Jasarat News:
2025-01-24@01:51:57 GMT

غزوۂ حنین: دیانت داری کی عملی مثال

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

غزوئہ حنین ایک انتہائی دشوار موقع تھا جہاں پر آپؐ کی قائدانہ خصوصیات نمایاں طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک ہی وقت میں مکمل ایمان داری کے ساتھ الگ الگ فریقین کے مفادات کا تحفظ آپؐ کی لیڈر شپ کی اعلیٰ مثال ہے۔ ایک مشہور کہاوت ہے کہ لیڈر چائے کی پتی کی طرح ہوتا ہے جس کے معیار کا اندازہ اسے کھولتے پانی میں ڈال کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ حنین کا معرکہ ایسا ہی کھولتا پانی تھا جہاں یہ واضح ہوگیا کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر کا خطاب صرف آپؐ کے لیے ہی کیوں مخصوص ہے۔

فتح مکہ کے بعد کچھ پڑوسی قبائل مسلمانوں کی ترقی اور کامیابی سے حسد میں مبتلا ہوگئے۔ ان میں سب سے پیش پیش بنوہوازن تھے جنھوں نے تقریباً چار ہزار کی فوج لے کر مسلمانوں پر چڑھائی کردی۔ طائف کے نزدیک حنین کی وادی میں برپا ہونے والے اس معرکے میں مسلمانوں کی فوج تقریباً 12 ہزار افراد پر مشتمل تھی۔ یہ صورتِ حال غزوئہ بدر کے عین برعکس تھی، جہاں مسلمان تعداد میں انتہائی کم ہونے کے باوجود فتح یاب رہے تھے اور شاید یہی وجہ تھی کہ کئی مسلمان حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہوگئے اور اسے ایک آسان معرکہ سمجھ بیٹھے۔ جب مسلمان فوج مورچہ زن ہونے لگی تو پہلے سے گھات میں بیٹھے دشمن نے ان پر اچانک شدید حملہ کر دیا، جس کی وجہ سے مسلمان فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ان میں سے کئی افراد آپؐ کو خطرے میں چھوڑ کر میدانِ جنگ سے بھاگ نکلے۔ ایسے میں حضرت محمدؐ اور ان کے کچھ ثابت قدم ساتھی میدان میں جمے رہے اور انھوں نے فرار ہونے والوں کو واپس بلایا۔ صفوں کو نئے سرے سے منظم کیا گیا اور بالآخر بنوہوازن کو شکست ہوئی۔ اس غزوہ کے دوران میں میدان چھوڑ کر فرار ہوجانے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سورئہ توبہ میں یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ صرف اللہ کے بھروسے پر ہر صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار رہیں، اور فتح یا شکست کے دْنیاوی معیار سے ہٹ کر آخرت میں کامیابی کو اپنا نصب العین بنا لیں۔

اس غزوہ کے دوران میں آپؐ کی عظیم الشان قائدانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب جنگ جیسی مشکل صورتِ حال میں بھی آپؐ نے مختلف فریقین اور ان کے جذبات کو قابو میں رکھا۔ اس کی مثال بنوہوازن کی جنگی قیدی شیما بنت ِ حلیمہ کا واقعہ ہے جو آپؐ کی رضاعی بہن تھیں۔ ابتدا میں ان کے دعوے پر یقین نہیں کیا گیا جس پر انھوں نے آپؐ سے بہ نفس نفیس ملنے کی درخواست کی اور اس ملاقات میں بطورِ ثبوت اپنا بازو دکھایا جس پر بچپن میں آپؐ کے کاٹنے سے نشان پڑگیا تھا۔ آپؐ نے اس نشان کو پہچان کر انتہائی گرم جوشی سے شیما کا استقبال کیا، ان کے بیٹھنے کے لیے اپنا جبہ زمین پر بچھا دیا اور بہت دیر تک ان کے ساتھ اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے پس منظر میں ایسی گرم جوشی، اس درجہ صبر اور جذبات کو متوازن رکھنے کی ایسی مثال کہیں دیکھنے میں نہیں آتی۔
جنگوں کے اختتام پر مالِ غنیمت اور جنگی قیدیوں پر فاتح فوج کا حق ہوتا تھا۔ ایسے میں جب ہوازن کے شکست خوردہ قیدیوں نے رحم کی اپیل کی تو آپؐ نے کمال دانش مندی سے کام لے کر مسلمانوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو نبیؐ کے حضور پیش ہوکر ان قیدیوں پر احسان کرتے ہوئے اپنا حق معاف کرسکتے ہیں۔ اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں بارگاہِ رسالتؐ سے اپنے عمل کی ستائش پانا بہت سے مسلمانوں کے لیے ان کی زندگیوں کی سب سے بڑی سعادت تھی۔ اس طرح آپؐ کی حکمت ِ عملی کی وجہ سے بہت سے جنگی قیدیوںکو رہائی مل گئی اور باقی رہ جانے والوں کے بدلے میں اْونٹ اور بکریاں دے کر ان کے دعوے داروں کو مطمئن کر دیا گیا۔ بطورِ راہ نما آپؐ کی دانائی، ایمان داری اور انصاف پر مبنی یہ طریقہ فریقین کے لیے اس معاملے کا بہترین حل ثابت ہوا۔

