اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) جمہوری ملک میں پرامن احتجاج کو طاقت اور تشدد سے کچلنا غیرقانونی ہے‘احتجاج سے ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے تو طاقت اورتشدد کاجواز مل جاتاہے‘ پاکستان میں جمہوریت نہیں‘ اراکین اسمبلی کی اکثریت کوہینڈپک کے ذریعے لایا گیا ہے ‘ اسلام آباد میں4 رینجرز اہلکاروں کو گاڑی تلے کچلنے کو پرامن احتجاج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی ورکرز کی مرکزی رہنما ناہید خان‘ عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان حسنین ابراہیم کاظمی‘ مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنما ناصر محمود ‘ دانشور اور سول سوسائٹی کے رکن بابر جمال‘تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نائب صدر انجینئر افتخار چودھری‘ فیڈریشن آف ریئلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق ایگزیکٹو ممبر عمران شبیر عباسی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’جمہوری ملک میں احتجاج کو طاقت سے کچلنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ ناہید خان نے کہا کہ اگر آپ پاکستان کو ایک جمہوری ملک سمجھتے ہیں تو مجھے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی‘ اگرچہ اس وقت ملک میں پارلیمانی نظام موجود ہے
لیکن اکثریتی ارکان کو ’’ہینڈ پک‘‘ کے ذریعے دھاندلی کرکے رکن بنایا گیا ہے جہاں تک ایک جمہوری ملک میں سیاسی مخالفین پر تشدد اور طاقت کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ سراسر بلاجواز ہے کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے اور اجتماعی آزادی اور شہریوں کے تحفظ کے حق سمیت بنیادی حقوق کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتا ہے‘ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرتے ہیں، سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچاتے ہیں، حکومتی اداروں پر اعتماد کو ختم کرتے ہیں‘ عموماً جمہوری حکومتیں طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی بات چیت کا طریقہ اپناتی ہیں‘ نظام کے خلاف سیاسی مخالفین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات لائیں‘ جمہوری حکومتیں جمہوریت کے اصولوں کو برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں‘ ایک جمہوری نظام شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار، پرامن طریقے سے جمع ہونے اور حکومتی پالیسیوں یا اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے بدلے میں حکومتیں شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پابند ہوتی ہیں‘ مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے‘ تشدد کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں جو تنازعات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہاں تک کے جانوں کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے ۔ حسنین ابراہیم کاظمی کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے مطابق جمہوری حکومتیں شہریوں کی آزادی کے معاہدوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور آپ کے سوال کا جواب بھی اسی میں ہے۔ ناصر محمود نے کہا کہ میری رائے میں جمہوری ملک میں احتجاج اگر سیاسی اصولوں کے مطابق قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو رہا ہے تو اُس احتجاج کو طاقت سے کچلنا غیر قانونی، غیر آئینی، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی فعل تصور کیا جائے گا جس کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن اگر احتجاج کی آڑ میں اُمورِ مملکت کو مفلوج کرنا یا اِس طرز کا احتجاج کرنا کہ جس کے نتیجے میں ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے احتجاج کے خلاف طاقت کے استعمال کو قانونی و اخلاقی جواز حاصل ہو جاتا ہے‘ ایک جمہوری ملک میں اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ وہاں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں ہی آئین میں طے شدہ اصولوں کے تحت ریاستی اُمور کی انجام دہی میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں اور کوئی بھی فریق اُس حد کو عبور نہ کرے کہ جہاں احتجاج اُس انتہا پر پہنچ جائے کہ ریاست کو خطرات کا سامنا کرنا پڑے اور حکومت اُس صورتحال کو بنیاد بناکر احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کو جواز بنا سکے۔ بابر جمال نے کہا کہ جمہوری ملک میں کسی قسم کے پرامن احتجاج کو کچلنے کی گنجائش نہیں ہوتی‘ احتجاج یقیناً پالیسیوں کے خلاف ہوتے ہیں‘ یہ غیر جمہوری بلکہ غیر انسانی رویوں کی نشانی ہے کہ ارباب اقتدار کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہ کر پائیں۔ یہ انتہائی ذہنی پستی اور خوف کی علامت ہے‘ آپ پاکستان کے گزشتہ40 سال کا جائزہ لیں تو آپ کو درجہ بدرجہ اپنے معاشرے اور اداروں میں اس کی نشانیاں واضح ملتی ہیں اور اگر شروعات یا ارتقا کی بات کریں تو اس کے ڈانڈے 1947ء سے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ افتخار چودھری نے کہا کہ پرامن احتجاج کو کچلنا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو یزیدی طرز عمل ہے جس کی ہمارے ملک میں طویل تاریخ ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ آئین اور جمہوریت دونوں پر امن احتجاج کا حق دیتے ہیں مگر تشدد کا حق حکومت اور مظاہرین دونوں کو حاصل نہیں ہے‘ 2، 3 ماہ پہلے اسلام آباد میں کیا کچھ نہیں ہوا‘ سری نگر ہائی وے پر رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھادی گئی جس کے نتیجے میں 4 رینجرز اہلکار شہید ہوگئے، اس طرح تو احتجاج نہیں ہوتے‘ انتشار پسند اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی سے نمٹنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں‘ کسی بھی مہذب معاشرے میں پرامن احتجاج کا حق نہیں چھینا جا سکتا‘ تحریک انصاف کی طرف سے پہلے بھی احتجاج کیے جاتے رہے ہیں‘ اسلام آباد تو اب بہت زیادہ دبائو میں آنے والا شہر بن گیا ہے جس کی وجہ کاروبار اور روز مرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ ہمارے ملک میں احتجاج کے نام پر تصادم ہوتا ہے‘ ایسی صورت میں ریاستی مشینری کا حرکت میں آنا فطری عمل ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: طاقت کے استعمال احتجاج کو طاقت جمہوری ملک میں ایک جمہوری نے کہا کہ ملک میں ا کے لیے

پڑھیں:

محرابپور،شہر میں گندگی ،نکاسی آب کے نظام کی تباہی کے خلاف شہری احتجاج کررہے ہیں

محرابپور،شہر میں گندگی ،نکاسی آب کے نظام کی تباہی کے خلاف شہری احتجاج کررہے ہیں

متعلقہ مضامین

  • حیدرآباد: میمن سوسائٹی کی رہائشی خواتین با اثر افراد کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں
  • کوڑھ کے مریضوں کا مفت علاج کرنے والے گراہم سٹینز کے بہیمانہ قتل کو26 سال بیت گئے
  • مسجد کے پلاٹ پر گھر بنانے کامعاملہ غیرقانونی تعمیرات کیخلاف کارروائی کاحکم
  • غیرقانونی کنکشنز کاٹنے پر علاقہ مکینوں کا کےالیکٹرک عملے پر تشدد
  • مشال یوسفزئی کا جیل سپرنٹنڈنٹ کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز
  • سپریم کورٹ نے افغان مہاجرین کی بے دخلیوں کے خلاف دائردرخواست نمٹادی
  • بھارتی خفیہ ایجنسیاں سکھ، کشمیری حریت رہنمائوں کو نشانہ بنا رہی ہیں
  • ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، ظلم و تشدد پر اظہار تشوش
  • محرابپور،شہر میں گندگی ،نکاسی آب کے نظام کی تباہی کے خلاف شہری احتجاج کررہے ہیں