پچھلے کچھ برسوں سے ہمارے ہاں رواج ہو گیا ہے کہ شادیاں نومبر ، دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں ہونے لگی ہیں۔ زیادہ گرمیوں میں شادیوں کی تقریبات میں اور طرح کے مسائل ہوتے ہیں اور زیادہ سردی میں اس سے بڑھ کر مشکلات۔ امسال ماہ دسمبر اور جنوری میں خاندان میںچند قریبی شادیوں میں شرکت کرنا پڑی اور انجام کار لگ بھگ سارا خاندان بیمار پڑا ہوا تھا۔
پیٹ کے امراض، کھانسی، زکام اور گلے کے امراض کے باعث سبھی کی طبیعت ناساز تھی۔ شادیوں پر سفر اور لین دین کے اخراجات سے زیادہ دواؤں کے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ ابھی تک ہم خاندان والے آپس میں ملتے ہوئے محتاط ہیں یا ماسک پہن کر ملتے ہیں۔
سب سے پہلے تو اس رجحان کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ ماہ رمضان سے پہلے پے درپے شادیوں سے کئی دن ایک سے زائد شادیوں میں حاضری لگوانا پڑتی ہے، بھئی رمضان کے بعد بھی اب کافی ہفتوں تک موسم ایسا ہوتا ہے کہ شادی کی جا سکتی ہے۔ بحالت مجبوری اگر شادی کرنا اتنا ہی ضروری ہے تو کوشش کریں کہ تقریبات کارڈ پر دیے گئے وقت کے عین مطابق ہوں، کسی وجہ سے تاخیر ہو بھی جائے تو چلو بیس پچیس منٹ کی تاخیر سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے ۔
ہمیں ایک کارڈ ملا، اس پر سہرا بندی کا وقت صبح چھ بجے تھا، انتہائی قریبی عزیزہ کے بیٹے کی شادی تھی۔ فون کر کے دریافت کیا کہ کیا سہرا بندی کے بعد نماز فجر ادا کی جائے گی، اس چھ بجے کی سہرا بندی کی کیا تک ہے۔ جواب ملا ، ’’ چھ بجے کا مطلب آپ نو بجے سمجھیں، کیونکہ لوگ کون سا وقت پر آ جاتے ہیں ۔ ‘‘ اس تصور کو تبدیل کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔ تصور کریں کہ اگر ان کے ہاں کوئی کارڈ پر دیے گئے وقت پر پہنچ جائے تو وہ کیا کرے؟ اس پر مستزاد کہ نو بجے والی سہرا بندی بھی نو بجے نہیں ہوئی، نہ ہی بارات کی روانگی بر وقت ہوئی کیونکہ گھر کی خواتین بھی پارلر سے نہیں واپس آ سکی تھیں۔
جہاں گرمیوں کی شادی میں مہمانوں کے لیے انتظامات کرنا مشکل ہوتے ہیں، سردیوں کی شادیوں میں بھی اس بات کا اہتمام کرنا اہم ہے، خواتین تو بالخصوص اس موسم میں بھی باریک کپڑوں کے لباس زیب تن کرتی ہیں اور تمام وقت بھی ٹھٹھرتی رہتی ہیں اور بعد میں بیمار پڑ جاتی ہیں۔ سردیوں میں تو کھانا ڈونگے سے پلیٹ میں منتقل ہونے تک ٹھنڈا ہو جاتا ہے ، شادی ہال والے سارا زور صرف کر دیتے ہیں ہال کی سجاوٹ اور موسیقی پر۔ کھانا بھی مہنگا اور ناقص تیل سے تیار کیا ہوا اور اوپر سے سستے اور جعلی مشروبات، ہال میں گرم رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا، سارے بڑے بڑے دروازے مسلسل کھلے ہوتے ہیں … سب مل کر ایسا مواد تیار کرتے ہیں کہ انسان بیمار ہوئے بغیر رہ ہی نہیں سکتا ۔
