گرمی، سردی، برسات، خزاں اور بہار۔ یہ وہ موسم ہیں جو زندگی میں بار بار آتے جاتے رہتے ہیں لیکن خود انسانی زندگی جن موسموں سے گزرتی ہے وہ اس کی ذات میں پھر پلٹ کر نہیں آتے۔ آدمی پیدا ہوتا ہے، پل پل بڑھتا ہے، یہ اس کا بچپن ہے جو چند سال اس کے ساتھ رہتا ہے، خوشی اور بے فکری کا زمانہ جس میں ہر چیز اسے خوبصورت لگتی ہے۔ وہ اپنے اردگرد اِن چیزوں کو چھونے اور پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں اس کا دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے، اس کی آنکھیں مسکرانے لگتی ہیں، اس کا چہرہ انجانی خوشی سے تمتما اُٹھتا ہے۔ ناکامی کی صورت میں اس کے چہرے پر اُداسی چھا جاتی ہے، اس کی آنکھیں آنسوئوں سے چھلک اُٹھتی ہیں، وہ دھاڑیں مار کر رونے لگتا ہے، ماں بے چین ہوجاتی ہے، اسے سینے سے لگا لیتی ہے اور جو چیز وہ پکڑنے میں ناکام رہا ہے ماں اسے پکڑ کر اس کی گود میں ڈال دیتی ہے۔ یہ ہے بچپن کا موسم جو چند سال آدمی کی زندگی میں دھومیں مچاتا ہے، ہنستا ہے، مسکراتا ہے، شرارتیں کرتا ہے، روتا دھوتا بھی ہے، ضد بھی کرتا ہے اور اپنی بات پوری ہونے پر خوش بھی ہوتا ہے۔ پھر چند سال بعد روٹھ کر اندھیروں میں چلا جاتا ہے جہاں سے وہ پھر کبھی واپس نہیں آئے گا، البتہ اس کی یادیں ہمیشہ اس کے دل میں جگمگاتی رہتی ہیں۔
بچپن کے بعد آدمی کی زندگی میں لڑکپن کا موسم آتا ہے یہ بھی بے فکری اور لا ابالی پن کا موسم ہے، جس میں آدمی تعلیم کے مدارج طے کرتا ہے، دوستیاں اور دشمنیاں بناتا ہے اور بعض اوقات یہ دوستیاں اور دشمنیاں اس کی زندگی میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکپن آدمی کو نئی آزمائش سے دوچار کردیتا ہے، والدین اسے پڑھانے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اسے اپنی دُنیا آپ پیدا کرنے کے لیے تنہا چھوڑ دیتے ہیں، وہ کسی موٹر مکینک کے پاس ’’چھوٹا‘‘ بن جاتا ہے جس کا کام اوزار پکڑانا اور پیچ کسنا ہوتا ہے اس کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور کچھ پیسے میسر آتے ہیں جن سے وہ اپنے والدین کی مدد کرتا ہے اور ’’کمائو پوت‘‘ شمار ہوتا ہے۔ پھر وہ ترقی کرتے کرتے مکینک بن جاتا ہے اور گاڑیاں ٹھیک کرنے لگتا ہے، اس وقت تک لڑکپن اس سے رُخصت ہوجاتا ہے اور جوانی کی صورت میں نیا موسم اس کی زندگی کی دہلیز پر دستک دینے لگتا ہے۔ یوں بھی ہوتا ہے کہ بے شمار لوگ اپنے کیریئر بنانے کی جدوجہد میں اپنی جوانی بھی صرف کر بیٹھتے ہیں، انہیں یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ زندگی کا یہ سب سے ولولہ انگیز اور پُرجوش موسم کب آیا اور کب رُخصت ہوگیا۔ وہ ازدواجی زندگی بھی گزار لیتے ہیں، کئی بچوں کے باپ بھی بن جاتے ہیں لیکن جوانی ان کے قریب سے بھی ہو کر نہیں گزرتی۔ جوانی کا موسم ان پر آتا ضرور ہے لیکن ان کو اس کی خبر نہیں ہوپاتی۔ پھر ایک دن وہ نیند سے بیدار ہوتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ بوڑھے ہوگئے ہیں اور بڑھاپا انہیں ایک انجانی منزل کی طرف لے جانے کے لیے آن کھڑا ہے۔ بڑھاپا انسانی زندگی کا وہ آخری موسم ہے جس کے بعد پھر رُت نہیں بدلتی اور بڑھاپا اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ مستقل موجود رہتا ہے۔ حتیٰ کہ موت کا بگل بجتا ہے تو وہ اپنے ہمسفر کو نئی منزل کی جانب روانہ کرکے خود بھی اپنی راہ لیتا ہے۔
