجویز پر کلکتہ کالج کے پرنسپل میجر ناسائو لیزسے بھی مشورہ کیا۔ ناسائولیز نے یہ کہتے ہوئے کہ اس نظام تعلیم نے صرف کلرک پیدا کیے ہیں، علمی خوبیوں کا حامل کوئی فرد پیدا نہیں کیا، گورنر کے خیالات کی تائید کی۔ اجنبی زبان میں تعلیم کے ان نتائج سے آگاہ ہو جانے پر انگریز حکام نے مقامی باشندوں کو مقامی زبانوں ہی میں تعلیم دینے کا فیصلہ کیا جس کے نتیجے میں پنجاب یونیورسٹی قائم ہوئی۔ پنجاب یونیورسٹی کے ایک کانووکیشن میں جب وائس چانسلر نے خطبہ استقبالیہ انگریزی میں پیش کیا تو وائسرائے ہند نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے مقامی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو اردو میں خطاب کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وہ بات جس سے انگریز واقف تھے ہم نجانے کیوں اب تک اس سے واقف نہیں ہو سکے؟ ذریعہ تعلیم کی بار بار تبدیلی سے نئی نسلوں کا جو نقصان ہوتاہے اور معاشرتی تفاوت کی جو راہیں کھلتی ہیں، ہم اس سے بے خبرہیں یا بے نیاز۔ پچھلے دنوں ایک دوست نے یہ بتا کر حیران کر دیا کہ اب ہمارے سرکاری دفاتر اور ٹیلی فون کمپنیوں میں اردو پیغام رسانی کے لیے رومن حروف استعمال کیے جاتے ہیں۔ توجہ دلانے پر کہا جاتا ہے کہ ’’پالیسی یہی ہے‘‘!۔ یاللعجب؟ زباں چھوٹی سو چھوٹی تھی خبر لیجیے رسم الخط بھی جاتا رہا؟ دکانوں کے بورڈ ہوں یا گاڑیوں کے نمبر ہمارے ہاں انگریزی میں لکھے جاتے ہیں حالانکہ ملک میں انگریزی جاننے والے عوام کی تعدادآٹے میں نمک کے برابر ہے پھرکیا یہ طریق کار ابلاغ کے اصولوں پر بھی پورا اترتا ہے؟ آپ جن لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا چاہتے ہیں کم از کم درجے میں زبان اور حروف تو وہ استعمال کیجیے جوان کی سماعتوں اور نگاہوں کے لیے مانوس ہوں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پنجاب یونیورسٹی یونیورسٹی کے ذریعہ تعلیم انہوں نے کے لیے کر دیا

پڑھیں:

مریم نواز کا لاہور میں پہلا نوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان

لاہور:وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا لاہور میں پہلا نوازشریف کے نام انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔

اناطولیہ ڈپلومیسی فورم سے خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کا کہنا تھا کہ 2024میں بطوروزیراعلیٰ منصب سنبھالا،صوبے میں تعلیم کے فروغ کیلئے اقدامات کیے ہیں،پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، یہاں مختلف شعبوں کی بہتری کیلئے اصلاحات پرکام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کے سفیر کے طورپر کام کررہی ہوں، پنجاب میں سکولوں کوجدید ٹیکنالوجی پرمنتقل کیا جا رہا ہے،بچیوں کو تعلیم یافتہ بنانا میری ترجیح ہے،ابتدائی تعلیم کے شعبےمیں بہتری کیلئے اقدامات کیے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا کہنا تھا کہ صوبے کے ہونہارسکالرشپ سے50ہزاربچوں کوتعلیم دی گئی، سکالرشپ کا50 فیصد حصہ بچیوں کو دیا جاتا ہے، پنجاب میں30ہزاراساتذہ میرٹ پربھرتی کر رہے ہیں، اساتذہ کی تربیت کیلئے بھی اقدامات کئے جا رہے ہیں۔

مریم نواز نے کہا کہ لاہور میں نوازشریف کے نام سے پہلا انٹرنیٹ سٹی بنانے جارہے ہیں، نصاب کو جدید تقاضوں کےمطابق بنایا جا رہا ہے اورآئی ٹی کی تعلیم کے فروغ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں آج غزہ میں موجود ماؤں کو نہیں بھولنا چاہیے، عوام کو فوری انصاف کی فراہمی ہمارا وژن ہے، مریم نواز پنجاب میں30ہزاراساتذہ میرٹ پر بھرتی کر رہے ہیں۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کا ’اپنی چھت، اپنا گھر پروگرام‘مختصر مدت میں منفرد ریکارڈ
  • ڈی چوک احتجاج، 86 پی ٹی آئی کارکنان کی درخواستِ ضمانت پر فیصلہ محفوظ
  • اپنی چھت، اپنا گھر پروگرام کے 21 ہزار 797 گھر تکمیل کے قریب ہیں: مریم نواز
  • امریکا میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا کے لیے خطرے کی گھنٹی، 122 کی امیگریشن حیثیت منسوخ
  • انگریزی میں نہیں اردو میں بات کروں گا؛ رضوان کی ویڈیو وائرل
  • وزیر اعلی پنجاب مریم نواز کانوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان
  • مریم نواز کی رجب طیب اردوان سے ملاقات
  • پنجاب میں پاکستان کی پہلی اے آئی یونیورسٹی بنا رہے ہیں، مریم نواز
  • لاہور میں اے آئی یونیورسٹی کا قیام، مستقبل کا تعلیمی منظرنامہ بدل رہا ہے، مریم نواز
  • مریم نواز کا لاہور میں پہلا نوازشریف انٹرنیٹ سٹی بنانے کا اعلان