شادی کی تقریب کے میزبان اپنی تصاویر بنوانے اور رسومات میں ایسے مصروف ہوتے ہیں کہ انھیں مہمانوں کے آرام اور سہولت کے بارے میں سوچنے کا وقت ہی نہیں ملتا۔ لوگ آتے ہیں، سلامی دیتے ہیں، جیسا تیسا کھانا کھاتے اور چل دیتے ہیں۔ سرگودھا، کھاریاں اور گجرات میں، میں نے جتنی تقریبات میں شرکت کی وہاں نہ وقت کی پابندی تھی جیساکہ پنجاب میں پہلے تھی اور نہ ہی کھانے میں ڈشز کا کوئی شمار۔ یہ سب کچھ کسی گھر یا فارم ہاؤس میں ہو رہا ہے اور نہ ہی چھپ چھپا کر۔ سر عام بڑے بڑے ہال اور مارکی، اس قانون کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔
آپ میزبان ہیں تو سب سے اہم ذمے داری آپ پر ہے، شادی پر آنے والے لوگوں کا خیال رکھنا آپ پر فرض ہے، ان کے لیے تقریبات میں وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھنا جو کہ سب سے زیادہ کوفت کا باعث بنتا ہے۔ خواہ مخواہ کی رسومات، ہار اور سہرے پہنانے اور بار بار رک کر گاڑیوں سے وار وار کر نوٹ پھینکنا، آج کل یہ سب بہت عام ہو گیا ہے مگر یہ نمائش کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان مٹھی بند کر کے کسی غریب کی مدد کر دے۔ سوشل میڈیا پر دیکھ دیکھ کر لوگوں میں نقل کا رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ ہر کوئی ایسی ایسی فضول رسومات کو فروغ دینے میں مصروف ہے۔
شادی کی تقریبات میں اس قدر مقابلے کی دوڑ ہے کہ جیسے دنیا میں ساری دولت اکٹھی کرنے کا ، کمانے کا واحد مقصد شادی پر خرچ کرنا ہو۔ کنگال سے کنگال شخص بھی انبانی جیسی شادی کرنا چاہتا ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر وہ شادی مہینوں چلتی رہی ہے ۔
ہم جو کچھ مرضی کر لیں، کسی کو خوش تو نہیں کیا جا سکتا، کوئی کھانا کھائے بغیر چلاجاتا ہے، کسی کو اس کی حیثیت کے مطابق پروٹوکول نہیں ملتا، کسی کو اپنے ارد گرد بیٹھے لوگوں سے کوفت ہوتی ہے، کسی کو وقت کے زیاں پر۔ آپ کی تقریب میں جو کچھ آپ کے لیے اہم ہے، وہ آپ کی تصاویر اور آپ کے کپڑوں اور زیورات کی نمائش ہے جب کہ لوگوں کو اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اتنے لوگوں کو مدعو کریں جن کو مدعو کرنا ضروری ہے اور جتنوں کو آپ سنبھال سکتے ہیں، ان کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: تقریبات میں ہوتے ہیں کسی کو
پڑھیں:
راشن خیال قوم اور ملاوٹی جمہوریت
ایوب خان کا مارشل لا ہو یا جنرل یحیٰ کا قلیل مدتی اقتدار، ذوالفقار علی بھٹو کا دورِ صدارت ہو یا وزارتِ عظمی کا دور، جنرل ضیا کا 90 دنوں میں انتخابات کا وعدہ کر کے ایک عشرے کا نافذ کردہ مارشل لا ہو یا 1987 سے 1999 تک اقتدار میں آنے والی بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان کھیلی جانے والی میوزکل چیئرز کا کھیل، مشرف کا بطور سویلین صدر ختم ہونے والا آمرانہ دور ہو یا نواز شریف کی 2017 میں اور عمران خان کی 2021 میں حکومتیں ختم کرنے کے بعد آج تک جاری رہنے والا ہائیبرڈ نظام ۔۔۔۔
پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان 78 سالوں میں سب کچھ آزما لیا، نہیں آزمایا تو خالص جمہوریت کا وہ غیر آزمودہ طرزِ حکمرانی جس کے سبب پاکستان کے بعد معرضِ وجود میں آنے والے ممالک آج ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں۔
