معالج، ادویہ ساز اداروں اور دوا فروشوں کے لیے لمحۂ فکر
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا، مفہوم:
’’جس نے ایک مومن کے دنیوی غموں میں سے ایک غم دور کر دیا تو اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن کے غموں میں سے ایک غم دور کر دے گا۔ اور جس نے کسی تنگ حال مسلمان پر آسانی کی تو اﷲ تعالیٰ اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا۔‘‘ (مسلم شریف)
اس حدیث کا تعلق تو ہر مسلمان سے ہے چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو، لیکن موجودہ معاشرتی حالات کے پیش نظر معالج حضرات، دوائیاں بنانے والے ادارے اور پھر ان ادویہ کو فروخت کرنے والے میڈیکل اسٹور ان سب حضرات کے لیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں چند آداب اختیار کرنے بہت ضروری ہو چکے ہیں۔ ورنہ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ اسلامی اقدار تو ایک طرف اب تو انسانی قدریں بھی پامال ہوتی نظر آرہی ہیں۔
(1) اسلام نے اس بات کی تعلیم دی ہے کہ انسان کسی بھی پیشے سے تعلق رکھتا ہو اس میں خلوص ہونا ضروری ہے۔
(2) اس لیے معالج چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا حکیم، سرجن ہو یا فزیشن اس کے دل میں مریض کے لیے خیر خواہانہ جذبات ہونے چاہییں۔ دوا یا نسخہ یا مشورہ دیتے وقت کسی تساہل‘ غفلت یا جان چھڑانے والا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
(3) اپنی اجرت اور فیس وصول کرتے وقت مریض کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھا جائے، جیسا کہ آغاز میں ارشاد نبوی ﷺ ذکر کیا گیا ایسا نہ ہو کہ مریض مرض کی شدت میں ہو اور معالج کا ذہن اس بنیاد پر کام کر رہا ہو کہ اس سے کتنی دولت کما سکتا ہوں۔
(4) مریض کے مرض کی تشخیص کرنے کے بعد ایسا علاج تجویز کیا جائے جس میں بلا ضرورت تاخیر نہ ہو تاکہ محض مریض سے پیسے وصول کرنے کی خاطر علاج کو طویل کرنے کا طریقہ ختم ہو جائے۔
(5) اگر مریض کے مرض کے بارے میں یا تشخیص کے بارے میں معالج کا ذہن مطمین نہ ہو تو پھر وہ کسی اپنے سے بہتر معالج کے پاس بھیج دے۔ محض معاصرانہ چپقلش کی بناء پر مریض کی جان سے نہ کھیلے۔
(6) معالج کو چاہیے کہ اپنے شعبے کے جدید مطالعے کو تازہ رکھے۔ جدید حالات و تحقیقات اور دنیائے طب میں ہونے والے نت نئے انکشافات اور ایجادات سے باخبر رہے۔
(7) ایک مثالی مسلمان معالج وہ ہوتا ہے جو اپنے فرض سے بہ خوبی آگاہ ہو اور اس کے بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہ کرے۔
(8) سرکاری اسپتالوں کے معالجین قومی خزانوں سے تن خواہ لیتے ہیں، اسپتالوں میں مریضوں کی قطاریں معالج کے انتظار میں ہوتی ہیں اس تاخیر سے مریض کے دُکھ اور اذیّت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور معالج کے لیے رزق حلال کے حصول میں رکاوٹ بھی ہے۔