تاہم، اس کے باوجود انصار میں سے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ انھیں نہ تو کوئی شرف ملا اور نہ مالِ غنیمت ہی۔ آپؐ تک یہ بات پہنچی تو عام راہ نمائوں کی طرح ان افراد کو نظرانداز کرنے کے بجائے آپؐ خود ان کے پاس تشریف لے گئے اور ان کی ناخوشی کی وجہ دریافت کی۔ کافی ہچکچاہٹ کے بعد ان اصحاب نے گلہ کیا کہ ان کی بے شمار قربانیوں کے باوجود انھیں نہ تو آپؐ کے حضور عزّت افزائی نصیب ہوئی اور نہ مالِ غنیمت میں حصہ ملا۔ اس پر آپؐ نے اپنی روحانی بصیرت اور دانش مندی سے کام لیتے ہوئے انھیں یاد دلایا کہ باقی سب لوگ تو اْونٹ اور بکریاں لے کر اپنے گھروں کو لوٹ گئے لیکن انصار اللہ کے ان محبوب لوگوں میں سے ہیں جن کے حصے میں اللہ اور اس کا رسولؐ آئے۔ اس حقیقت کا احساس ہوا تو انصار کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو بھر آئے اور وہ اپنی بدگمانی پر شرمسار ہوئے۔ آپؐ کی ایسی معاملہ فہمی اور ایمان دارانہ طرزِ عمل نے بطورِ راہ نما آپؐ کے اصحاب کی شخصیت پر ایسے نقوش چھوڑے جن کی بدولت آنے والے دنوں میں مسلمانوں نے حکمرانی کی اعلیٰ ترین مثالیں قائم کیں۔

سیدنا محمدؐ نے اعلیٰ اخلاقی اقدار کے دائرے میں رہ کر اپنی بے مثال سیاسی بصیرت کی بدولت اپنے بدترین دشمنوں پر غلبہ حاصل کیا۔ اعلیٰ صفات کا عملی نمونہ غزوئہ حْنین اور صلح حدیبیہ کے مواقع پر آپؐ کی دانش مندی اور معاملہ فہمی میں نظر آتا ہے لیکن آج کے دور میں ان خصوصیات پر پورا اْترنے والے لیڈروں کی تعداد اتنی قلیل ہے کہ انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔
دانش مندی کے حوالے سے مسلمان لیڈروں کا ذکر کیا جائے تو اس فہرست میں بہت سے ایسے دیگر افراد کا نام شامل کیا جاسکتا ہے جنھوں نے سیاست اور معاشرتی بہبود کے میدانوں میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان بااصول اور اعلیٰ کردار کے حامل افراد کی شخصیت اور انھیں پیش آنے والے حالات و واقعات کا مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ انھوں نے مشکل ترین صورتِ حال میں بھی دیانت داری اور اصول پسندی کو کس طرح ہرشے پر مقدم رکھا۔ کچھ ایسے راہ نما بھی ہیں جن کی شہرت تو زیادہ نہیں رہی لیکن روز مرہ زندگی میں ان کا دیانت دارانہ طرزِعمل بہترین لیڈرشپ کی عکاسی کرتا تھا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: نے والے اور ان کے لیے

