چینی صدر کا صوبہ لیاؤننگ کے ہولوداؤ شہر کے سیلاب زدہ علاقوں کا معائنہ
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
بیجنگ () چینی صدر شی جن پھنگ نے شدید سردی میں چین کے صوبہ لیاؤننگ کے ہولوداؤ شہر کی سوئی زونگ کاؤنٹی کےچو جیاگو گاؤں میں جا کر سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرہ افراد کی خیروعافیت پوچھی اور گذشتہ سال کے سیلاب کے بعد مقامی بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کا معائنہ کیا۔جمعرات کے روز انہوں نے موسم سرما کے آغاز سے پہلے نئے گھروں میں منتقل ہونے والے مقامی باشندوں کے گھر جاکر دوبارہ تعمیر شدہ گھروں کے معیار اور روزمرہ زندگی کی حالت معلوم کی۔
رپورٹس کے مطا بق 20 اگست ، 2024 کو صوبہ لیاؤ ننگ کے ہو لوداؤ شہر میں تاریخی نوعیت کا شدید سیلاب آیا تھا، جس کی وجہ سے شہر کی سوئی زونگ کاؤنٹی میں 10 ٹاؤن شپ اور 110 انتظامی گاوں کے 185،200 افراد متاثر ہوئے ۔ متاثرہ افراد کی شدید سردی میں زندگی کو یقینی بنانے کے لئے وہاں تعمیر نو کا منصوبہ 9 ستمبر ، 2024 کو شروع ہوا ، اور 20 اکتوبر کو مکمل کر لیا گیا۔
عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کا ہمیشہ خیال رکھنا شی جن پھنگ کا انداز ہے۔ ہر جشن بہار کے موقع پر شی جن پھنگ نچلی سطح کے کارکنوں اور عوام سے ملتے ہیں ۔صوبہ لیاؤننگ کا یہ دورہ شی جن پھنگ کا رواں سال میں پہلا داخلی دورہ ہے اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد ان کی اس صوبے کا چوتھا دورہ ہے۔ جنرل سیکریٹری بننے کے بعد سے مسلسل 13 سالوں میں شی جن پھنگ نےاسپرنگ فیسٹیول کے موقع پر نچلی سطح کے کارکنوں اور عوام سے ملاقات کی ہے اور ان کی زندگی کی حالت معلوم کی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
چین کا پہلی صدی سے اسلام کے ساتھ تعلق
اسلام اور چین کا تعلق تاریخی اعتبار سے نہایت قدیم اور دلچسب ہے، جو پہلی صدی ہجری میں شروع ہوا۔ یہ تعلق نہ صرف روحانی اور مذہبی نوعیت کا ہے جس سے ثقافتی اور تجارتی تعلقات مضبوط ہوئے۔ اسلام کا ابتدائی تعارف چین سے اسلام کی پہلی صد ی میں ہوا۔ ساتویں صدی کے وسط میں جب تانگ خاندان (618-907عیسوی)برسر اقتدار تھا۔ اسلامی تاریخ کے مطابق 651عیسوی میں حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، جو نبی کریم ﷺ کے ماموں اور صحابی تھے، خلیفہ عثمان بن عفان کی جانب سے چین کے شہنشاہ گائوزونگ کے پاس ایک سفارتی وفد لے کر پہنچے۔تانگ شہنشاہ نے نہ صرف اس وفد کا پرتپاک استقبال کیا اور اسلام کے متعلق جان کر اس نے گوانگژو میں ہواشینگ مسجد کی تعمیر کا حکم دیا، جو آج بھی چین کی سب سے قدیم مسجد سمجھی جاتی ہے۔ اس مسجد کی تعمیر اسلامی اور چینی طرزِ تعمیر کا ایک شاندار امتزاج پیش کرتی ہے۔ تاریخی روایات کے مطابق616-617 عیسوی کے دوران نبی کریم ﷺ کے چند دیگر صحابہ کرام بھی چین پہنچے۔ گوانگژو میں حضرت سعد بن ابی وقاص ؓکا مزار چینی مسلمانوں کے لئے نہایت مقدس مقام ہے، جہاں ہر سال ہزاروں زائرین آتے ہیں۔ یہ مزار اسلام کے چین میں ابتدائی دنوں کی ایک روشن یادگار ہے۔اور بہ اصحاب رسول اور عرب مسلمانوں کی قبور چین میں موجودہیں۔ اسلامی ثقافت کا فروغ اور تعلقات کاچین میں سب سے زیادہ یوان خاندان (1271-1368) کے دور میں پروان چڑھا، جسے منگولوں نے قائم کیا تھا۔ اس دور میں وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ سے مسلمانوں کو چین میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا گیا۔