(9) بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ سرکاری معالج اسپتالوں میں مریض پر توجہ نہیں دیتے اور مختلف طریقوں سے اپنے پرائیویٹ کلینک میں آنے پر مجبور کرتے ہیں، شرعی نقطۂ نظر سے یہ ظلم ہے، اس غیر انسانی حرکت سے وہ دنیا میں عیش و عشرت کا سامان کر لیتے ہوں گے لیکن اپنی آخرت تباہ کر لیتے ہیں۔
(10) معالج کو مریض کا علاج کرتے وقت خوف خدا اور خشیت الٰہی دل میں رکھنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ کے مطابق جو انسان تقویٰ اختیار کرتا ہے، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے مشکل امور بھی آسان کر دیتے ہیں۔ لہٰذا شفاء دینے والا اﷲ اس معالج کے نسخے میں بھی شفاء عطا فرمائے گا۔
(11) مریض انتہائی دکھی انسان ہوتا ہے اور دکھی ہونے کی وجہ سے انتہائی حساس ہوتا ہے۔ مرض انسان کو چڑچڑا بنا دیتا ہے اس کا لازمی نتیجا یہ ہوتا ہے کہ معالج کو مریض کی طرف سے ناگوار رویہ کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اگر وہ اس سے جلد بازی میں اکتاہٹ کا اظہار کر دے تو وہ کام یاب معالج نہیں ہو سکتا۔ اگر مریض کے چڑچڑے پن کا جواب جھنجھلاہٹ سے دے گا تو گویا وہ معالج خود مریض ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق انسان کے بیان میں جادو کا سا اثر ہوتا ہے‘ معالج اپنی شیریں بیانی اور حسن خلق سے مریض کا آدھا مرض ٹھیک کر سکتا ہے۔
(12) سورۂ حشر میں اﷲ تعالیٰ نے ایثار کرنے والوں کا تذکرہ فرمایا کہ بہترین انسان وہ ہے جو اپنے آپ کو خسارے میں رکھ کر دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دے۔ ایک معالج کو اپنا آرام و راحت قربان کر کے دکھی انسانیت کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔ معالج کلینک یا اسپتال سے آیا ابھی آرام سے بیٹھا بھی نہ تھا کہ کسی فوری اور پیچیدہ کیس کی اطلاع آجاتی ہے یہ لمحہ معالج کے لیے انتہائی صبر آزما ہوتا ہے اور یہی ایثار کا موقع ہوتا ہے۔
(13) یہ اخلاقی تقاضے اور آداب اسلامی دوا ساز اداروں کے لیے بھی بہت اہم ہیں۔ ان اداروں کو بھی اخلاقی اقدار کا پاس کرنا چاہیے کہ وہ دوا سازی میں زیادہ منافع خوری سے اجتناب کریں اور مریض کے لیے ارشاد نبوی ﷺ کے مطابق آسانی پیدا کریں۔
(14) دور حاضر کا انتہائی سنگین مسئلہ جعلی ادویہ بنانے کا ہے جس سے مریض پیسہ خرچ کرنے کے باوجود دکھ اور تکلیف سے نجات نہیں پاتا، یہاں تک کہ یہ ادویہ مریض کی موت کا ذریعہ بن جاتی ہیں لہٰذا ایسے دوا ساز اداروں کے ساتھ معالج کو بھی رابطہ نہیں رکھنا چاہیے، نہ ان کی ادویات لکھ کر دینی چاہییں۔
اگر کوئی جعلی ادویہ بناتا ہے تو پھر بنانے والا، بیچنے والا اور وہ معالج جو نسخہ تجویز کرتا ہے سب گناہ گار ہوتے ہیں۔ ایک مسئلہ جو آج شدت اخیتار کرتا جا رہا ہے وہ ہے معالج حضرات کا دوا ساز کمپنیوں سے کمیشن لینا، یہ انتہائی سفاکی کا مظہر ہے کہ کوئی معالج اپنی آمدن میں اضافے کے لیے دوا ساز اداروں سے کمیشن لے کر ان کی ایسی ادویات تجویز کرے جو مریض کے لیے ضروری نہیں ہیں، یہ خیانت ہے اور خائن سے نہ صرف لوگ نفرت کرتے ہیں بل کہ وہ اﷲ تعالی کے عتاب کا بھی مستحق ہوجاتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کیا جانا چاہیے اور اپنی دنیا بنانے کے دھوکے میں اپنی آخرت برباد نہیں کرنا چاہیے۔