ہمارے بڑے جب ہم جتنے بڑے تھے تو ان کا دعوی ہے کہ ایوب خان کا دورِ اقتدارسب سے سنہرہ دور تھا۔ اس دور میں نہ صرف تربیلا اور منگلہ ڈیم بنے بلکہ اشیا خورونوش کی قیمتیں انتہائی کم تھیں۔
جنرل ایوب نے 1954 میں ہونے والے سیٹو معاہدے کے نتیجے میں ملنے والے ڈالرز سے عوام کو سستے راشن کی فراہمی اور ڈیموں کی تعمیر تو یقینی بنائی، لیکن اس پاداش میں پاکستانی قوم یہ بھول گئی کہ قوموں کو روشن خیال ہونا چاہیے ناکہ راشن خیال۔
راشن خیالی میں قوم بھول گئی کہ دیگر ممالک میں رائج جمہوریت نے ان قوموں کو آج کی کامیاب ترین قومیں بنے میں مدد فراہم کی۔ ایوب نے صرف قوم کو سستے راشن کی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا اور پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے 20 سالوں میں جمہوریت کے ملک میں پہنپنے ہی نہ دیا جس کے سبب آج تک قوم جمہوریت کے لیے ترستی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ایوب کی حکومت کے خاتمے کی ایک مبینہ وجہ چینی کی قیمت میں اضافہ بنی۔
ایوب کے بعد جنرل یحی کا دور ایسا دور تھا جس میں منعقد ہونے والے 1970 کے انتخابات کو پاکستان کے منصفانہ ترین انتخابات مانا جاتا ہے، لیکن اس کے بعد ہوا کیا؟ ملک ٹوٹ گیا اور اس کا ذمہ دار مجیب اور بھٹو کو ٹھرایا گیا۔ اس کے باوجود کے اقتدار جنرل یحیی کے پاس تھا جو چاہتا تو اپنے زیرِ اثر بھٹو کو قائل کرکے مجیب کی حکومت بنوا سکتا تھا لیکن۔۔۔
جنرل ضیا کے لگ بھگ ایک عشرے کے دور میں جہاں سوویت یونین کے خلاف پاکستانی فوج کی خدمات کرائے پر دینے پر ملک کو کثیر تعداد میں ڈالر ملے، وہیں دوسری طرف ملک میں انہی ڈالروں کی بدولت قدرے خوشحالی قائم رہی۔
قوم کو یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ امریکی ڈالروں کے عوض جو طالبان پاکستان بنا رہا ہے، یہی طالبان ہمارے دشمن بنیں گے۔ قوم کو جہاد کے لیے قائل کیا گیا اور یوں جنرل ضیا کا دور ایک ایسے حادثے کی صورت میں ختم ہوا کہ انہیں دفنانے کے لیے دیگر چند اعضا سمیت سونے کے دانتوں کو دفنانا پڑا۔
بھٹو کے نام نہاد جمہوری دور کے بعد ملک میں ہونے والے 1988 کے انتخابات کے بعد بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان اقتدار کے لیے میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہوا اور 1999 میں مشرف کے مارشل لا تک دونوں رہنماؤں نے دو دو بار اقتدار کی کرسی حاصل کی۔ لیکن انہی دونوں نے فیصلہ سازوں کی مدد سے ایک دوسرے کو اقتدار کی کرسی سے چلتا کیا۔
قدرت کا نظام کہیں یا عالمی طاقتوں کی منصوبہ بندی۔ مشرف کے اقتدار میں آنے کے دو سالوں بعد ہی نائن الیون ہو گیا۔ پھر کیا تھا۔ اندھے کو کیا چاہیے، دو روٹیاں۔ کیونکہ جب اندھے کو ڈالروں کی صورت میں روٹیاں مل جائیں تو اسے دنیا دیکھ کر کرنا کیا ہے۔
