توشہ خانہ ٹو کیس‘ عمران خان، بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواست؛ ایف آئی اے کو نوٹس جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد(این این آئی+وقائع نگار)اسلام آباد ہائی کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی) عمران خان اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں بریت کی درخواستوں پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے توشہ خانہ ٹو کیس میں بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 28 جنوری تک جواب طلب کرلیا۔ بانی پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے توشہ خانہ ٹو کیس کے ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کرنے کی استدعا کی۔ جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے کہا کہ کرمنل کارروائی کو اس موقع پر اسٹے کرنے کی کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں۔ دوسرے فریق کو آ جانے دیں دونوں کو سْن کر دیکھ لیتے ہیں۔ ہم آپ کی درخواست پر نوٹس کر کے دوسرے فریق کو بھی سن لیتے ہیں۔بیرسٹر سلمان صفدر نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کا کیس ہے کہ تحفہ وصول کیا تخمینہ کے لیے دیا۔ ضمانت کی 2 درخواستوں کے احکامات بھی لگے ہوئے ہیں۔ ٹرائل کورٹ کو کارروائی روکنے کا حکم دیا جائے۔جسٹس انعام امین منہاس نے کہا ٹرائل کورٹ میں فردجرم بھی عائد ہوچکی گواہان کے بیانات ہورہے۔ نوٹس جاری کرکے دیگر فریقین سے بھی جواب مانگ لیتے ہیں۔ اس میں نوٹس کرتے ہیں،لمبی تاریخ نہیں دیں۔ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ اس کا مطلب آج یہاں سے کچھ لے کر نہیں جا رہا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ آپ یہاں بریت کے لیے آئے ہیں۔ ٹرائل کورٹ کو کارروائی جلد مکمل کرنے کی ہدایت بھی کرسکتے ہیں۔درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ٹرائل بہت تیزی سے چل رہاہے۔ جب بلائیں گے ہم پیش ہوں گے۔ 3 مرتبہ ٹرائل کورٹ بلا سکتی ہے تو یہاں میرا حق ہے۔روزانہ سماعت بھی ہوسکتی ہے۔ استدعا ہے ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ سے روک دیاجائے اور کیس کسی دوسرے بینچ کو بھیج دیا جائے۔بیرسٹر سلمان صفدر نے موقف اختیار کیا کہ اس سے پہلے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اس کیس سے متعلق 5 درخواستیں سن چکے ہیں۔ مناسب ہو گا کہ یہ عدالت بریت کی درخواستیں بھی اْسی عدالت میں واپس بھیج دے۔ جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ وہ ضمانت کی درخواستیں تھیں یہ الگ معاملہ ہے۔ یہ عدالت کیس سنے گی آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: انعام امین منہاس نے توشہ خانہ ٹو کیس ٹرائل کورٹ نوٹس جاری نے کہا کہ بریت کی
پڑھیں:
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف عدالتی افسر کی کسی بھی شکایت کے جواب میں ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی طرف سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہوگا۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے پہلے تو آرٹیکل 203 کے تحت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں سمیت ماتحت عدالتوں کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے اپنے آئینی اختیار میں رہ کر کام کیا ۔
مزید پڑھیں: 9 مئی مقدمات، چیف جسٹس فریقین میں توازن کیلیے پرعزم
دوسرا ایڈمنسٹریٹو جج کی جانب سے پریذائیڈنگ جج کے خلاف ریفرنس ناکافی بنیادوں پر خارج کرنے کی روشنی میں چیف جسٹس نے تبادلے کی درخواست پر مزید کارروائی نہ کرنے میں مکمل جواز پیش کیا کیونکہ اس درخواست میں میرٹ کا فقدان تھا اور وہ صرف ایک ایسے حوالے پر مبنی تھی جس میں ثبوت کی کمی تھی۔
چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی طرف سے تحریر کردہ 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب پراسیکشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست کی گئی۔
ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کی عدالت کے ایک پریذائیڈنگ جج کے دوسرے سے تبادلے کی درخواست کی سماعت میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کیخلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا دے دیا، چیف جسٹس
ہم اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہیں کہ کسی صوبے میں ہائی کورٹ کا چیف جسٹس اس صوبے کے اندر عدلیہ کی سربراہ ہوتا ہے۔ لہٰذا عدالتی افسر کی ایسی کسی شکایت کے جواب میں چیف جسٹس کی جانب سے کوئی بھی کارروائی نہ کرنا آئین کے آرٹیکل 203 کے تحت اس کی آئینی ذمہ داریوں کے منافی ہو گا۔
ریاست کی نمائندگی کرنے والے سپیشل پراسیکیوٹر کا بنیادی زور یہ تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے پیرا 8 اور 9 میں درج نتائج نہ صرف غیر ضروری تھے بلکہ چیف جسٹس کے اختیار کے مینڈیٹ سے بھی باہر تھے۔
واضح رہے لاہور ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے اے ٹی سی ججز کے معاملات میں ایگزیکٹو ایجنسیوں کی مداخلت کے خلاف موقف اختیار کیا تھا۔ انہوں نے اے ٹی سی جج راولپنڈی کے تبادلے کی پنجاب حکومت کی درخواست پر سخت استثنیٰ لیا تھا۔