ماتحتوں کے ساتھ رحم دلانہ سلوک
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
یہ خدائی نظام ہے کہ کوئی مالک ہے تو کوئی مملوک، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی امیر ہے تو کوئی غریب، کوئی ذمے دار ہے تو کوئی ما تحت، اس میں انسانی قوت کا کوئی دخل نہیں؛ لیکن آزمائشی مرحلہ یہ ہے کہ مالک اپنے مملوک کے ساتھ کیا برتاؤ کرتا ہے؟ مخدوم اپنے خادم کے ساتھ کیا رویہ اپناتا ہے؟ حاکم اپنے مملوک کے تئیں کس سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے؟ آقا اپنے غلام کے ساتھ کس رْخ کو اپنا تا ہے؟ ذمے دار اپنے ماتحت کے تئیں کس پہلو کو اختیار کرتا ہے؟ ان میں سے ہر ایک کو نبی اکرمؐ کا اسوہ پیش نظر رکھنا چاہیے، آپؐ نے اپنے محکومین، مخدومین، ماتحتوں، خدام کے ساتھ کیا طریقہ کار اپنایا ہے؟ چوں کہ جہاں آپؐ بیک وقت مخدوم بھی تھے، غلاموں کے آقا بھی تھے، محکوموں کے حاکم بھی تھے، رعایا کے امیر بھی تھے، اسی لیے آپؐ کے اسوہ میں انسانیت کے ہر طبقے کے لیے راہ نمائی موجود ہے، جس سے ہر ایک مستفید ہوسکتا ہے، سیرتِ رسول کے مطالعے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ آپؐ نے جس طرح دیگر افراد کے حقوق کا تذکرہ فرمایا، جہاں دیگر طبقات کے حقوق کی یاددہانی، کروائی وہیں آپ نے غلاموں اور خدام کے حقوق کی جانب بھی توجہ دلائی، جہاں آپ نے خدام کے ساتھ نرمی، ماتحتوں کے ساتھ اخوت کے پہلو کو اپنانے کی ترغیب دی، وہیں پر غلاموں کے ساتھ شفقت ومحبت کا مظاہرہ کرنے انہیں آزاد کرنے کی ترغیب دی۔
غلاموں وخدام کے حقوق
ایک انسان جب کسی کی خدمت کے لیے وقف ہوجائے تو مخدوم کے ذمے بھی کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں، یہی نہیں کہ مخدوم خدام سے خدمت تو لے، اس کے بعد جب ادائیگی حقوق کا مرحلہ ہو تو انجان ہوجائے،آپؐ نے غلاموں کے حقوق کا اتنا اہتمام فرمایا کہ اخیر مراحل میں بھی جس چیز کی وصیت فرمائی اس میں غلام کے سلسلے میں اللہ سے ڈرنے کی تلقین فرمائی۔ (مسند احمد: 584 مسند علی)
ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا: تمہارے خادم وغلام تمہارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارا ما تحت بنایا ہے، جو خود کھائے، وہ اپنے غلام وخادم کو کھلائے، جو خود پہنے، وہ اپنے خادم وغلام کو بھی پہنائے، ان پر ضرورت سے زائد بوجھ مت ڈالو، اگر ڈال ہی دو تو تم بھی ان کی اعانت وامداد کرو۔ (بخاری) یہ آپؐ کی رحمتِ تامہ کا اثر ہے کہ آپ نے خدام وغلاموں کو ماتحتوں کی صف سے اٹھا کر بھائی کے درجے تک پہنچادیا، جس طرح ایک انسان اپنے حقیقی بھائی کے ساتھ غلط سلوک کا تصور تک نہیں کرسکتا، اسی طرح اپنے غلام وخادم کو بھائی ہی تصور کرے، اسی طرح خوراک وپوشاک میں غلاموں کے ساتھ ہم مثل برتاؤ کرے، صحابہ کرامؓ کا عجیب وغریب مزاج تھا، دربارِ نبوی سے کوئی بات سنتے تو فوراً اس کا اثر قبول کرتے ہوئے عمل در آمد فرماتے۔ سیدنا ابوذرؓ جو مقامِ ربذہ میں رہا کرتے تھے، انہوں نے آپؐ کا یہی فرمان سن رکھا تھا، انہوں نے جو اچھا کپڑا پہنا تھا، وہی کپڑا اپنے غلاموں کو بھی پہنادیا تھا، معرور بن سوید نے ابوذر سے وجہ دریافت کی تو ابوذرؓ نے آپؐ کا قول نقل کردیا۔ (بخاری) الغرض آپؐ کے یہ فرامین ماتحتوں کے حقوق کی نشان دہی کر رہے ہیں، سردار ومخدوم کو اس جانب متوجہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے ما تحتوں کے ساتھ برادرانہ اسوہ اپنائیں، نہ یہ کہ وہ اپنے ماتحتوں کی توہین وتحقیر کریں۔
خدام کی تنبیہ
کئی مرتبہ غلطی کرنے یا نافرمانی کی راہ اپنانے پر خدام کی تنبیہ کی جاسکتی ہے؛ لیکن تنبیہ کا طریقۂ کار ایسا اپنایا جائے کہ جس سے غلام کی اصلاح بھی ہو، اور تکلیف بھی نہ ہو۔ آپؐ کے جو اوصاف مبارکہ بیان کیے گئے ہیں ان میں ایک اہم وصف کی جانب سیدہ عائشہؓ نے توجہ دلائی کہ آپ نے کبھی بھی کسی خادم کو نہ مارا اور نہ ہی کسی عورت کو مارا۔ (ابوداؤد)
آپؐ نے جیسے خود مارنے سے احتراز کیا، اسی طرح دیگر صحابہ کرام کو بھی اس سے باز رکھتے رہے، ابو مسعود انصاریؓ فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں اپنے غلام کو ماررہا تھا، میں نے اپنے پیچھے ایک آواز سنی، ’’جان لو ابومسعود! اللہ تم پر اس غلام سے زیادہ قادر ہے‘‘۔ اس آواز کی جانب متوجہ ہوا تو آپؐ موجود ہیں، ابو مسعودؓ نے کہا: یارسول اللہ! یہ غلام اللہ کے لیے آزاد ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ابو مسعود! اگر تم اس غلام کو آزاد نہ کرتے تو تمہیں آگ چھولیتی۔ (مسلم)
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے تو کوئی غلاموں کے اپنے غلام بھی تھے خدام کے کے حقوق وہ اپنے کے ساتھ
پڑھیں:
پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں، خواجہ آصف
اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی والے اپنے لیڈر کے ساتھ مخلص نہیں۔پی ٹی آئی کی جانب سے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات سے انکار پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ مذاکرات کرنے والوں کو خود بھی پتا تھا کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلنا۔ پی ٹی آئی والے کسی بھی بات پر مخلص نہیں اور نہ ہی اپنے لیڈر
کے ساتھ مخلص ہیں۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مذاکرات سے انکار کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ علی امین گنڈاپور نے خود ہی اعتراف جرم کیا ہے کہْ ہمارے لوگ گمراہ ہوئے۔ یہ کس چیز کا جوڈیشل کمیشن بنانا چاہتے ہیں، جن کو سزائے ہوئی انہوں نے اعتراف جرم کیا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جب میں قید میں تھا تو مجھے بس ایک کمبل دیا گیا تھا۔ ہماری پوری لیڈرشپ کو قید کیا گیا مگر ہم نے ملک کے نقصان کا نہیں سوچا۔ پیکا ایکٹ کی منظوری پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ساری دنیا میں سوشل میڈیا پر پابندی ہے، یہ چیز امریکا میں بھی ہورہی ہے۔