عوام کی فلاح و بہبود کا خیال رکھنا چینی صدر کا ایک نمایاں انداز ہے، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
چینی عوام کا پارٹی اور حکومت پر اطمینان فیصد سے تجاوز کر چکا ہے
بیجنگ :
چینی میڈ یا نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ
عوام کی حفاظت اور فلاح و بہبود کا ہمیشہ خیال رکھنا چینی صدر شی جن پھنگ کا ایک نمایاں انداز ہے۔جمعرات کے روز چینی میڈ یا نے بتا یا کہ ہر جشن بہار کے موقع پر شی جن پھنگ نچلی سطح کے کارکنوں اور عوام سے ملتے ہیں ۔ 2024 میں جشن بہار کی آمد سے قبل انہوں نے تھیان جن شہر کے ایک گاؤں جا کر گرین ہاؤس میں سبزیوں کی نشوونما کا معائنہ کیا۔ 2016 میں وہ شدید ہوا اور برف باری کے باوجود جیانگ شی صوبے کے ایک پہاڑی گاؤں شین شان پہنچے اور گاؤں والوں سے غربت سے چھٹکارا پانے کے حوالے سے گفتگو کی ۔اسی طرح 2013 میں صوبہ گان سو کے گاؤں یوان گو دوئی میں، انہوں نے مقامی رہائیشیوں کے لیے محفوظ پانی کی سہولت کا جائزہ لیا ۔ بظاہر عام سے لیکن محبت بھرے یہ اقدامات عوام کے لئے حکمرانی کے تصور کی عکاسی کرتے ہیں اور عوام کے لئے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی محبت اور ذمہ داری کو ظاہر کرتے ہیں۔.
عوام کے لئے حکمرانی خالی ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ ٹھوس اقدامات میں مضمر ہے۔گلی میں ٹریفک جام سے لے کر طبی علاج کے لئے ادائیگی کے عمل کو آسان بنانے تک، عمر رسیدہ افراد کی صحت مند زندگی کو یقینی بنانے سے لے کر تعلیم اور روزگار کو بہتر بنانے تک، یہ تمام افراد کی فوری تشویش کا معاملہ ہے ۔پارٹی اور حکومت پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان چھوٹے بڑے مسائل کو فوری حل کیا جائے ۔ مختلف شعبوں میں حکومت کی انتھک کوششوں نے نہ صرف لوگوں کے معیار زندگی کو نمایاں طور پر بہتر بنایا ہے بلکہ حکومت پر لوگوں کے اطمینان میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کی جانب سے کیے گئے کئی سال تک جاری ایک سروے کے مطابق چینی عوام کا پارٹی اور حکومت پر اطمینان لگاتار 10 سالوں میں 90 فیصد سے تجاوز کر چکا ہے۔ دنیا کی شہرت یافتہ مشاورتی فرم ،ایڈلمین کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق 2021 میں چینی عوام کا حکومت پر اعتماد 91 فیصد تک پہنچا جو دنیا میں پہلے نمبر پر تھا اور یہ عوام کی جانب سے حکومت کی اعلیٰ سطح کی پذیرائی کا ثبوت ہے۔ وا ضح رہے کہ چین کے صدر شی جن پھنگ نے شدید سردی میں چین کے صوبے لیاؤننگ کے شہر ہولوداؤ کی کاؤنٹی سوئی زونگ کے گاؤں گو چو جیا میں سیلاب زدہ علاقوں کے متاثرہ افراد سے ان کی خیروعافیت پوچھی اور گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد ان علاقوں میں بحالی اور تعمیر نو کے کاموں کا جائزہ لیا ۔ صدر شی نے موسم سرما کے آغاز سے پہلے نئے گھروں میں منتقل ہونے والے مقامی باشندوں کے گھر جاکر دوبارہ تعمیر شدہ گھروں کے معیار اور روزمرہ زندگی کے معمولات اور ضرورتوں کے بارے میں بھی جانا ۔
عوام کے لئے حکمرانی کے تصور کے پیچھے ہر انفرادی شخص کی زندگی کا احترام ہے. حال ہی میں امریکی انٹرنیٹ صارفین کی ایک بڑی تعداد نے چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا رخ کیا ، جس سے چین اور غیر ملکی عوام کے درمیان ثقافتی تبادلوں کی ایک نئی لہر نمودار ہوئی۔ ان میں، ہیرو ز کے بارے میں ایک بحث متاثر کن رہی. چینی انٹرنیٹ صارفین کا کہنا تھا کہ ہمارے ہیروز عام لوگوں میں سے ہوتے ہیں ۔یہ فائر فائٹرز ہو سکتے ہیں، پی ایل اے کے فوجی ہو سکتے ہیں یا پھر عام مزدور ہو سکتے ہیں جو محنت سے اپنا کام کرتے ہیں اور اپنے اپنے شعبوں میں لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ امریکی سپر ہیرو کلچر کے بالکل برعکس ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین میں عوامی رائے عامہ میں لوگوں کی مرکزیت کی جڑیں گہری ہیں،یہاں لوگوں کی ضروریات پر توجہ دی جاتی ہے اور کوششوں کو سراہا جاتا ہے.