افغانستان میں مشرف دور میں ضیا دور کے دوران تیار کردہ طالبان کے خلاف فوج کرائے پر دینے کے عوض ڈالروں کی ریل پیل ہو گئی۔ سڑکوں پر چمچماتی گاڑیاں نظر آنے لگیں۔ بین الاقوامی فوڈ چینز پہنچ گئیں۔
اس سے قطع نظر کہ امریکا جب افغانستان سے نکلے گا تو طالبان، پاکستان کا کیا حال کریں گے، ڈالروں کی مسلسل فراہمی نے اس راشن خیال قوم کو کسی بھی منطقی نقطے پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے بانجھ کر دیا۔ نجی چینلز کے آنے سے لوگوں میں ایسا شعور آیا کہ آج پوری قوم ہی ٹک ٹاک اور انسٹا گرام پر لگی ہے۔
خیر جو بھی کہیں یا نہ بھی کہیں، کہنے سے فرق کیا پڑتا ہے۔ مشرف نے اکیسویں صدی کی شروعات 2002 میں انتخابات کروا کر کی اور اپنی صدارت میں ملکی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے 5 سال مکمل کیے۔ چاہے کچھ عرصے بعد ہی تکنیکی خرابی کی وجہ سے وزیراعظم بدلنے پڑے۔
کہنے کو کہا تو جا سکتا ہے کہ ملک میں کسی حد تک حقیقی جمہوریت محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد 2008 میں ہونے والے انتخابات کے بعد آئی، لیکن چلتی جمہوریت میں فیصلہ سازوں نے جب اپنے فوجی صدر کی حکومت میں پنگا کرنے سے باز نہیں آئے تھے تو اب بھی باز کیسے رہتے۔
اچانک سے عدالت کو خیال آیا کہ وزیراعظم کو سوئس حکام کو خط لکھنا چاہیے، نہیں تو۔۔۔ اور یوں 5 سالہ دور بھی وزیراعظم کی تبدیلی کے بغیر مکمل نہ ہو سکا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اسی دور میں آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینے کی روائت پڑی۔
2013 کے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن تو کہا گیا، لیکن عمران خان کے علاوہ دیگر سیاسی جماعتوں نے انہیں قبول کر لیا۔ تاہم اگلے سال ہی پنگا کرنے والوں نے عمران خان اور مولانا طاہر القادری کو رشتہ احتجاج میں باندھ دیا اور یوں عمران خان 126 دنوں تک اسلام آباد میں براجمان رہے، جہاں وہ جمِ حقیر سے روزانہ خطاب کرتے اور امپائیر کی انگلی جلد اٹھنے کا اشارہ دیتے۔
خیر یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ نواز شریف 5 سال پورے کرتے۔ آگیا پانامہ اور پھر پنگا کرنے والوں نے کر دیے لانچ اپنے پیادے۔ جس کے بعد 2017 سے ہائبرڈ نظام کی ایسی شروعات ہوئی جو آج تک جاری ہے۔
2018 کے انتخابات جس قدر متنازع تھے لیکن ان پر تنازع 7 جولائی 2024 تک ہی تھا، کیونکہ اس کے بعد 8 فروری کو ہونے والے انتخابات نے ایسے ورلڈ ریکارڈ قائم کیے جنہیں لگتا نہیں آسان ہو گا توڑنا۔
تاہم یہ پاکستان ہے جہاں خالص جمہوریت کے علاوہ تمام اقسام کے حکومتی نظام آزمائے جا چکے ہیں۔ 78 سالوں بعد ہمیں اس نتیجے پر تو پہنچ جانا چاہیے کہ ان سالوں میں جتنے بھی طریقے آزمائے گئے وہ ناکام ثابت ہوئے۔
لہذا کیوں نہ ایک بار خالص جمہوریت کو ہی موقع فراہم کر دیں۔ شائد نتائج دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کامیاب ہو جائیں۔ وگرنہ یہ نظام تو پچھلے 78 سالوں سے چل ہی رہا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں