افتخار گیلانی

یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے ، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھیرات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع دو منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔گراؤنڈ فلور پر، ایک میز کے گرد چند چہرے جھکے ہوئے تھے ۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی، ماحول کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی تھی۔ان کے ساتھ صدر ٹرمپ کے نمائندے ، اسٹیو ویٹکوف، کاغذات اور نقشوں کے پلندے میں الجھے ہوئے تھے ۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے ، لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں تھی۔دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے ۔ یہ رابطے ایک محفوظ مواصلاتی نظام کے ذریعے جاری تھے ، گویا ہر لمحہ کسی بڑے فیصلے کی بنیاد رکھ رہا ہو۔لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے ۔ ان کواختیار تھا امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مہر ثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں اور اس کے آس پاس ڈیل فائنل ہو۔ لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے بار بار گول پوسٹ بدلنے کے سبب اس پر عمل نہ ہو سکا۔
مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے ، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے ، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پرسکون تھی۔اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رک جاتا۔
مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے ، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراؤنڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آتے ہیں۔انہوں نے اعتراف کیا کہ ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے ، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ یہ کوشش ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات الٹے جا رہے تھے ، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ، جنہوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، سے مسلسل رابطہ میں تھے ۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری ہی تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے ۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ ابھی بھی پیش رفت سے دور تھے ۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید لیت و لعل سے کام نہیں چلے گا۔گو کہ ٹرمپ کے اس قبل از وقت اعلان نے پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں، مگر اس نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتہ کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ ان کو یہ بھی بتا یا کہ وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے ۔
اعصاب شکن مذاکرات 96 گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے ۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے ہری جھنڈی مل گئی اور اس کے دو گھنٹہ کے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر کی ڈیل کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا۔ مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کا طے تھا۔مگر نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹی کھانے کے لیے پر تول رہے تھے ۔ امریکی نمائندہ کو ایک بار پھر سخت الفاظ میں ان کو انتباہ کرنا پڑا، جس کے بعد یعنی معاہدہ کے اعلان کے چوبیس گھنٹہ کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیز فائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل عطا کی۔یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے ۔ ہر قدم پر اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی شروعات بھی تھی۔
ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تل ابیب میں واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کران کو ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیز فائر کے مذاکرات میں اڑچن ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کا ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور خیال رہے کہ اگلے چار سال وہائٹ ہاوس میں ان کو ٹرمپ سے ڈیل کرنا ہے ۔یہ بھی باور کیاگیا کہ اسرائیلی کی سیکورٹی کی صورت حال تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط ہے ۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے ۔ شام اور لبنا ن کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے ۔ لہذا سرحدی عدم تحفظ کو جواز بناکر سیز فائر میں دیری نہیں کی جاسکتی ہے ۔
