معراج النبی ﷺ کے بارے میں نظریات
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
معراج کب ہوئی‘ اس کے بارے میں ایک سے زائد اقوال وروایات ہیں‘ لیکن روایات کا یہ اختلاف واقعہ کی حقانیت پر اثرانداز نہیں ہوتا‘ کیونکہ اصل مقصود واقعے کا حق ہونا اور اس کا بیان ہے‘ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے تاریخ کا بیان ثابت نہیں ہے‘ کیونکہ تاریخ کا تعیّْن معراج کے ایک حقیقت ہونے اور اْس کے مقصد کے لیے ضروری نہیں ہے۔ راویانِ حدیث نے اپنی اپنی یادداشت کے مطابق حوالہ دیا ہے‘ تاہم مشہور روایات کے مطابق یہ عظیم المرتبت اور بے مثال واقعہ ہجرتِ نبو ی سے کم وبیش ڈیڑھ سال قبل27 رجب المرجب کی شب کو وقوع پذیر ہوا۔
غلام احمد پرویز صاحب سرے سے کسی معراجِ جسمانی یا مَنامِی (یعنی خواب کے عالم میں‘ جسے ’’رؤیا‘‘ کہتے ہیں) کے قائل نہیں ہیں۔ بنی اسرائیل:1 میں رات کے جس سفر یا سیر کا ذکر ہے‘ ان کے نزدیک اِس سے مراد ہجرت کا واقعہ ہے‘ جو رات کے وقت ہوا اور ’’مسجدِ اَقصیٰ‘‘ سے مراد مدینہ مْنوّرہ ہے‘ جو اْس وقت ’’یثرب‘‘ کہلاتا تھا‘ حالانکہ اس وقت یثرب میں کوئی مسجد موجود ہی نہیں تھی۔
چنانچہ وہ ’’سْبحَان َالَّذِی اَسرٰی بِعَبدِہ‘‘ کے تحت لکھتے ہیں: ’’مکہ کی سرزمین حضور (اور آپ کی جماعت) پر تنگ ہوچکی تھی‘ اس لیے آپ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی‘ جہاں کی فَضا آپ کے مشن کے لیے وسیع اور کشادہ تھی۔ لیکن ہمارا خیال ہے کہ یہ ’’سَریٰ یَسرِی‘‘ سے ہے اور ’’لَیلاً‘‘ تاکیدِ مزید کے لیے ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حضور نے ہجرت رات کے وقت فرمائی تھی۔ (لغات القرآن‘ ص: 872) مزید لکھتے ہیں: ’’اَلمَسجِدْ الاَقصٰی‘‘ بہت دور کی مسجد‘ عام طور پر اس سے مراد ’’بیت المقدس‘‘ لیا جاتا ہے‘ لیکن ہمارے نزدیک اس سے مراد مدینہ منورہ ہے‘ جو مکہ سے قریب تین سو میل دور ہے اور جس کی طرف نبیِ اکرمؐ رات کے وقت ہجرت کرکے تشریف لے گئے تھے اور جسے اب اس جماعت کی سجدہ گاہ بننا تھا‘ یعنی ان کے نظامِ اطاعت وفرماں پذیری کا مرکزی مقام۔ (لغات القرآن‘ص: 70-71)
مولانا امین احسن اصلاحی بھی حالتِ بیداری میں معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں‘ بلکہ اِسے ’’رْویا‘‘ (یعنی خواب) سے تعبیر کرتے ہیں‘ اس فرق کے ساتھ کہ انبیائے کرام کے رْویا‘ ’’رْویائے صادِقہ‘‘ ہوتے ہیں‘ جو ’’وحی‘‘ کی ایک صورت بھی ہے‘ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’رہا یہ سوال کہ یہ جو کچھ آپ کو دکھایا گیا‘ ’’رْویا‘‘ میں دکھایا گیا یا بیداری میں‘ تو اس سوال کا جواب اسی سورہ میں آگے قرآن نے خود دے دیا ہے‘ فرمایا ہے: ترجمہ: ’’اور ہم نے اِس ’’رْویا‘‘ کو جو تمہیں دکھائی‘ لوگوں کے لیے فتنہ ہی بنادی‘‘۔ ظاہر ہے کہ یہاں جس ’’رْویا‘‘ کی طرف اشارہ ہے‘ اْس سے اِس ’’رْویا‘‘ کے سوا کوئی اور’’رْویا‘‘ مراد لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے‘ جس کا ذکر زیرِ بحث آیت میں ’’لِنْرِیَہ مِن اٰیٰتِنَا‘‘ کے الفاظ سے ہوا ہے۔ لفظ ’’اِرَائَت‘‘ قرآن میں متعدد مقامات میں ’’رْویا‘‘ میں دکھانے کے لیے آیا بھی ہے اور مفسرین نے اس سے یہی ’’رْویا‘‘ مراد بھی لی ہے۔ اس وجہ سے اس کا ’’رْویا‘‘ ہونا تو اپنی جگہ پر واضح بھی ہے اور مْسلّم بھی‘ لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ’’رْویا‘‘ کو خواب کے معنی میں لینا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ خواب ’’خوابِ پریشاں‘‘ بھی ہوتے ہیں‘ لیکن حضرات انبیائِ علیہم السلام کو جو ’’رْویا‘‘ دکھائی جاتی ہے‘ وہ’’رْویائے صادقہ‘‘ ہیں اور وحیِ الٰہی کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں اور رسولوں پر جس طرح فرشتے کے ذریعے سے کلام کی صورت میں اپنی وحی نازل فرماتا ہے‘ اسی طرح کبھی ’’رْویا‘‘ کی صورت میں بھی ان کی رہنمائی فرماتاہے۔ (تدبر قرآن‘ جلد:4 ص: 475)
