Express News:
2025-04-16@15:01:56 GMT

افسردگی اور مایوسی کا نبوی علاج

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ڈپریشن، جسے افسردگی اور مایوسی بھی کہتے ہیں، آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ ہے جو ہر عمر اور طبقے کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ بیماری صرف جسمانی کم زوری یا وقتی پریشانی کا نتیجا نہیں بل کہ ایک گہری نفسیاتی کیفیت ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو پر اثر ڈالتی ہے۔

اسلام نہ صرف روحانی سکون فراہم کرتا ہے بل کہ زندگی کے ہر مسئلے کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ ڈپریشن کے مسئلے کو سمجھنے اور اس کا حل تلاش کرنے کے لیے سیرت نبوی ﷺ ایک مثالی راہ نما ہے۔

ڈپریشن کی وجوہات کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں پر غور کریں۔ مادی خواہشات، دنیاوی ناکامیاں، تعلقات میں دراڑیں اور روحانی خلا وہ بنیادی اسباب ہیں جو انسان کو افسردگی کی جانب دھکیل سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں مادیت پسندی اور خدا سے دوری انسان کو ذہنی دباؤ میں مبتلا کرنے کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ انسان دنیاوی خواہشات کی دوڑ میں خود کو الجھا لیتا ہے اور جب ان خواہشات کی تکمیل ممکن نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں زندگی کے ہر مسئلے کا حل فراہم کرتی ہے اور اس میں ڈپریشن کا مسئلہ بھی شامل ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں کئی ایسے مراحل آئے جب آپ کو شدید مشکلات اور غموں کا سامنا کرنا پڑا۔

والدین کی کم عمری میں وفات، چچا اور زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کی رحلت، مکہ مکرمہ میں دعوت کے دوران شدید مخالفت، اور طائف کا دل خراش واقعہ، یہ تمام آزمائشیں ایسی تھیں جو کسی بھی انسان کو انتہائی دباؤ اور غم میں مبتلا کر سکتی تھیں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود نبی کریم ﷺ نے صبر، استقامت اور اﷲ پر مکمل بھروسے کا مظاہرہ کیا۔

ڈپریشن کے مسئلے کا حل قرآن مجید اور نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔ سب سے پہلے اﷲ تعالیٰ پر توکل اور اس کی رضا پر قناعت انسانی ذہن کو سکون فراہم کرتی ہے۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’جان لو! اﷲ کی یاد ہی سے دل چین پاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الرعد)

اس آیت مبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ دل او ر دماغ کی بے چینی کا علاج اﷲ کے ذکر میں ہے۔ جب انسان اﷲ کا ذکر کرتا ہے تو وہ اپنے آپ کو اس ذات سے جوڑ لیتا ہے جو ہر قسم کی پریشانی، غم اور خوف سے بے نیاز ہے۔ اس قربت سے انسان کو یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مشکل میں اکیلا نہیں ہے بل کہ ایک ایسی طاقت اس کے ساتھ ہے جو ہر شے پر قادر ہے۔

ڈپریشن سے بچنے کے لیے ایک اور اہم نکتہ عبادات اور اﷲ کے قریب ہونے کا عمل ہے۔ نماز، روزہ، قرآن کی تلاوت اور دیگر عبادات دل کو سکون پہنچاتی ہیں۔

حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے منقول ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے۔‘‘ (سنن نسائی)

اسی طرح نبی اکرم ﷺ نے بھی مختلف اذکار اور دعاؤں کے ذریعے غم اور پریشانی کو دور کیا اور امت کو بھی اس کی تعلیم دی۔ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی کچھ دعائیں ایسی تھیں جنہیں آپ پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے، اُن میں یہ دعا بھی شامل تھی، مفہوم: ’’اے اﷲ! میں فکر اور پریشانی سے، عاجزی و سستی سے، کنجوسی و بزدلی سے اور لوگوں کے غالب آنے سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔‘‘ (سنن نسائی)

اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی مشکلات میں اﷲ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنا، اس کی رحمت پر بھروسا رکھنا اور ذکر و اذکار کو اپنانا دل و دماغ کو سکون اور اطمینان بخشنے کے لیے نہایت اہم ہیں۔