سال 2025 کاجشن بہار اب قریب ہے ۔یہ چینیوں کے لئے سب سے اہم روایتی تہوار ہے۔ اس تہوار کے دوران لوگ گزشتہ سال میں محنت کے ثمرات اور مستقبل کے لیے توقعات کے ساتھ اپنے خاندانوں کی جانب لو ٹیں گے اور بے شمار چھوٹے چھوٹے یہ خاندان ملک کےایک بڑے خاندان میں شامل ہو کر آخر کار قومی ترقی کے لیے ایک شاندار قوت بن جائیں گے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
قوم کو مقروض کیا جا رہا ہے
جو قوم اس بات پر خوشیاں منائے کہ اس نے بھی غیر ملکی قرضہ لے لیا ہے وہ قوم، ملک اور حکومت کبھی غربت سے نہیں نکل سکتے اگر ہمارا مقصد غربت کی دلدل میں پھنس کر قرضے لینا ہی ہے تو پھر ایسے ملک کو نہیں چلایا جا سکتا ہمیں سوچنا ہوگا۔
ایک اخباری رپورٹ کے مطابق ہر پاکستانی کا قرض 2 ہندسوں کی رفتار سے بڑھ کر گزشتہ مالی سال کے اختتام تک تقریباً تین لاکھ دو ہزار روپے فی کس تک پہنچ گیا ہے اور فی کس قرضوں کے بوجھ میں 30.690 روپے یا 11.03 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری قرضے میں گزشتہ عرصے میں 15 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ قرضوں پر زیادہ سود کی ادائیگی اور شرح مبادلہ میں کمی کے اثرکی وجہ سے 62.9 کھرب روپے سے بڑھ کر 72.3 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ اس کی 2018 میں ختم ہونے والی حکومت میں آئی ایم ایف سے جان چھڑا لی گئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی جس کی شروع میں کوشش تھی کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانا پڑے مگر ملک چلانے کے لیے جب اسے قرض کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو بہت دیر ہو چکی تھی جس پر پی ٹی آئی پر شدید تنقید ہوئی اور حکومت قرض حاصل کرسکی جس سے ملکی معیشت بری طرح متاثر ہوئی اور بعد میں کورونا سے بھی معیشت کو نقصان پہنچا اور حکومت کو اپنے وزیر خزانہ اسد عمرکو ہٹا کر ان کی جگہ عبدالحفیظ سومرو اور ان کے بعد شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانا پڑا تھا۔
جن سے بھی ملک کی معیشت نہیں سنبھل سکی تھی، جس کے بعد 2022 میں جب حکومت کے خاتمے کا خوف ہوا تو وزیر اعظم پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف سے طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بجلی و گیس کے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر کے عوام کو جو ریلیف دیا، اس سے آئی ایم ایف سخت ناراض ہوا جس کی سزا پی ٹی آئی حکومت کی برطرفی کے بعد پی ڈی ایم اور پی پی کی اتحادی حکومت کو بھگتنا پڑی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مطابق حکومت کو بڑی مشکل سے آئی ایم ایف کو راضی کر کے سخت شرائط پر قرضہ لینا پڑا وہ بھی قسطوں کی شکل میں اور ہر قسط پر آئی ایم ایف مزید شرائط منواتا تب بھی امریکی سفارش پر قسط ملتی تھی اور حکومتی عہدیداروں کو آئی ایم ایف کے درکے بار بار چکر کاٹنے پڑتے۔
مفتاح اسماعیل کے بعد میاں نواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار کو وزیر خزانہ دوبارہ بنایا گیا ۔ اتحادی حکومت میں تمام اتحادی پارٹیوں نے حکومت میں اپنے لوگ شامل کرکے حکومتی اخراجات بڑھائے اور کسی پارٹی نے بھی ملک کی تباہ حال معیشت کا خیال نہیں کیا اور آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ حکومت نے اپنوں کو نوازنے، وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں پر خرچ ہوتا رہا اور عوام پر قرضوں کا بوجھ تو بڑھایا جاتا رہا، بجلی،گیس انتہائی مہنگی کر کے ریلیف کے حق داروں پر مزید ٹیکس لگائے جاتے رہے اور عوام حکومت کی مسلط کردہ آئے دن کی مہنگائی میں پستے اور اتحادی حکومت کو کوستے رہے۔