مذاکراتی عمل کے قریبی ذرائع کے مطابق، اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب حماس نے یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ حماس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے ۔اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت و دیگر کوائف ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر ان کو قتل بھی کرسکتا ہے ۔ اسرائیلی فوج کی ہنی بال ڈاکٹرئین کے مطانق ان کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاْصل ہے ، اگر وہ اغوا ہو رہے ہوں یا دشمن کے قبضہ میں ہوں۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔اس موقع پر امریکی ثالث میز سے اٹھ گئے اور مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔اسرائیلی حکام کا اندازہ تھا کہ ایک تہائی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔
معاہدے کے تحت ابتدائی 42 دنوں میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو سات مراحل میں رہا کیا جائے گا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ بدلے میں، اسرائیل 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین، بچے اور انسانی بنیادوں پر قیدی شامل ہوں گے ۔ اکتوبر 7 کے حملوں میں ملوث قیدی اس معاہدے سے مستثنیٰ ہوں گے ۔رفح بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی جائے گی تاکہ اہم انسانی امداد فراہم کی جا سکے ۔ امدادی سامان میں خوراک، دوائیں، اور بنیادی ضروریات شامل ہیں، جو جنگ زدہ علاقے میں قلت کو ختم کریں گی۔ زخمی فلسطینی شہریوں کو مصر کے اسپتالوں میں منتقل کرنے کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ بے گھر مہاجرین کی واپسی کے لیے ابتدائی طور پر پیدل راستہ فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد گاڑیوں کے ذریعے واپسی کی اجازت دی جائے گی۔معاہدے کی ایک اہم شرط کے تحت، اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) بتدریج اہم علاقوں سے انخلا کرے گی، جن میں نتزریم اور فلادلفی راہداری شامل ہیں۔ پہلے 50 دنوں کے دوران ان علاقوں سے آئی ڈی ایف کی مکمل واپسی متوقع ہے ، جبکہ مصر رفح کراسنگ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے گا۔پانچ مخصوص زونز میں آئی ڈی ایف کی موجودگی 400 میٹر تک محدود ہوگی، جبکہ فلادلفی راہداری سے انخلا مکمل طور پر کر لیا جائے گا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کے باوجود، معاہدہ نافذ کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ‘ہاآرٹز’ میں لکھا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے ۔ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیلی ریزرو فوجی اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر بڑی ہمت اور جوش کے ساتھ میدان میں اترے ۔ متعدد فوجیوں نے حکم نامہ ملنے سے پہلے ہی اپنی خدمات پیش کر دیں، جس کے نتیجے میں حاضری کی شرح 100 فیصد سے بھی بڑھ گئی۔جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی 150 دن سے زیادہ ڈیوٹی کر چکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے ، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سینکڑوں دنوں پر محیط ہے ۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل نے بتایا کہ کئی فوجیوں کی شریک حیات مزید کسی طویل ڈیوٹی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔
آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے 295000 ریزرو فوجیوں میں سے 118000 والدین ہیں، جن میں سے 115000 والد ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر کے فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ ہیں اور آئی ڈی ایف انٹلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔’جنگ کے آغاز سے اب تک 75000 کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے 59000 صرف 2024 کے دوران بند ہوئے ۔ یہ تعداد کووڈ-19 وبا کے بعد سب سے زیادہ ہے ۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی قومی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو 40000 سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں 145 فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق، 2024 میں 21 فوجیوں نے اپنی جان لے لی، جو ایک دہائی کی سب سے زیادہ تعداد ہے ۔
ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے ، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں،’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے ۔’یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے ، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے ۔غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، غزہ کے صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات سالوں میں کم از کم 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے ۔بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے ۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے ۔ تاہم، اسرائیل کو حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے جنگ شروع کی تھی و ہ ہدف حاْصل نہیں ہوا۔
امریکہ کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق جتنے عسکری حماس کے اسرائیل نے ہلاک کیے ، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی؟ تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اسرائیلی وفد نے اسرائیلی ریزرو فوجی کے نمائندے آئی ڈی ایف کی طرف سے سے زیادہ سیز فائر کے مطابق حماس کے تل ابیب ظاہر کر کے ساتھ ٹرمپ کے جائے گا چکے ہیں کے لیے تھا کہ کے بعد کی تھی

پڑھیں:

امن معاہدے کے بعد کی صورتحال

فلسطین اور اسرائیل کے مابین امن معاہدہ جس پرعمل درآمد شروع ہوگیا ہےاس معاہدے کا اعلان ہوتےہی فلسطینی عوام اوردنیا بھر میں حماس مجاہدین سے محبت رکھنے والے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی خاص طور پر غزہ کے کوچوں اور گلیوں میں 470 دنوں سے بارود اور بموں کی بارش میں عارضی خیموں یا کھلے آسمان تلے دن رات گزارنے والے معصوم بچوں اور شہریوں کی خوشی کا عالم دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ وہ سب سمجھ رہے تھے کہ مکمل فتح سے پہلےحالیہ امن معاہدہ فتح کی جانب ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہےجبکہ دوسری سائیڈ یعنی اسرائیل کی جانب واضح طور پہ شام غریباں کا منظر ساری دنیا کو نظر آرہا تھا گو کہ اسرائیلی عوام میں امن معاہدے پر خوشی منائی گئی لیکن وہاں کے وزراءاورحکومتی لوگ سخت پریشان اورحیران نظر آرہےتھے بعض وزراء نے یہاں تک بیانات دئیے کہ یہ معاہدہ ہم پر مسلط کیا گیا ہےاگر اس معاہدے کو منسوخ نہ کیا گیا تو ہم مستعفی ہوجائیں گےچنانچہ آج کی خبروں میں یہ آرہا ہےکہ انتہائی دائیں بازو کے انتہائی متعصب یہودی بن گویر نے اپنا استعفی پیش کردیا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ یہ امن معاہدہ پورے اسرائیل کے یہود کے گلےکاکانٹا بن چکا ہےنہ اگلا جا رہا ہےنہ نگلا جا رہا ہے ۔ اسرائیلی ریڈیو کےمطابق معاہدےکے توثیقی اجلاس کے دوران کئی حکومتی وزراء ، سرکاری سیکرٹری اور دیگرحاضرین روتے رہے۔ موساد سربراہ نے کہاکہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ نہایت ہی کڑوا گھونٹ ہے، مگر اسرائیل اس حال تک پہنچ چکا ہے کہ اب اسے پیئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ (دجالی فوجی ریڈیو)محترم قارئین۔ تقریباً دوماہ قبل ایک انڈین ٹی وی چینل نے اسرائیلی ریڈیو کےحوالے سے اسی سے ملتی جلتی ایک اوررپورٹ بھی نشر کی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اسرائیلی حکام یہ سمجھتے ہیں اگر ہم اس جنگ سے مکمل فتح حاصل کئےبغیر پیچھے ہٹ گئے تواسرائیل اور یہود کا کچھ بھی نہیں بچے گا جبکہ اہل ایمان تو اس مقدس فلسطینی جنگ کے پہلے دن سے ہی کہہ رہے تھے کہ اسرائیل اب آگے بڑھ کر لڑے یا دم دبا کر پیچھے بھاگ جائے ہر صورت میں اسرائیل کا کچھ بھی نہیں بچے گا۔ امن معاہدے کے بعد اسرائیل کے سورمائوں کو اپنی مکمل شکست اور نیست و نابود ہو جانے کا یقین پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہے ۔