مشہور سکالر جناب سرسید احمد خاں دیگر مْتَجَدَّدین سے دس قدم آگے ہیں‘ وہ تو سرے سے معجزات کے قائل ہی نہیں ہیں‘ اس لیے وہ اْن کی ایسی تعبیر وتشریح کرتے ہیں جو عقل کے مطابق ہو یا بقول اْن کے قوانینِ فطرت کے مطابق ہو؛ چنانچہ سرسید احمد خاں ’’معراج النبیؐ‘‘ پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’رسول اللہؐ کا جسمانی طور پر رات کو بیت المقدس جانا اور وہاں سے ایک سیڑھی کے ذریعے آسمانوں پر جانا قانونِ فطرت کے خلاف ہے اور عقلاً مْحال ہے۔ اگر معراج النبیؐ کے راویوں کو ثِقہ بھی مان لیا جائے‘ تو یہی کہا جائے گا کہ اْنہیں سمجھنے میں غلطی ہوئی۔ یہ کہہ دینا کہ اللہ اِس پر قادر ہے‘ یہ جاہلوں اور مرفوع القلم لوگوں کا کام ہے‘ یعنی ایسے لوگ مجنون کے حکم میں ہیں‘ سچے مومن ایسی بات نہیں کہہ سکتے۔ قانونِ فطرت کے مقابل کوئی دلیل قابلِ قبول نہیں ہے۔ ایسی تمام دلیلوں کو اْنہوں نے راوی کے سَہو اور خطا‘ دور اَزکار تاویلات‘ فرضی اور رکیک دلائل سے تعبیر کیا‘‘۔ (تفسیرالقرآن‘ جلد2 ص: 122-123) یہ سرسید احمد خاں کی طویل عبارت کا خلاصہ ہے۔ الغرض سرسید معجزات پر ایمان رکھنے والوں کو جاہل اور فاتر العقل قرار دیتے ہیں‘ ہمیں وحیِ ربانی کے مقابل کھڑی ہونے والی عقل کی فرزانگی کے بجائے دیوانگی کا طعن قبول ہے‘ کیونکہ قدرتِ باری تعالیٰ کی جلالت پر ایمان لانے ہی میں مومن کی سعادت ہے اور یہی عشقِ مصطفیؐ کا تقاضا ہے۔
اس سے آپ پر واضح ہوگیا کہ جناب سرسید احمد خاں کے نزدیک قانونِ فطرت اور عقل کے منافی مشہور روایات اور صحیح احادیث بھی قابلِ قبول نہیں‘ لہٰذا اْن کے نزدیک ایسی تمام روایات واحادیث رَد کردی جائیں گی۔ اس کے برعکس ہر مسلمان کے نزدیک معیارِ حق وحی ربانی اور فرمانِ رسول ہے‘ نہ کہ قوانین ِ فطرت۔ ہم وحیِ ربانی کو ماورائے عقل توکہہ سکتے ہیں‘ لیکن اسے ضدِّ عقل (Irrational) ہرگز نہیں کہہ سکتے اور عقلی بنیاد پر وحی ربانی کو رَد کرنے کے مقابلے میں عقل کی نارسائی کا اعتراف بہتر شِعار ہے۔ آج سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت ایسے اْمور وجود میں آرہے ہیں‘ جن کو آج سے چند سو سال پہلے کا انسان اِسی طرح قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقلی اعتبار سے مْحال تصورکرتا۔ آج ہم اپنی جسمانی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ انسان سائنسی علم اور ٹیکنالوجی کی بدولت فضاؤں میں محوِ پرواز ہے‘ ہزاروں سیٹلائٹ فضا میں مْعلّق ہیں۔ انسانی ساختہ راکٹ کی طاقت سے خلائی شٹل چاند پر پہنچی اور واپس صحیح سالم اْتر آئی اور ابھی انسانیت کا یہ سفرِ ارتقا جاری ہے۔ اگر آج سے پانچ سوسال پہلے کے انسان کے سامنے کوئی اس طرح کا دعویٰ کرتا‘ توکیا اِسی طرح مْحالِ عقلی اور قانونِ فطرت کے خلاف قرار دے کر اْسے رَدنہ کردیا جاتا‘ اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا ؎
سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے
کہ عالَم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یعنی واقعہ معراج نے انسان کے لیے بالائی فضاؤں اور خلاؤں میں کمندیں ڈالنے کے امکانات روشن کیے۔ اللہ تعالیٰ کی قدرت بلاشبہ انسان کی پیدا کردہ مادّی طاقت اور عقلِ انسانی کے مقابلے میں لامحدود ہے‘ اِسی لیے تو غالب نے معراج النبیؐ کی رفعتوں کے بارے میں کہا تھا؎
ہر کس بقدر خویش بجائے رسیدہ است
آں جاکہ جائے نیست ‘تو آنجار سیدہ ای
مفہوم: ’’تمام اصحابِ کمال (یعنی انبیائے کرام علیہم السلام) اپنی اپنی استعداد اور شان کے مطابق رفعتوں کے ایک مقام تک پہنچے‘ یا رسول اللہ! مگر آپ رفعتوں اور بلندیوں کے اْس مقام (یعنی حضوریِ بارگاہِ ربّ العالمین) تک پہنچے کہ جہاں زمان ومکان کی حدیں ختم ہوجاتی ہیں‘‘۔ اسی کو لامکاں سے تعبیر کرتے ہیں‘ اسی تناظر میں امام احمد رضا قادری نے کہا؎
وہی لامکاں کے مکیں ہوئے‘ سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیں جن کے ہیں یہ مکاں‘ وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں
علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں: ’’سدرۃ المْنتہیٰ کیا ہے‘ انسانی فہم واِدراک کی سرحد کے اخیر پر ایک درخت۔ کیا اس کوشْوْون وصفات ِالٰہی کی نیرنگی نے ڈھانک لیا‘ کیا انسانی فہم وادراک کی اخیر سرحد کا درخت صرف شْوْون وصفات کی نیرنگی کا مظہر ہے‘ کیا یہاں پہنچ کر کون ومکان اور وجوب وامکان کا عقدۂ مشکل حل ہوگیا‘ کیا دل بھی دیکھتا ہے‘ حضورؐ نے دل کی آنکھوں سے کیا دیکھا‘ دیدۂ چشم سے کیا نظر آیا‘ آپؐ کو اس سفر میں آیاتِ ربانی دکھائی گئیں‘ مگر یہ مشاہدۂ قلب تھا یا معائنۂ چشم‘ ؎ رازِ ایں پردہ نہاں است ونہاں خواہد بود‘‘ (سیرۃ النبی‘ جلد سوم‘ ص: 268) الغرض علامہ شبلی نعمانی واضح موقف اختیار نہیں کرتے‘ اس عبارت کے سیاق وسباق سے ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ شبلی نعمانی معراجِ جسمانی کے قائل نہیں ہیں‘ لیکن شاید وہ مَصلِحَتاً اپنے اس موقف کو بیان نہیں کرنا چاہتے تاکہ اْن کے مشن میں رکاوٹیں پیدا نہ ہوں‘ کیونکہ جمہورِ علمائے اسلام تو معراجِ جسمانی کے قائل ہیں‘ اس لیے وہ فارسی جملہ استعمال کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’یہ حقیقت کہ معراج جسمانی تھی یا عالمِ رویا میں ہوئی‘ یہ مشاہدۂ قلب تھا یا معاینۂ چشم‘ اس راز پر پردہ پڑا ہوا ہے اور اسے پردے ہی میں رہنا چاہیے ‘‘۔ ’’شْوْون‘‘ کا مفہوم ومعنی ہے: ’’قدرتِ الٰہی کے بڑے بڑے مظاہر اور باری تعالیٰ کی عظیم شانیں‘‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’وہ ہر آن نئی شان میں ہے‘‘۔ (الرحمن: 29)
اِسی لیے تو بعض اہلِ علم کہتے ہیں: معراج کے موقع پر زمان ومکان کی نبضیں رْک گئیں اور رسول اللہؐ کے لیے اللہ کی قدرت سے وجوبِ امکان کے فاصلے سمٹ گئے‘ علامہ شبلی نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد یقینا ملاحظہ فرمایا ہوگا: ’’نگاہ ِ(مصطفی) نے جو دیکھا‘ قلبِ (مصطفی) نے اْس کی تکذیب نہیں کی (یعنی تصدیق کی)‘ کیا تم اْن سے اْس پر جھگڑ تے ہو‘ جو اْنہوں نے دیکھا‘‘۔ (النجم: 11-12)
رسول اللہؐ کے اِس دعوائے معراج کے پہلے مخاطَب اہلِ مکہ تھے‘ وہ ا ہلِ زبان بھی تھے اور اْنہوں نے دعوے کی حقیقت کو جان بھی لیا تھا۔ اگر یہ محض خواب میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ یا آسمانوں کی سیر کرنے کا دعویٰ ہوتا‘ تو اِس پر اتنی بحث وتمحیص کی نوبت ہی نہ آتی۔ آج بھی کوئی شخص عالمِ خواب میں مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب کی سیر کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اعتراض کا سبب تو یہی تھا کہ اْنہوں نے اس دعوے کو خواب پر محمول نہیں کیا‘ بلکہ عالمِ بیداری میں بظاہر ایک ناقابلِ یقین سفر کا دعویٰ سمجھا۔ اسی لیے تو قرآن نے اسے فتنہ یعنی آزمائش قرار دیا ہے اور اس کسوٹی کے ذریعے مومنینِ صادقین اور معانِدین و مْنکرین کو چھانٹ کر جدا کردیا۔ کْفارِ مکہ نے اسے قوانینِ فطرت کے خلاف اور عقل کی ضِد جانا اور حضرتِ ابوبکر صدیقؓ سے معراج کی بابت سوال ہوا: کیا آپ نبیؐ کے اس دعوے کی تصدیق کریں گے کہ وہ رات کو بیت المقدس گئے اور صبح سے پہلے واپس آگئے‘ انہوں نے فرمایا: بالکل! میں ضرور اس سے بھی زیادہ عقل کے لیے حیران کن چیزوں کی تصدیق کروں گا‘ وہ صبح وشام آسمان کی خبریں لاتے ہیں اور میں اْن کی تصدیق کرتا ہوں‘‘۔ (سْبْلْ الھْدیٰ وَالرَّشَاد‘ ج:3 ص:94)
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: فطرت کے خلاف معراج النبی علامہ شبلی اللہ تعالی رسول اللہ سی لیے تو ا نہوں نے نہیں ہیں کے نزدیک کے مطابق کے قائل اور عقل نہیں ہے کا دعوی کے لیے رات کے ہے اور
پڑھیں:
ملک کا اقتدار اللہ کے باغی بندوں کے ہاتھوں میں ہے،جاوید قصوری
لاہور (وقائع نگارخصوصی ) امیر جماعت اسلامی پنجاب وسطی محمد جاوید قصوری نے منصورہ میں تربیت گاہ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہماری تحریک اسلام کے غلبے کی تحریک ہے 75افراد کا یہ قافلہ آج کروڑوں افراد کا قافلہ بن چکا ہے۔ ہمیں اپنے پیغام کو ہر گھر میں پہنچانا ہے۔ دعوت کے میدان میں آگے بڑھیں گے اور اس تحریک کو طاقت ور بنائیں گے۔ دین کے تقاضے اس وقت پورے نہیں ہونگے جب سارے ضابطے پورے نہیں کئے جائیں گے۔ اسلام ایک مکمل نظام ہے، اگر یہ قائم نہیں ہو گا تو اس کی برکات حاصل نہیں ہونگی۔ آج ہمارے ملک کا نظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہے وہ اللہ کے باغی بندے ہیں۔ ہمیں یہ اقتدار اور اختیار ان سے حاصل کرکے اللہ کے نیک بندوں کو دینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اغیار کی غلامی میں دینے والے حکمران خود کو قوم کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ ان کی وجہ سے آج پاکستان کی معیشت برباد ہو چکی ہے۔حکمرانوں کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اللہ کے کے نظام کے لئے ہم متحد ہوں۔ جماعت اسلامی دین حق کے غلبے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے۔اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک کے اندر صرف اور صرف اللہ کا دین ہی کامیاب ہو سکتا ہے۔ محمد جاوید قصوری نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ملک غربت اور جہالت میں ڈوبا ہوا ہے لیکن ہماری سول اور غیر سول افسرشاہی اپنے ٹھاٹھ باٹھ چھوڑنے تیار نہیں ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں خون نچوڑ رہی ہیں۔ جو حکومت آتی ہے وہ پروٹوکول اور اپنی مراعات کے حصول میں کمی تو کرتی نہیں بلکہ الٹا ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیتی ہے۔ معیشت زبوں حالی کا شکار اور عوام کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پی ڈی ایم ٹو کی حکومت اندازوں سے بھی زیادہ خراب کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