سیرت نبوی ﷺ سے ہمیں یہ بھی سبق ملتا ہے کہ زندگی میں مثبت رویہ اور مقصدیت انسان کو ذہنی سکون فراہم کرتی ہے۔ آپ ﷺ نے ہمیشہ اپنی امت کو تعلیم دی کہ ہر حال میں شکر گزاری اور اﷲ کی رضا پر صبر کریں۔ جب انسان اس بات کو تسلیم کر لیتا ہے کہ ہر چیز اﷲ کی رضا کے تحت ہو رہی ہے تو وہ اپنی زندگی میں مایوسی اور دباؤ سے بچ سکتا ہے۔

قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے، مفہوم: ’’اﷲ کسی جان پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔‘‘ (سورۃ البقرۃ) یعنی اﷲ تعالیٰ ہر انسان کو اتنی ہی آزمائش دیتا ہے جتنی وہ برداشت کر سکتا ہے۔ یہ یقین انسان کے دل سے مایوسی کو ختم کرتا ہے۔

ڈپریشن کے علاج کے لیے سماجی تعلقات بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ہمیشہ صحابہ کرامؓ کے ساتھ محبت اور ہم دردی کا مظاہرہ کیا اور ان کے مسائل کو سمجھا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس شخص نے کسی مومن سے دنیا کی کوئی تکلیف دور کی تو اﷲ اس سے قیامت کے دن کی کوئی تکلیف دور فرما دے گا، جس شخص نے کسی تنگ دست پر آسانی کی تو اﷲ اس پر دنیا و آخرت میں آسانی فرمائے گا، جس نے کسی مسلمان کی عیب پوشی کی تو اﷲ اس کی دنیا و آخرت میں عیب پوشی فرمائے گا، اﷲ بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)

اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی میں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا نہ صرف ان کی مدد کرنا ہے بل کہ ہمیں اﷲ کے قریب کرتا ہے اور ہمارے دلوں کو سکون اور اطمینان سے بھر دیتا ہے۔ جب ہم کسی تنگ دست پر آسانی کرتے ہیں یا کسی کی عیب پوشی کرتے ہیں تو اس عمل سے ہمارے دل کو ایک انوکھا سکون ملتا ہے کیوں کہ یہ اعمال ہماری روحانی ترقی اور دنیاوی اطمینان کا ذریعہ بنتے ہیں۔

دوسروں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی مدد کرنے سے دل پر بوجھ کم ہوتا ہے، ذہن کے منفی خیالات دور ہوتے ہیں اور ایک روحانی خوشی پیدا ہوتی ہے جو دنیا کی کسی چیز سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ حدیث مبارکہ ہمیں ایک ایسا عملی نسخہ فراہم کرتی ہے جو نہ صرف دنیا میں سکون کا ذریعہ ہے بل کہ آخرت میں بھی کام یابی کی ضمانت دیتا ہے۔

نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جسمانی صحت کا خیال رکھنا بھی ذہنی صحت کے لیے ضروری ہے۔ آپ ﷺ نے صحت مند خوراک، اعتدال پسند طرز زندگی اور جسمانی مشقت کو اہمیت دی۔ ڈپریشن کے علاج میں بھی متوازن خوراک، ورزش اور نیند کا اہم کردار ہے۔ ڈپریشن کا ایک اور سبب مادی خواہشات کی بھرمار ہے۔ آج کے دور میں لوگ دنیاوی کام یابیوں اور دولت کے پیچھے بھاگتے ہیں جو اکثر انہیں مایوسی اور دباؤ کی طرف لے جاتی ہیں۔

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’مال داری کثرتِ مال و اسباب کا نام نہیں، بل کہ حقیقی مال داری دل کی مال داری ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)

اس حدیث مبارکہ سے سبق ملتا ہے کہ اصل خوشی اندرونی سکون  اﷲ کی رضا میں ہے نہ کہ مادی چیزوں کے حصول میں۔

مختصر یہ کہ نبی اکرم ﷺ کی سیرت ہمارے لیے کامل راہ نمائی فراہم کرتی ہے جو ہمیں سکھاتی ہے کہ آزمائشوں اور غموں کا سامنا صبر و حوصلے کے ساتھ کیسے کیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہمیں سکھایا کہ اﷲ پر ایمان، صبر، شکر گزاری اور دوسروں کے ساتھ ہم دردی ہی وہ اصول ہیں جو انسان کو ذہنی دباؤ سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ڈپریشن کا علاج صرف ادویات یا مشوروں میں نہیں بل کہ اﷲ سے قربت، عبادات اور مثبت طرز زندگی میں بھی پوشیدہ ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: فراہم کرتی ہے نبی اکرم ﷺ نے نبی اکرم ﷺ کی زندگی میں اﷲ تعالی زندگی کے انسان کو کہ زندگی ہے بل کہ ملتا ہے کرتا ہے کو سکون کے ساتھ بل کہ ا کی رضا کے لیے کی مدد

پڑھیں:

معاشرتی سچائیوں کو قلم کے نشتر سے طشت از بام کرنے والے ممتاز ادیب

 جس قلم میں سچ کی سیاہی ہو اس کے لفظ ماند پڑنا تو دُور کی بات بلکہ اس کی تحریریں ہر دور میں نئے نئے معنی کے ساتھ روشنی بکھیرتی ہوئی اندھیروں میں راستوں کا پتا دیتی ہیں ۔

ادب کی دنیا کے دوستوں کے لیے آج ہم ایک ایسے استاد لکھاری کی داستان حیات لے کر آئے ہیں جن کے بھاری بھر کم جسے کو زمین کا معدہ پانی کی طرح پی گیا اور ہم دیکھتے کے دیکھتے رہ گئے جن کی کتابوں میں سانس لیتے منظر پڑھنے والوں کے اندر نئی روح پھونک دیتے ہیں ۔ معاشرے کی تلخ برائیوں کو اصلاحی قلم سے اُجاگر کرنے والے ادب کی دنیا کے لافانی لکھاری ممتاز حسین مفتی 11ستمبر 1905 کو بھارتی پنجاب کے ضلع گورداس پور کے شہر بٹالہ میں پیدا ہوئے ۔

والد کا نام محمد حسین والدہ کا نام صغرا خانم ہے ۔ ابتدائی تعلیم امرتسر سے حاصل کی، میٹرک ڈیرہ غازی خان سے، ایف اے کا امتحان امرتسر سے پاس کیا، اس کے بعد لاہور تشریف لائے، اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی، 1933میں سنٹرل کالج لاہور سے ایس اے وی کی ڈگری حاصل کی، عملی زندگی کا آغاز ملازمت سے کیا، ابتدائی زندگی یعنی قلم کی جوانی میں بمبئی فلم انڈسٹری کے ساتھ ساتھ آل انڈیا ریڈیو سے بھی منسلک رہے۔

آپ نے1932سے 1945تک شعبہ درس و تدریس سے وابستگی اختیار کرتے ہوئے سکول ٹیچر کی نوکری اپنائی، دوران سکول ملازمت ہی نئی نسل کی اصلاح میں سبق آموز کہانیاں لکھنا شروع کر دیں۔آپ کا پہلا افسانہ جھکی جھکی آنکھیں ادبی دنیا لاہور سے 1936میں شائع ہوا۔ اردو ادب میں ممتاز مفتی صاحب کی بنیادی حیثیت افسانہ نگار کی ہے مگر نامہ نگاری بھی وجہ شہرت رہی ۔

قیام پاکستان کے وقت انہوں نے مستقل طور پر پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ جوانی میں لبرل ازم اور مذہب سے بیگانہ رہے، نہایت روایتی انداز میںعورتوں کی آزادی کے حق میں تھے جو آخر تک عورتوں کے مخصوص نقطہ نظر کے حامی کے طور پر دیکھا گیا، اپنے دور کے مشہور سائیکالوجسٹ فرائڈ سے انتہائی متاثر تھے۔ بابا جی اشفاق احمد اور قدرت اللہ شہاب آپ کے قریبی دوستوں میں سے تھے ۔ اشفاق احمد صاحب کا کہنا تھا کہ ممتاز مفتی 1947سے پہلے سویڈن رائٹرکی غیر معروف کتابیںپڑھتے رہے ہیں ،آزاد خیال کے ممتاز مفتی شروع میں تقسیم ہند کے مخالف بھی رہے مگر بعد میں ان کا نظریہ نا صرف تبدیل ہوا بلکہ محب وطن پاکستانی بن کر باقی زندگی گزارنے کا فیصلہ لیا۔ 1951میں پاکستان کی انفرمیشن سروس اور ریڈیو پاکستان میں سکرپٹ رائٹر سمیت مختلف عہدوں پر فائز رہے جبکہ 1962میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے ۔

