بھارت میں انتہا پسند ہندوسرگرم
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
ریاض احمدچودھری
اتر پردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد کی سروے کے نتیجے میں پرتشدد واقعات کے چند دنوں بعد اب اجمیر کی مقامی عدالت نے صوفی بزرگ خواجہ معین الدین چشتی کے مزار کے سروے کے حکم دیا ہے، جس سے ایک اور تنازعہ پیدا ہو گیا ہے۔اوقاف کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن انعام الرحمان نے کہا کہ یہ نہ صرف نامناسب بلکہ غیرقانونی بھی ہے، ”کیونکہ بابری مسجد تنازعہ پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئندہ ایسے معاملات اٹھائے نہیں جائیں گے۔ اس طرح کے اقدامات ملک کے لیے ہر طرح سے نقصان دہ ہیں۔” ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کی نوٹس جاری کرنے میں نچلی عدالتوں نے مسابقت شروع کردی ہے۔ اس سے ملک کا امن وامان متاثر ہو رہا ہے، ماحول خراب ہورہا ہے، بھائی چارہ ختم ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ رکنا چاہیے۔” اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے حکومت، عدلیہ، مسلمان اور اکثریتی ہندو فرقے میں سے ہر ایک کو اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہو گی۔بھارت میں انتہا پسند ہندوسرگرم ہیں مسلمانوں کی املاک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں نے حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کی جگہ مندر تعمیری کرنے کی گھنائونی مہم شروع کردی۔
بھارت میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر کے بعدہندوتوا بھارتیہ جنتا پارٹی نے اجمیر شریف میں مسلمانوں کی ایک اور مقدس درگاہ کی جگہ پر مندر کی تعمیر کیلئے مہم شروع کر دی ہے ، اجمیر کی ایک عدالت نے صوفی بزرگ حضرت معین الدین چشتی کی درگاہ کی شیو مندر کے مقام پر تعمیرکے دعوے سے متعلق درخواست پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور مودی حکومت کو نوٹسز جاری کئے بعد ازاں بھارتی سپریم کورٹ نے آئندہ احکامات تک سروے کو روک دیا ہے۔ ہندوتوا تنظیموں بی جے پی اورآر ایس ایس دانستہ طورپر مسلمانوں کو غیرملکی ثابت کر نے کی کوشش کرر ہی ہیں۔
بھارت بھر میں مسلمانوں کی جائیدادوں اور مذہبی مقامات کو انسداد تجاوزات مہم کی آڑ میں بلڈوز کے ذریعے مسمار کیا جا رہا ہے اور متنازعہ وقف ترمیمی بل بھی مودی حکومت کی اسی مہم کا حصہ عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیاگیاہے کہ اجمیر میں صوفی بزرگ معین الدین چشتی کی درگاہ کے اندر شیو مندر موجود ہے جس کا مقصد مسلمانوں کے ثقافتی ورثے اور مذہبی مقامات پر ہندو انتہاپسندوں کاکنٹرول حاصل کرنا ہے۔ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر کی تعمیر مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر ہندوئوں کے قبضے کی پہلی کوشش تھی اور مودی حکومت کے تحت ہندوتوا گروپوں کی طرف سے درگاہ اجمیر شریف کو منہدم کرنے کی کوششوں میں تیزی آئی ہے۔ہندوتواتنظیموں کی یہ کوشش بھارت کی تاریخ کو دوبارہ تحریر کرنے کی ایک بڑی مہم کا حصہ ہے۔مہم کے تحت ہندوتواگروپ ہندوستان کے مسلم حکمرانوں کو ظالم قرار دے رہے ہیں۔مودی کے دور حکومت میں بھارت میں مسلمانوں کے مقدس مذہبی مقامات کو مسلسل خطرہ لاحق ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل راجیو رام چندرن اس نئی صورت حال کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، ”فرقہ پرست عناصر نے قدیم مساجد اور مذہبی مقامات میں مندر تلاش کرنے کی جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے لیے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ ذمہ دار ہیں، جنہوں نے گزشتہ سال بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد میں سروے کی اجازت دے کر اس شرانگیز مہم کا دروازہ کھول دیا۔ حالانکہ بابری مسجد بنام رام جنم بھومی ملکیت مقدمہ میں مذہبی مقامات کے1947 سے پہلے کی حالت برقرار رکھنے کے متعلق قانون کے احترام اور پاسداری پر بڑا زور دیا تھا۔”اس طرح کے نوٹس جاری کرنے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ یہ بی جے پی حکومت کے دیرینہ ایجنڈے کا حصہ ہے، ”ہندوتوا تنظیمیں ایک عرصے سے مسجدوں کے بارے میں جھوٹے اور بے بنیاد بیانیے کو پھیلا رہی ہیں۔ ایک اور وجہ مسلمانوں کو نیچا دکھانا اور ان کی حوصلہ شکنی کرنا بھی ہے۔”
ہندو سینا کے سربراہ وشنو گپتا کی طرف سے دائر کی گئی درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اجمیر کی درگاہ میں ”کاشی اور متھرا” کی طرح ایک مندر موجود ہے، ”برطانوی دور حکومت میں ایک اہم عہدے پر فائز ہربلاس سردا نے 1910 میں اجمیر کی درگاہ میں ایک ہندو مندر کی موجودگی کے بارے میں لکھا تھا۔”اپنی ایک کتاب میں، سردا، جو ایک جج، سیاست دان اور ایک ماہر تعلیم تھے، نے درگاہ کے بارے میں لکھا: ”روایت کہتی ہے کہ تہہ خانے کے اندر ایک مندر میں مہادیو کی مورتی ہے، جس پر ایک برہمن خاندان کی طرف سے جسے درگاہ نے ابھی تک گھڑیالی (گھنٹی بجانے والا) کے طور پر برقرار رکھا ہوا ہے، ہر روز صندل رکھا جاتا تھا۔”
گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ اجمیر(درگاہ) کا ڈھانچہ ہندو اور جین مندروں کو منہدم کرنے کے بعد بنایا گیا تھا، ”اس لیے ہم نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان باتوں کو سنجیدگی سے لیا جائے اور کم از کم سروے کرایا جائے تاکہ سچائی سامنے آسکے۔ ان کی تنظیم چاہتی ہے کہ درگاہ کو ہندو مندر قرار دیا جائے، ہمیں پوجا کی اجازت دی جائے اور اگر محکمہ آثار قدیمہ نے کوئی رجسٹریشن دیا ہے تو اسے منسوخ کر دیا جائے۔”ہندو سینا کے رہنما کا مزید کہنا ہے کہ چشتی صاحب یہاں پیدا نہیں ہوئے اور وہ یہاں کے نہیں تھے، ”تو، اس سے پہلے یہاں کون تھا؟ پرتھوی راج چوہان اور یہ شہر اجے میرو کے نام سے جانا جاتا تھا۔”
درگاہ کمیٹی کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تنوع اور تکثیریت کی علامت ہے درگاہ کمیٹی کے ایک ذمہ دار کا کہنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تنوع اور تکثیریت کی علامت ہے۔درگاہ کے سجادہ نشینوں کی تنطیم انجمن سید زادگان کے سکریٹری سید سرور چشتی نے بتایا، ”ہم نے بابری مسجد کیس میں عدالتی فیصلے کے بعد ایک تلخ گولی نگلی تھی اور یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسا کچھ دوبارہ نہیں ہو گا۔ یہ اس ملک کے مفاد میں ہے۔ لیکن کاشی، متھرا، سنبھل یہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔” انہوں نے یاد دلایا کہ 22 جون کو آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ لوگوں کو ہر مسجد میں شیولنگ نہیں ڈھونڈنا چاہییں۔درگاہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی، تنوع اور تکثیریت کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں خواجہ معین الدین چشتی کے کروڑوں پیروکار ہیں اور اس طرح کے مقدمات ملک کے مفاد میں نہیں ہیں۔”
چند دنوں قبل راجستھان کی بھجن لال شرما حکومت نے اجمیر کے سرکاری ملکیت والے ہوٹل ‘خادم’ کا نام تبدیل کر کے ‘اجے میرو’ رکھ دیا ہے۔ راجستھان اسمبلی کے اسپیکر واسودیو دیونانی نے دعویٰ کیا تھا کہ راجستھان کے 12ویں صدی کے جنگجو بادشاہ پرتھوی راج چوہان کے دور میں اجمیر اجے میرو کے نام سے مشہور تھا۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: خواجہ معین الدین چشتی مذہبی مقامات سپریم کورٹ بھارت میں اجمیر کی کرنے کی مندر کی مسجد کی کی ایک کی جگہ رہا ہے کے لیے دیا ہے
پڑھیں:
مسلمانوں کو انکے مذہبی طریقوں پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، اسد الدین اویسی
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے کہا کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کیلئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کیلئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دھامی حکومت نے اپنی کابینہ میں اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ ایکٹ کے قوانین کو منظوری دے دی ہے، جس کے بعد امید ہے کہ جلد ہی دھامی حکومت اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے خود اس کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انہوں نے ابھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے یکساں سول کوڈ یعنی یو سی سی کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ اسے یو سی سی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہندو میرج ایکٹ اور ہندو جانشینی ایکٹ میں مستثنیات ہیں، اس کے علاوہ قبائلیوں پر یو سی سی لاگو نہیں ہوگا، ایسے میں اسے یونیفارم سول کوڈ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ یو سی سی کے ذریعے صرف مسلمانوں کو ان کی مذہبی رسومات کے مطابق شادی، طلاق اور جائیداد کی تقسیم سے روکا جا رہا ہے، ہندو میرج ایکٹ پر یو سی سی لاگو نہیں کیا جا رہا ہے۔
اسد الدین اویسی نے یو سی سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنا مذہب ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب میں بدلتا ہے تو اجازت لینی پڑتی ہے، تو ایسے میں یہ یونیفارم سول کوڈ کیسے ہے۔ اس کے علاوہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم ہے جس کا نام آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اسد الدین اویسی کے مطابق ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ 2013ء کا پرنسپل ایکٹ درست ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ ایک غیر مسلم رکن وقف میں کیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یوپی میں کاشی وشوناتھ بورڈ ہے، کیا کوئی غیر ہندو بھی اس بورڈ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اسد الدین اویسی نے واضح کیا ہے کہ اگر اتنی خامیوں کے بعد بھی کوئی بل آتا ہے تو سی اے اے کی طرح اس قانون کی بھی مخالفت کریں گے۔