آئیے اس موقع پر آپ کی ملاقات ایک ’’بابے‘‘ سے کراتے ہیں جو زندگی کے سارے موسم برت چکے ہیں اور اب بڑھاپے سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
س: بابا جی اِس وقت آپ کی عمر کتنی ہوگی؟
ج: میری عمر کا کیا پوچھتے ہو میں تو اِس وقت بونس پہ جی رہا ہوں۔
س: بونس سے کیا مراد ہے آپ کی؟
ج: مطلب یہ کہ میری طبعی عمر تو پوری ہوگئی ہے میرے ماں باپ بہن بھائی سب اسّی بیاسی سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے جس سے میں اندازہ کرتا ہوں کہ مجھے بھی رُخصت ہوجانا چاہیے کہ میں بھی اسّی کراس کرچکا ہوں۔ پچھلے دنوں فرشتہ روح قبض کرنے آیا بھی تھا لیکن قیاس یہی کہتا ہے کہ کارخانہ حیات کے مالک نے اس سے کہا کہ یہ بونس پر چل رہا ہے اسے چلنے دو، فرشتہ اجل اُلٹے قدموں واپس چلا گیا۔ اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بونس کیا ہوتا ہے۔ جو کمپنیاں بہت زیادہ منافع کماتی ہیں وہ اس منافع میں اپنے ملازمین کو بھی شریک کرلیتی ہیں اسے بونس کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو کارخانہ حیات چلا رہے ہیں اس میں وہ جس بندے کو چاہیں خصوصی بونس سے نواز دیں، یہ بونس مختلف صورتوں میں اسے دیا جاتا ہے اس کی ایک صورت درازیٔ عمر بھی ہے۔ میری کار گزاری حیات تو ایسی نہیں کہ انعام کا مستحق ٹھیروں لیکن اللہ غفور الرحیم ہیں جسے چاہیں نواز دیں۔
س: آپ نے بچپن، لڑکپن اور جوانی کا لطف اُٹھایا ہے، زندگی کے یہ موسم آپ کو کیسے لگے اور آپ بڑھاپے کا مزا لے رہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔
ج: طبیعی موسم یعنی گرمی، سردی، برسات، بہار اور خزاں سے تو آپ زندگی میں بار بار لطف اندوز ہوجاتے ہیں اور ہر سال ان سے سابقہ پیش آتا ہے لیکن زندگی کے جن موسموں کا آپ نے ذِکر کیا وہ پوری زندگی میں صرف ایک بار ملتے ہیں اور ساری عمر ان کی یادیں دل میں جگمگاتی رہتی ہیں۔ میری یادوں کے کینوس پر بھی یہ یادیں جگمگا رہی ہیں میں جب چاہوں ان یادوں سے دل کو شاد کرسکتا ہوں، جو یادیں تلخ ہیں ان سے دل اُداس بھی ہوتا ہے۔ بچپن کی یادوں میں اماں کا شفیق چہرہ سب سے نمایاں ہے، وہ ہمیشہ مجھے نِک نیم سے پکارتی تھیں، یہ عرفیت انہوں نے میری ولادت کے فوراً بعد میرے لیے خاص کردی تھی، بعد میں محلے کے امام صاحب نے میرا نام تجویز کیا تو اماں نے اسے کوئی اہمیت نہ دی۔ غربت کا زمانہ تھا لیکن وہ ہمیشہ مجھے اچھا کھلاتی اور پہناتی رہیں یوں تو وہ اپنے سب بچوں سے پیار کرتی تھیں لیکن میرے ساتھ ان کا پیار خاص تھا، شاید اس وجہ سے کہ میں اُن کی آخری نرینہ اولاد تھا۔ اماں کے ساتھ یادوں کا پورا البم ہے جنہیں ورق ورق کھولوں تو پوری کتاب بن جائے اس لیے بات یہیں ختم کرتا ہوں۔
لڑکپن اور ابتدائی جوانی کا زمانہ انتہائی افراتفری میں گزرا حصول تعلیم میں بار بار رکاوٹیں آتی رہیں لیکن قلم اور کتاب سے رشتہ چونکہ بچپن سے استوار ہوگیا تھا اس لیے ساری رکاوٹیں دور ہوتی چلی گئیں اور رشتہ رزق کا ذریعہ بن گیا۔ رہی جوانی تو اس کے بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ
اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
جوانی کا جب احساس ہوا تو یہ موسم ڈھل چکا تھا اور بڑھاپا دہلیز پر دستک دے رہا تھا۔ کسی نے سچ کہا ہے
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
بڑھاپا رخصت نہیں ہوتا بلکہ وہ آدمی کو رخصت کرنے کے لیے آتا ہے۔ غالب کہتے ہیں
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا!
موت بظاہر ایک ہولناک واردات ہے لیکن اسی نے زندگی میں لطف اور رنگینی پیدا کردی ہے اگر موت نہ ہوتی تو زندگی یکسانیت کا شکار ہو کر بے کیف ہوجاتی اور آدمی اس سے نجات کے راستے تلاش کرنے لگتا۔ غالبؔ نے ایک اور مقام پر اپنا تجربہ یوں بیان کیا ہے۔
منحصر مرنے پہ ہو جس کی اُمید
نا اُمیدی اس کی دیکھا چاہیے
میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کے ان سارے موسموں میں ہر آدمی اپنے انفرادی تجربات سے گزرتا ہے میں بھی اپنے منفرد تجربات سے گزرا ہوں اور اب زندگی کا آخری موسم انجوائے کررہا ہوں۔ وما علینا الاالبلاغ
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: زندگی میں زندگی کے جوانی کا کی زندگی وہ اپنے جاتا ہے ہیں اور کرتا ہے کا موسم ہوں کہ بھی ہو ہے اور
پڑھیں:
ملک کے مختلف شہروں میں بارش اور برفباری کی پیشگوئی
محکمہ موسمیات نے ملک کے مختلف شہروں میں بارش اور برفباری کی پیشگوئی کر دی۔محکمہ موسمیات نے شمال مغربی بلوچستان، بالائی خیبر پختونخوا اورگلگت بلتستان میں بارش اور پہا ڑوں پر برفباری کی پیشگوئی کی ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں میںموسم سرد اور خشک رہنے کا امکان ہے۔ رات کے اوقات میں پنجاب کے بیشتر اضلاع اور بالائی سندھ میں ہلکی سے درمیانی دھند چھائے رہنے کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے۔محکمہ موسمیات نے انتباہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئٹہ، زیارت، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، ناران، کاغان، چترال، دیر، سوات، کوہستان، شانگلہ اورگلگت بلتستان میں برفباری کے باعث سڑکوں کے بند ہونے اور پھسلن کی وجہ سے ٹریفک کی روانی میں خلل کا اندیشہ ہے۔ اسلام آباد اور گرد و نواح میں موسم سرد اور مطلع جزوی ابر آلود رہنے کا امکان ظاہر کیا گیاہے۔خیبرپختونخوا کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد اور مطلع جزوی ابر آلود رہنے کے علاوہ چترال، دیر، سوات، شانگلہ، کوہستان، مانسہرہ، ایبٹ آباد، بونیر، باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم اور وزیرستان میں تیز ہواں کے ساتھ ہلکی بارش اور ہلکی برفباری کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد اور مطلع جزوی ابر آلود رہے گا تاہم کوئٹہ، زیارت، چمن، پشین، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ اور چاغی میں تیز ہواں کے ساتھ ہلکی بارش اور ہلکی برفباری کی پیشگوئی کی گئی ہے۔پنجاب کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد جبکہ بالائی اضلا ع میں مطلع ابر آلود رہے گا۔ لاہور، شیخوپورہ، قصور، ا وکاڑہ، ساہیوال، سیالکوٹ، نارووال، گوجرانوالہ، منڈی بہاالدین، رحیم یار خان، خان پور، بہاولنگر، بہاولپور، پاکپتن، خانیوال، وہاڑی، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، جھنگ اور گرد و نواح میں ہلکی سے درمیانی دھند چھائے رہنے کی توقع ہے۔سندھ کے بیشتر اضلاع میں موسم سرد اور خشک رہنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ کشمیر میں موسم سرد اور مطلع جزوی ابر آلود رہے گا تاہم گلگت بلتستان میں بارش اوربرفباری کا امکان ظاہر کیاگیا ہے۔