’علی پور کا ایلی‘ کے بارے میں خود ممتاز مفتی صاحب کہتے ہیں کہ یہ کوئی ناول نہیں ہے جسے زبردستی ناول کہا جاتا ہے میں اسے ناول نہیں سمجھتا، جس زمانے میں ہم نئے نئے آئے تھے 1936میں، جب ہم سمجھتے تھے کہ ہم نئے ہیں اور جو پرانے جدیدی جو خود کو سمجھتے ہیں کہ بڑی بڑی مونچھ مروڑ کر رکھی ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ پرانے لوگ آگے سے ہٹ جائیں ہم آ گئے ہیں، اب جگر تھام کے بیٹھو۔ اُس زمانے میں ،میں سمجھنے لگا کہ یہ جو پرانے لوگ ہیں انہوں نے اپنے ناولوں کہانیوں میں سچی باتیں نہیں کیں تو سچی بات کہی جائے جس میں کوئی جھوٹی بات نہ آئے تو سچی بات مجھے ایک ہی نظرآتی تھی جو میری اپنی زندگی تھی تو میں نے اپنی زندگی پر لکھ دیا جسے خود نوشت بھی کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ میں ڈرتا تھا کہ میں نے کوئی ایسے کام تو نہیں کیے تھے۔

جنہیں لوگ پڑھ کر خوش ہوتے۔ ممتاز مفتی صاحب اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجا کر کہتے ہیں کہ وہ ایک اخلاق سنوارنے کی نہیں بگاڑنے والی کتاب ہے جو میں نے لکھ دی ، ممتاز مفتی صاحب کی اس بات کے باوجود انہیں خود کو بڑا یا چھوٹا یا بے اثر دیکھانے کے انہیں پڑھنے اور سننے والوں نے ان کی قلمی کاوش کوادب میں سنگ میل کی بجائے چاندنی چوک سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا کہ اردو ادب کے افسانے کا ایک پورا دور آپ کے نام سے منسوب ہے، آپ نے بڑی دلیری اور ہمت سے اسے ایک موڑ دیا ہے۔

 واقعہ علی پور کا ایلی آپ کی آپ بیتی ہی ہے جو دنیائے ادب میں ایک کارنامہ ہے، ممتاز مفتی صاحب نے اپنے بارے میں اس رائے کو غیر موثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ ادبی لوگ ایک دوسرے ادبی بندے کی حوصلہ افزائی میں ایسی باتیں کہتے ہی رہتے ہیں مگر آپ معاشرے کے کسی عام نوجوان کو بلائیے کہ وہ میرے بارے میں کیا کہتا ہے ؟ ممتاز مفتی صاحب علی پور کا ایلی کا دوسرا حصہ لکھنے کے متعلق بتاتے تھے کہ یہ کتاب میرے نقطہ نظر سے ماننے اور نا ماننے کے ایک دور کی داستان ہے اور اگلا دور ماننے سے منسوب ہے، مصیبت یہ پڑ گئی کہ میرے جو یہاں کے دوست ہیں وہ کہتے ہیں کہ بھئی ہم تو پہچانے جائیں گئے تم اپنے متعلق سچی باتیں کر یا اپنے پوتڑے چوک میں دھو ہمارا نام نہ لینا، اس شرط کو ماننے میں میں تو مارا گیا کیونکہ جن باتوں کو وہ راز کی باتیں سمجھتے تھے میں نہیں سمجھتا تھا ۔

علی پور کا ایلی اور الکھ نگری ان کی مشہور زمانہ کتابیں ہیں جو کہ بنیادی طور پر ان کی آٹو بائیوگرافی ہیں جس سے ان کی زندگی کے دو مختلف ادوار واضح ہوتے ہیں ۔ علی پور کا ایلی ایسے نوجوان کی کہانی ہے جو سخت سماجی روایات کے خلاف آواز بلند کرتا ہے جبکہ الکھ نگری اُس نوجوان کی کہانی ہے جو صوفی ازم سے متاثر ہے ۔

علی پور کا ایلی 1961میں شائع ہونے والا وہ ناول ہے جس کا مرکزی کردار ایلی ہے جس کے گرد پورا ناول پھیلا ہوا ہے جس میں ممتاز مفتی نے اپنی زندگی کا احاطہ کیا۔ علی پور کا ایلی میں اُس عاشق کا بیان ہے جس نے اپنے زمانے کے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کیا تھا، جس کا دوسرا حصہ الکھ نگری ناول ہے جس میں ایسے عقیدت مند کا تذکرہ ہے جو تصوف و روحانیت سے بے حد متاثر ملتا ہے ، ممتاز مفتی کے قلم میں خاکہ نگاری ، منظر نگاری جزیات نگاری، سوانح نگاری، مکالمہ نگاری ،کردار نگاری اور واقعات نگاری کے پرکشش منفرد نمونے پائے جاتے ہیں ۔

 ان کی زندگی میں خوشگوار تبدیلی ان کے بہترین دوست ادیب ، لکھاری قدرت اللہ شہاب کی عادات و نظریات سے متاثر ہونے کی وجہ سے آئی جس کی وجہ وہ تین باتیں بتاتے ہیں جس میں پہلی ان کی ذہانت یہ کہ سوال کرنے والا ابھی تمہید ہی باندھ رہا ہوتا اور وہ ساری بات سمجھ جاتے اور یادداشت کے بار ے میں بتاتے ہیں کہ ان کے دفتر میں ایک ضروری کاغذ گم ہو گیا جو ابھی انہوں نے کہیں پڑھنا تھا اور وہ کہتے ہیں میں تمہیں بتاتا ہوں اور تم لکھتے جاؤ اور انہوں نے اپنے حافظے کے کمال سے لکھوانا شروع کر دیا، چند روز بعد جب پہلا کاغذ ملا جس کا موازنہ کیا گیا تو دونوں صفوںمیں فل سٹاپ تک کا فرق نہ تھا، دوسری یہ کہ وہ ایک صاحب کردار فرد ہیں تیسری یہ کہ وہ ایک گپت بزرگ ہیں جو قدرت کے کسی مشن کی تکمیل کے لیے ڈیوٹی پر لگے ہوئے ہیں ۔

1968میں ممتاز مفتی نے قدرت اللہ شہاب کے ہمراہ حج بیت اللہ کیا اس حج کا سفر نامہ انہوں نے لبیک کے نام سے اپنے حج کے سفر کی روداد کو کتابی شکل میں پیش کیا، لبیک حج کے سفر نامے پہ لکھے گے سفر کو جو مقبولیت حاصل ہوئی وہ اس موضوع کی وجہ سے کسی اور سفر نامے کو نصیب نہیں ہو سکی جبکہ ہند یاترا ناول جو 1987میں شائع ہوا وہ ان کے اُس سفر کی روداد ہے جو انہوں نے 1982میں امیر خسرو کے عرس میں شرکت کرنے کی غرض سے تحریر کیا تھا۔

ممتاز مفتی باحیثیت خاکہ نگار بھی الگ پہچان رکھتے ہیں ان کے خاکوں کے چار مجموعے شائع ہوئے جس میں انہوں نے زیادہ تر ادیبوں شاعروں مصنفوں کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے جن پر خاکے لکھے گئے وہ ادیب سے وابستگی کی بنا پر ان کے حلقہ احباب میں شمار ہوتے تھے جن میں اکثر ان کے رفیق کار ہیں جو نجی زندگی کے نشیب و فراز میں ان کے ساتھ کھڑے رہے، ممتاز مفتی نے ڈرامہ نگاری میں بھی اپنے قلمی فن کے جوہر دکھائے ، ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران کئی ناقابل فراموش ڈرامے لکھے، نامور ادیب ممتاز مفتی کی محفل میں ایک خاتون بیٹھتی تھی جو ان پر پی ایچ ڈی کرنے کی خواہشمند تھی جس پر یونیورسٹی کی اجازت میسر نہ ہوئی اور کہا گیا کہ ممتاز مفتی کی وفات کے بعد یہ اجازت مل سکتی ہے جس پر ممتاز مفتی نے مسکرا کر کہا کہ یونیورسٹی والوں کو کہہ دو کہ مفتی کو مارنے کی کوشش کر رہی ہو جو جلد ہی رخصت ہو جائے گا، وہ خاتون ڈاکٹر نجیبہ عارف تھیں جنہوں نے ممتاز مفتی پر پی ایچ ڈی کا مکالہ 2003 میں مکمل کیا جو ممتاز مفتی کے فکری ارتقا کے نام سے شائع ہوا۔