اﷲ رب العزت ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے ایسا بنا دے کہ ہم سب ایک دوسرے کی تکالیف دور کرنے میں لگ جائیں اور پھر اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن ہماری تکالیف کو بھی دور فرما دے۔ آمین
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اﷲ تعالی معالج کے معالج کو مریض کے مریض کی ہوتا ہے دوا ساز کے لیے ہے اور
پڑھیں:
اصلی دیسی انڈے کی پہچان کیا ہے؟
موسم سرما کے دوران سوشل میڈیا پر گردش کرتی ’معلوماتی ویڈیوز‘ اکثر صارفین کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ جو انڈے وہ کھا رہے ہیں کہیں وہ کسی کیمیل سے تو نہیں بنائے گئے یا پھر کہیں یہ انڈے پلاسٹک کے تو نہیں؟
کیا پلاسٹک اور کیمیکل سے انڈے بنانا ممکن ہے اور اچھے انڈے کی پہچان کیسے کی جائے؟ اس ضمن میں سیکریٹری پولٹری فارم ایسوسی ایشن پنجاب سید جاوید حسین بخاری نے وی نیوز کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر انڈوں سے متعلق گردش کرتی تمام خبروں میں کسی قسم کی صداقت نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ابلنے کے بعد انڈے کی زردی سبز کیوں ہوتی ہے؟
’کچھ عرصہ قبل کراچی میں پلاسٹک کے انڈے فروخت ہونے کی خبر سامنے آئی کہ انڈے چین سے لائے گئے تھے، تاہم اس اسکینڈل کی انکوائری پر پتا چلا کہ وہ پرانے انڈے ضرور تھے مگر نہ تو چین سے لائے گئے تھے اور نہ ہی پلاسٹک کے تھے۔‘
جاوید حسین بخاری کے مطابق ایسا ممکن ہی نہیں کہ پلاسٹک یا پھر کسی کیمیکل سے انڈے تیار کیے جائیں، پاکستان میں انڈوں کی پروڈکشن وافر مقدار میں ہو رہی ہے۔
’انڈوں کی جو پیٹی گزشتہ برس 13 ہزار روپے کی تھی، اب وہی پیٹی تقریباً ساڑھے 7 ہزار روپے میں فروخت ہو رہی ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں انڈوں کی پروڈکشن تیزی سے ہورہی ہے۔‘
مزید پڑھیں: انڈوں کو ابالنے کے بعد پانی کبھی نہ پھینکیں، وجہ حیرت انگیز؟
دیسی انڈے کے ضمن میں جاوید حسین نے بتایا کہ دیسی انڈہ نسبتاً براؤن ہوتا ہے، بعض حضرات سمجھتے ہیں کہ فارمی انڈوں پر رنگ چڑھا کر اسے دیسی روپ دیدیا جاتا ہے۔ ’ایسا بھی نہیں ہوتا کہ کلر سے فارمی انڈے کو دیسی انڈہ بنا دیا جائے۔‘
گزشتہ 7 برس سے دارالحکومت کی سب سے پرانی آبپارہ مارکیٹ میں گولڈن انڈے فروخت کرنے والے فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ لوگ گولڈن انڈے کو بھی دیسی انڈہ سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ درست نہیں۔
مزید پڑھیں: انڈے 400 روپے درجن، کیا مرغیاں سونے کے انڈے دینا شروع ہوگئیں؟
’دیسی انڈے اور گولڈن انڈے میں فرق ہوتا ہے۔ دیسی انڈہ صرف وہی ہے جو گھروں میں مرغیاں دیتی ہیں، کیونکہ ان مرغیوں کی غذا قدرتی ہوتی ہے، گولڈن انڈہ بھی لگ بھگ دیسی انڈے جیسا ہی ہوتا ہے مگر اسے دیسی نہیں کہا جاتا۔‘
فضل الرحمان کے مطابق گولڈن انڈے میں فرق یہ ہوتا ہے کہ پولٹری فارم میں ان مرغیوں کو باقاعدہ فیڈ دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ دیسی انڈے کے مقابلے میں کم غذائیت والا ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: مرغیاں اور انڈے چوری کرنے کے جرم میں سزائے موت پانے والے قیدی کی سزا 10 سال بعد معاف
’خالص دیسی انڈے کی پہچان یہ ہے کہ اس کا ذائقہ بہترین ہوتا ہے اور اس کی زردی میں ہلکی سی لالی ہوتی ہے جبکہ گولڈن مرغی کے انڈے کی زردی بالکل زرد رنگ کی ہوتی ہے۔‘
فضل الرحمان نے بتایا کہ دکاندار گولڈن مرغیوں کے انڈے دیسی انڈے کے طور پر بیچتے ہیں کیونکہ اس کی رنگت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ یہ دیسی انڈہ ہے لیکن حقیقیت یہ ہے کہ دیسی انڈہ بہت مہنگا ہے اور وہ مارکیٹ میں بہت ہی کم پایا جاتا ہے۔
مزید پڑھیں: برطانیہ میں 70 ہزار روپے میں ایک انڈا نیلام، خاص بات کیا ہے؟
’اب تو مارکیٹ میں ویکسین والے انڈے بھی دستیاب ہیں، برائلر مرغیوں کو پانی میں ویکسین ملا کر دی جاتی ہے، اس پانی کے علاوہ ان کی کوئی خاص فیڈ نہیں ہوتی، اس کا ذائقہ بہت عجیب اور اس میں بدبو بھی ہوتی ہے۔ ‘
اصلی دیسی درجن انڈوں کی قیمت تقریبا 1200 روپے تک ہے جبکہ گولڈن انڈے 600 روپے درجن تک مل جاتے ہیں۔
اپنے گھر میں مرغیاں پالنے والے اسلام آباد کے شہری مشکور علی نے بتایا کہ مارکیٹ میں دیسی انڈوں کے حوالے سے ہونیوالے فراڈ میں کوئی دو رائے نہیں، لوگ چائے کی پتی کے پانی سے فارمی انڈے پر رنگ چڑھا کر اسے دیسی انڈہ کہہ دیا جاتا ہے، جس نے گھر میں خود مرغیاں نہ پالی ہوں تو اسے پتا نہیں چلتا۔
مزید پڑھیں: ’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘، 74 سالہ پرندے کے ہاں چوزے کی آمد متوقع
’جو واقعی اصلی دیسی انڈہ ہوتا ہے اس کا رنگ کریم جیسا ہوتا ہے جبکہ مارکیٹ میں پڑے دیسی انڈے بعض اوقات تھوڑے گہرے براؤن رنگ کے ہوتے ہیں۔‘
اچھے انڈے کی پہچان کیا ہے؟
پولٹری فارم ایسوسی ایشن پنجاب کے سیکریٹری جاوید حسین بخاری کے مطابق اچھے انڈے کی پہچان یہ ہے کہ وہ وزنی ہوتا ہے کیونکہ اس میں پراپرٹیز زیادہ ہوتی ہیں۔
’کہا جاتا ہے انڈے میں سیل میمبرین (اندرونی جھلی) کا ہونا بہت ضروری ہے۔ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر انڈے میں سیل میمبرین ہو۔‘
اس بارے میں مشکورعلی نے بتایا کہ اچھا اوردیسی انڈہ صرف وہی ہے، جو گھر میں مرغی آپ کے سامنے اچھی خوراک کھاکر دیتی ہو، وہ جو انڈہ ہے وہی اصلی دیسی انڈہ ہے اورانڈے میں سیل میمبرین کا ہونا بہت زیادہ ضروری ہے۔
مزید پڑھیں: ’ایگ آن سپون‘ میکسیکو میں نیا انوکھا عالمی ریکارڈ قائم
دکاندار فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ اچھے اور دیسی انڈے کی پہچان یہ ہے کہ وہ سائز میں چھوٹا ہوتا ہے، جس کا ذائقہ بہترین اورکسی قسم کی بدبو سے مبرا ہوتا ہے، فارمی انڈوں کے بجائے اصلی دیسی انڈے کے بعد گولڈن انڈہ صحت کے لیے زیادہ بہتر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈے پلاسٹک چین دیسی فارمی انڈے کیمیکل