سید اجل شمس الدین، جو یوان خاندان کے ایک مشہور مسلمان گورنر تھے، نے مختلف علاقوں میں اسلامی اصولوں کے مطابق انتظامی اصلاحات متعارف کرائیں۔ ان کے خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد، جیسے ما ژو، اسلامی تعلیمات کو عام کرنے میں پیش پیش رہے۔ اسلامی مساجد کی تعمیر مختلف شہروں میں ہوئی۔ چین میں مساجد کی تعمیر کا آغاز تانگ اور یوان خاندان کے دور میں ہوا، اور یہ سلسلہ منگ خاندان (1368-1644) میں مزید فروغ تک پہنچا۔ چین میں آج تقریباً 35,000 مساجد موجود ہیں، جن میں مساجد کی سب سے زیادہ تعداد سنکیانگ (تقریباً 24,000مساجد)میں ہے۔دیگر مشہور مساجد میں شامل شیان کی عظیم مسجد 742عیسوی میں تانگ خاندان کے دور میں تعمیر کی گئی، یہ مسجد چین کی سب سے بڑی اور قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔بیجنگ کی نیوجیہ مسجد لیائو خاندان کے دور میں 996 عیسوی میں تعمیر کی گئی۔
چینی اسلامی طرز تعمیر، یہ مساجد اسلامی اور روایتی چینی فن تعمیر کا امتزاج ہیں، جن میں چھتوں پر چینی طرز کے جھکے ہوئے کماندار ڈیزائن اور اندرونی اسلامی خطاطی شامل ہیں۔چین کے مختلف مسلم علاقوں میں اسلامی ثقافت آج بھی موجود ہے چین میں مسلمانوں کی آبادی تقریبا ً20ملین سے زائد ہے، جو مختلف نسلی گروہوں پر مشتمل ہے، جیسے ہوئی مسلمان: جو زیادہ تر ہان چینی ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ایغور مسلمان، زیادہ تر سنکیانگ ایغور خودمختار علاقہ میں آباد ہیں۔قازق، قرغیز، ازبک، اور دیگر: یہ نسلی گروہ چین کے شمال مغربی علاقوں میں رہتے ہیں، خاص طور پر گانسو، نِنگشیا، اور یوننان میں۔مسلم اکثریتی شہر، گوانگژو، جہاں اسلام کی بنیاد رکھی گئی۔
کاشغر، جو سنکیانگ کا ایک تاریخی اسلامی مرکز ہے۔ہوتن، جسے اسلامی علم و ثقافت کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے۔ لانژو اور شیننگ: گانسو اور شنگھائی صوبوں میں واقع ہیں، جہاں بڑی تعداد میں ہوئی مسلمان آباد ہیں۔ کونمِنگ، یوننان صوبے کا مشہور اسلامی مرکز ہے۔ چینی مسلمانوں کی تاریخ علم اور ثقافت خدمات سائنس، طب، ادب، فوج، اور فن تعمیر آج بھی موجودہیں،ان کی مثالی تاریخ ہے۔ تانگ اور یوان خاندان کے دور میں مسلم اسکالرز نے نیویگیشن اور فلکیات کے میدان میں چین کو ترقی دی۔گزشتہ صدی سے اور خاص کر ماوزے تنگ کے دور میں مغرب ممالک نے چین کے خلاف بڑی پروپیگنڈہ مہم چلا کر چین کو باقی دنیا سے الگ کرنے کی کوشش کی جس سے مسلمان ملک بھی چین سے دور ہو گئے تھے۔ اس طرح چین کا اسلام دشمن تاثر ابھرا،جس سے چین کی اور مسلمانوں کی تاریخی حقیقت عام مسلمانوں کے علم سے محو ہوگئی۔
حالیہ دہائیوں میں خاص طور پر سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے مسائل نے عالمی توجہ حاصل کی ہے۔ اسلامی ورثے کے تحفظ اور مذہبی آزادی کے معاملات پر کچھ خدشات بھی موجود ہیں،لیکن اب دوبارہ چین اور مسلمانوں کے قدیم تاریخی تعلقات آگاہی ہونی شروع ہوئی ہے۔ امید ہے کہ چین اورمسلم ممالک کے قدیم تاریخی تعلقات ابھرتے ہوئے چین کے ساتھ ایک نیا باب کھولیں گے اور دنیا کی متوقع نئی چینی سپر پاورکے ساتھ تعلقات ایک نیا موڑ بن کر نئی شاندار تاریخ کا دور شروع ہوگا۔ ساتویں صدی میں شروع ہونے والا تاریخی تعلق ثقافتی تبادلوں، مذہبی ہم آہنگی کا نیا عظیم دور چین کے مسلم ممالک کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات سے جلد حقیقت بن کر ابھرے گا۔ اس سے نہ صرف اسلام کے چینی ورثے اور چینی مسلمانوں کو تحفظ ملے گابلکہ چین اور مسلمانوں کے لیے ایک بہتر دوستانہ مستقبل ثابت ہوگا جو سب کے باہمی مفاد میں ہوگا اورچین کے مسلمان مزید آزادی اور اپنے دین وثقافت، اور شناخت کے ساتھ ترقی کریں گے اور اسلامی دنیا کے لئے ایک مثبت مثال بنیں گے۔ مسلمان حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس طرف زیادہ توجہ دے کر ان تعلقات کو اپنی پالیسی کا اہم حصہ بنائیں۔