معززقارئین دنیا بھر کے مسلمانوں کی اس امن معاہدے پر خوشی کی مختلف وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان دیکھ رہے ہیں اللہ پاک مسلسل مجاہدین کی مدد فرما رہے ہیں سب سے پہلے افغانستان میں عالمی اتحادی لشکروں کو 20سالہ جنگ کے بعد اللہ پاک نے مجاہدین کو فتح مبین عطا فرمائی اور پھر شام کے محاذ پر 54 سال سے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنےوالے اسدخاندان کے مقابلے میں تحریرالشام کےجانباز مجاہدین کو اللہ پاک نے واضح کامیاب عطافرمائی اور اس کےبعد ڈیڑھ سال کی شدید جنگ کے بعد جس میں ساری دنیا اسرائیل کا ہرلحاظ سے ساتھ دے رہی تھی جبکہ حماس مجاہدین ساری دنیا کے مکمل طور پر محاصرے میں تھے، اور تو اور کئی مسلمان ممالک بھی فلسطینی جانبازوں کا ساتھ دینے کی بجائے اسرائیل کا عسکری اور معاشی لحاظ سے ساتھ دے رہے تھے مگر اللہ پاک نے اس جنگ میں بھی مجاہدین کو سرخرو فرما دیا۔ اتنی واضح کامیابی کے باوجود بھی کئی لوگ یہ پوچھ رہے ہیں ہمیں مختصر الفاظ میں بتائیں اس جنگ میں کون جیتا اور کون ہارا تو پھر کون ہارا کون جیتا‘‘ تاریخ سے نابلد لوگوں نےجنگ آزادی کو کرکٹ اور فٹ بال میچ سمجھ رکھاہے۔ ہر معرکہ کے بعد پوچھتے ہیں کون ہارا کون جیتا۔ انہیں کوئی بتائے کہ قوموں کی زندگی میں ہارجیت کے پیمانےکرکٹ کے رنزاور فٹ بال کے گول نہیں ہوتے۔ غزہ کے صحافی انس الشریف کے الفاظ میں بس یہ جان لیں کہ ’’طاقتور، اگر نہیں جیتتا، تو ہار جاتا ہے،اور کمزور، اگر نہیں ہارتا، تو فاتح ہوتا ہے۔ ہم فلسطینی اپنی ثابت قدمی، استقامت اور اپنی سرزمین کو ترک کرنے سے انکار کی وجہ سےفتح یاب ہوئے ہیں۔ نسل کشی کے باوجود بقاء (مطلب)ثابت قدمی اور فتح‘‘ اس امن معاہدے کے بعد فلسطینی مسلمانوں کی کامیابی کو رہائی پانے والے قیدیوں کے اینگل سے چیک کرتے ہیں،جن کو فلسطین کی ’’ف‘‘کا بھی علم نہیں، وہ کہتے ہیں کہ یہ معاہدہ گھاٹے کا سودا ہے۔ تصورکیجئے کہ اس معاہدے کی رو سے وہ شخص بھی رہاہو رہا ہے، جسے انسانی تاریخ کی سب سے طویل سزا کا سامنا ہے۔ یہ تحریک مزاحمت کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔ فلسطینی اسے محبت سے ’’امیر الظل‘‘ (سائے کا شہزادہ) اور’’الشہید الحی‘‘(زندہ شہید)پکارتے ہیں۔ ابو اسامہ عبد اللہ غالب البرغوثی کی رہائی کی شرط بھی جانبازوں نے منوالی ہےحالانکہ پہلےکئی بار یہ کوشش ناکام ہو چکی تھی۔
ابو اسامہ 1972ء میں کویت میں پیدا ہوئے۔ مجاہد، مقاوم، جانباز، قائد، انجینئر اور مغربی کنارےمیں کمانڈر۔ عربی، کورین، عبرانی، انگلش کا ماہر، بم سازی میں طاق۔ جنوبی کوریا سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور وہیں کورین لڑکی سے شادی بھی۔ اہلیہ کو لے کر واپس آئے اور اپنے کاروبار میں لگ گئے لیکن ان کا کزن بلال برغو ثی جانباز تھا۔ اس سے متاثر ہو کر تحریک مزاحمت کاحصہ بنے اور پھر مرکزی کمانڈر بن گئے۔ (بلال کو 16 بار عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے) غالب تاریخ کی سب سے سخت اور طویل سزا 67 بار عمر قید کاٹ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ 5200سال کی اضافی سزابھی دی جاچکی۔ مجموعی طور پر 6808سال قید کی سزا، یہ سزائیں انہیں مہلک ترین کارروائیوں کا ذمہ دار ہونے کی وجہ سے دی گئی ہیں۔ انہیں دھماکہ خیز کارروائیوں کی قیادت کے حوالے سے انجینئر یحییٰ عیاش کا جانشین سمجھاجاتا ہے۔ ان کا تعلق فلسطین کے گائوں بیت ریما سے ہے۔ صرف تل ابیب کے قریب ’’ریشون لتسیون‘‘ کے ایک نائٹ کلب کی کارروائی میں 35دجالیوں کو جہنم رسید اور 370کو زخمی کیاتھا۔ ایک سال میں 67 صہیونیوں کو ہلاک اور 500 سے زائد کو زخمی کیا۔ ان کی زندگی ایک پوری کتاب کا موضوع ہے۔ اب جانباز اپنے اس عظیم کمانڈر کو رہا کرا رہے ہیں تو یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے ہیروز بھی رہا ہو رہے ہیں۔ ہر ایک پر الگ لکھیں گے۔ ان شااللہ۔ اب بتائیے کہ قابض ریاست نے کیسا کڑوا گھونٹ پی کر ایسے افراد کی رہائی کی شرط تسلیم کی ہوگی۔ لوگ پھر بھی کہتے ہیں کہ حماس نے گھاٹے کا سوداکیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • مستقل جنگ بندی کا نفاذ، ایک چیلنج
  • فلم ’آزاد‘ نے خاندانی نام کے سہارے کامیابی حاصل کرنے کا خواب چکنا چور کر دیا
  • ٹرمپ نے امریکی سفارت خانوں پر ہم جنس پرستوں کے پرچم لہرانے پر پابندی لگا دی
  • پاک بنگلہ دوستی کو مزید مستحکم کرنے کیلئے کامران سعید عثمانی کا تاریخی اعلان
  • اسرائیلی فوج کی جانب سے جنوبی لبنان میں گھروں کو جلانے کا سلسلہ جاری
  • جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جاری، مزید 9فلسطینی شہید
  • جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیاں جاری، مزید 9 فلسطینی شہید
  • امن معاہدے کے بعد کی صورتحال
  • اگلے مرحلے میں 4 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے مزید 120 فلسطینی ازاد کئے جائینگے