اتحادی حکومت کے بعد ان کی پسند کی نگراں حکومت نے بھی اپنے اخراجات بڑھانے پر مکمل توجہ دی اور چھ ماہ تک اس نے بھی عوام کو نہیں بخشا جس کی سزا فروری کے انتخابات میں میاں نواز شریف ان کی مسلم لیگ اور جے یو آئی نے بری طرح بھگتی مگر حیران کن طور پر پیپلز پارٹی نے سندھ اور جنوبی پنجاب و بلوچستان میں پہلے سے بھی زیادہ نشستیں حاصل کیں اور اتحادی و نگراں حکومتوں کے مظالم کی سزا عوام نے پی ٹی آئی کے حامی امیدواروں کو کامیاب کرا کردی مگر پھر (ن) لیگ کی حکومت آگئی جس میں ملکی معیشت بہتر بنوانے والوں نے وزارت خزانہ میں اپنی مرضی کے نئے چہرے کو آزمایا جن کی محنت، غیر سیاسی کردار اور مرضی کے فیصلوں کے نتیجے میں کہا جا رہا ہے کہ معیشت سنبھل رہی ہے، اسٹاک ایکس چینج نے بھی بہتری کے نئے ریکارڈ بنائے ہیں مگر عوام کو کوئی ریلیف ملا نہ مہنگائی واقعی کم ہوئی۔
2018 میں بڑی توقعات کے ساتھ پی ٹی آئی کی حکومت بنوائی گئی تھی جس کے وزیر اعظم نے ماضی کے تمام حکمرانوں کو چور، ڈاکو اور ملک لوٹنے والے قرار دے کر بیرون ملک سے اپنے تمام دوستوں اور رہنماؤں کو بڑی تعداد میں اپنی حکومت میں نوازا تھا۔
ناتجربہ کاروں کو اہم عہدے دے کر حکومتی اخراجات بڑھائے اور ملک کو مزید مقروض کرنے میں کسر نہیں چھوڑی تھی اور ماضی کی حکومتیں بھی آئی ایم ایف کے قرضوں پر چلی تھیں جس کے نتیجے میں پاکستان قرضوں میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اورحکمران اپنے دوروں میں دوست ممالک سے قرضے اور امداد حاصل کرنے میں دو سال سے دن رات مصروف ہیں۔ خوشامدوں سے ملنے والے قرضوں پر حکمران خوشیاں مناتے آ رہے ہیں اور غیر ملکی امداد قرضوں پر فخر بھی کر رہے ہیں کہ ہم نے اپنی سیاست قربان کرکے ریاست بچائی ہے مگر وہ یہ کبھی نہیں کہتے کہ جس عوام کی آنے والی نسلیں بھی ہم نے مقروض بنا دی ہیں اس عوام کو کھربوں کے قرضے لے کر کیا ملا؟
ملک کا ہر شخص خود قرض لیے بغیر تین لاکھ دو ہزار روپے کا مقروض بنا دیا گیا ہے مگر کھربوں روپے کے قرضوں کے باوجود عوام کو آئے دن مہنگائی کا سامنا ہے۔ غربت بے حد بڑھ چکی، ملک میں روزگار نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگار نوجوان اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر قانونی طور پر باہر جانا مشکل ہونے کے باوجود قرضے لے کر اپنی جائیدادیں فروخت کرکے ملک سے مایوس ہو کر اپنے مستقبل کی بہتری کی امید میں غیر قانونی طور ملک سے باہر جا رہے ہیں۔
حکومتی ریکارڈ کے مطابق گزشتہ سال تقریباً 6 لاکھ پاکستانی ملک سے باہر گئے جو غیر ملک جا کر روزگار حاصل کر سکے تو پہلے اپنا وہ قرض اتاریں گے جو ان کے گھر والوں نے انھیں باہر بھجوانے کے لیے لیا تھا اور وہ خود اور ان کے خاندان حکومت کا لیا گیا وہ قرض بھی اتاریں گے جو انھوں نے آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے نہیں لیا مگر وہ بھی سرکاری مقروض ہیں۔ عوام کو حکمرانوں نے مقروض ایسے قرضوں کا کیا ہے جو قرضے انھوں نے لیے ہی نہیں۔