 آپ کی حیات کا آخری دور صوفی ازم تصوف روحانیت کے جہان سے آباد رہا، آپ اسلامی تعلیمات کے فروغ کی سعی کرتے رہے، سحر انگیزانداز تحریر کے ادیب ممتاز مفتی نے پندرہ سے زائد کتابیں لکھیں جن میں تلاش ، چپ، مفتیانے، غبارے، گہما گہمی، گڑیا گھر، کہی نہ جائے، نظام سقہ ، پیاز کے چھلکے، اور اوکھے اولڑے، سمے کا بندھن، اوکھے دروازے، ان کہی ، روغنی پتلے ، اسماء رائیں ، گڈی کی کہانی شامل ہیں ۔ان کی تصانیف میںفکری اعتبار سے واضح ارتقاء اور تبدیلی جھلکتی ہے، ان کے پہلے دور میں جنس اور انسانی نفسیات کا مطالعہ غالب نظر آتا ہے اور دوسرے دور میں ہندی اسلامی تہذیب ان کی توجہ کا مرکز ہے اور تیسرے دور میں ان کی زندگی کا پہلو صوفی ازم کے ساتھ نمایاں طور پر عیاں ہے، انہوںنے اپنی تحریروں میں انسانی نفسیات کے مختلف پہلووں کو جس سادگی اور بے تکلفی سے واضح کیا اس کی مثال اردو کے دوسرے نثر نگاروں کے ہاں بہت کم ملتی ہے۔

 ان کی اسی لازوال ادبی خدمات پر انہیں حکومت انڈیا کی جانب سے منشی پریم چند ایوارڑ سے بھی نوازا گیا اور پاکستان کی طرف سے ستارہ امتیاز جنرل ضیا کے ہاتھوں سے دلوایا گیا جبکہ پاکستان پوسٹ آفس نے 2013 میں ان کے نام کا ٹکٹ بھی جاری کیا، پاکستان کے شہر ملتان میں ایک سٹرک کا نام بھی ممتاز مفتی سے منسوب کیا گیا۔

 ان کے بیٹے عکسی مفتی نے والد کی وفات کے بعد ممتاز مفتی ٹرسٹ قائم کیا ۔ پاکستانی ادب کا سرمایہ 27 اکتوبر 1995کو 90 سالہ عمر گزار کر ممتاز مفتی بارگاہ خداوندی میں پیش ہو گئے۔ ممتاز مفتی صاحب کواپنا بڑا پن دنیا کو نظر آنے والے منظروں میں چھوٹے پن کے پردے میں چھپائے رکھنے کا فن آتا تھا، انہوں نے مرید کو پیر بنا کر اپنے آپ کو پوشیدہ رکھا ہوا تھا، ان کی اس عاجزی کو خدا نے آب حیات پلا کر ادب کی دنیا میں ہمیشہ کے لیے زندگی بخش دی ۔ 

متعلقہ مضامین

  • شامی ڈاکٹر وطن میں مفت علاج کرنے کے لیے جرمنی سے جانے لگے
  • میری زندگی میں 9 مئی کے مقدمات کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، شیخ رشید
  • چند اصول ارتقائے ذات کے
  • کراچی: ندی سے ڈوبنے کے دوران زندہ نکالے جانیوالا شخص دم توڑ گیا
  • اسد قیصر کی ضمانت کیخلاف دائر اپیل واپس لینے کی بنیاد پر خارج، پنجاب پولیس کو مایوسی کیوں؟
  • سانس کی تکلیف، اشرف طائی این آئی سی وی ڈی میں زیر علاج ہیں، ترجمان
  • ایران کے ساتھ بات چیت کا انعقاد مفید، پر سکون اور مثبت فضا میں ہوا. صدرٹرمپ
  • بنگلہ دیش: 31 جولائی تحریک کے متاثرین کا پاکستان میں علاج کیا جائے گا
  • معاشرتی سچائیوں کو قلم کے نشتر سے طشت از بام کرنے والے ممتاز ادیب
  • ریٹائرمنٹ کی منصوبہ بندی