پڑھیں:

حکومت ایسے پالیسیاں بنارہی ہے جیسے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہو، بلاول بھٹو

پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت ایسے پالیسیاں بنارہی ہے جیسے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہو، جب حکمران اپنی مرضی کے فیصلے کرتے ہیں تو پورا نظام گر جاتا ہے۔ بعض اوقات حکومت خود اپنے لیے مسائل پیدا کردیتی ہے۔

اسلام آباد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ ہم ملکی ترقی میں کوئی رکاوٹ نہیں پیدا کرنا چاہتے، ہم تو چاہتے کہ پورے ملک کی معیشت ترقی کرے۔

یہ بھی پڑھیں پیپلزپارٹی کے مسلم لیگ ن کے ساتھ اختلافات ہائی لیول پر چلے گئے ہیں، گورنر پنجاب

انہوں نے کہاکہ میری حکومت کو تجویز ہے کہ منتخب نمائندوں کی مشاورت سے پالیسیاں بنائیں، اس سے قبل اگر صرف اتحادیوں سے ہی مشاورت کی جاتی تو مشکلات نہ ہوتیں۔

انہوں نے کہاکہ ہم نفرت اور تقسیم کی سیاست پر یقین نہیں رکھتے، اس وقت ملک میں جو سیاست ہورہی ہے اس کا عوام کے مسائل سے کوئی لینا دینا نہیں۔

بلاول بھٹو نے کہاکہ اٹھارہویں ترمیم اتفاق رائے سے پاس ہوئی تھی تو آج تک کوئی اس کو چھیڑ نہیں سکا، یہ ہمارے لیے ایک مثال ہے۔

انہوں نے کہاکہ مزدوروں کو اپنی محنت کا صلہ ملے گا تو معیشت مستحکم ہوگی، 10 سال کے دوران مہنگائی میں جتنا اضافہ ہوا اسی حساب سے تنخواہوں اور پینشن میں بھی اضافہ ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ پیپلزپارٹی مزدوروں کے لیے تین نسلوں سے جدوجہد کررہی ہے، ہم نے مزدورں اور محنت کشوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو آئین دلوایا۔

یہ بھی پڑھیں پاور شیئرنگ فارمولا، کیا مسلم لیگ ن نے پنجاب کی حد تک پیپلزپارٹی کے تمام مطالبات مان لیے؟

چیئرمین پی پی پی نے کہاکہ آمر ضیاالحق اور پرویز مشرف کے دور میں مزدوروں کے خلاف سازشوں کو پیپلزپارٹی نے ناکام بنایا۔ اس ملک کو لیبر پالیسی دینے والے پیپلزپارٹی کے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews بلاول بھٹو پاکستان پیپلزپارٹی چیئرمین پی پی پی حکومت دوتہائی اکثریت نفرت اور تقسیم کی سیاست وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • حکومت ایسے پالیسیاں بنارہی ہے جیسے ان کے پاس دو تہائی اکثریت ہو، بلاول بھٹو
  • چین کا پہلی صدی سے اسلام کے ساتھ تعلق
  • کیا آپ بھی اپنا نام بدلنا چاہتے ہیں؟
  • جماعت اسلامی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کیلیے عملی جدوجہد کر رہی ہے‘امیر العظیم
  • ایران روزانہ تین ہزار افغان باشندوں کو ملک بدر کر رہا ہے، این آر سی
  • میاں بیوی نے  200 کنال زمین، انگوٹھیاں لیں، کرپشن کی اس سے بڑی مثال نہیں، عطا اللہ تارڑ
  • پاکستان میں توہین مذہب کے جعلی کیسز کا سلسلہ بدستور جاری
  • اہل غزہ کی بے مثال جرات اور شجاعت کو سلام
  • فلسطین اور اسرائیل جنگ بندی کا خیر مقدم کرتے ہیں