لاہور: انجینئرنگ یونیورسٹی 16 کروڑ کی نادہندہ نکلی، تنخواہوں سے کٹوتی کے باوجود ٹیکس نہیں دیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی نے ملازمین کی تنخواہوں سے کٹوتی کرنے کے باوجود ٹیکس ادا نہیں کیا۔
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) حکام کا کہنا ہے کہ لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ایف بی آر کی 16 کروڑ سے زائد رقم کی نادہندہ ہے۔
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ لاہور یونیورسٹی نے اسٹاف کی تنخواہوں سے کٹوتی تو کی مگر ایف بی آر کو رقم ادا نہیں کی، یو ای ٹی نے ایف بی آر کو مالی سال 2016 سے تنخواہوں سے کٹوتی ہونے والا ٹیکس ادا نہیں کیا۔
حکام کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے ذمہ 2019-20 کے 3 کروڑ 62 لاکھ واجب الادا ہیں، یو ای ٹی کے ذمہ 2022-23 کے 6 کروڑ 20 لاکھ اور 2024 کے 6 کروڑ 95 لاکھ واجب الادا ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ایف بی
پڑھیں:
مشال خان کی 8 ویں برسی: ‘یونیورسٹی میں سب کے سروں پر خون سوار تھا’
آج سے ٹھیک 8 سال پہلے آج ہی کے دن یعنی 13 اپریل 2017 کو سوا ایک بجے کے قریب مردان میں پولیس وائرلیس پر ایک ایمرجنسی کال آئی جو پولیس کے مطابق ابتدائی طور پر معمول کی بات لگ رہی تھی لیکن موقع پر پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا کہ عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علموں کے سروں پر خون سوار ہے۔
13 اپریل کو خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں عدم تشدد کے پیروکار عبد الولی خان (باچا خان) کے نام سے منسوب سرکاری تعلیمی ادارے ’عبدالولی خان یونیورسٹی‘ میں مشال خان نامی طالب علم کو تشدد کرکے بے دردری سے قتل کیا گیا تھا اور مشتعل افراد لاش کو بھی بخشنے کو تیار نہیں تھے۔
مشال خان پر بے بنیاد توہین مذہب کے الزاماتمشال خان عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے باہنر طالب علم تھے اور غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ان کے ساتھیوں کے مطابق مشال خان قابل طالب علم تھے اور یونیورسٹی انتظامیہ کے خلاف مسائل پر میڈیا پر کھل کر بات کرتے تھے اور اس وقت سوشل میڈیا پر بھی سرگرم تھے۔
2017 میں مردان میں تعینات ایک پولیس افسر نے بتایا کہ پولیس تحقیقات کے مطابق مشال خان سے کچھ اساتذہ اور طلبہ خوش نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ مشال خان کے خلاف کچھ عرصے سے یونیورسٹی میں باتیں شروع ہوئی تھیں اور معاملات تب خراب ہوئے جب ایک دن آپس میں بحث ہوئی۔ وہ بتاتے ہیں اس کے بعد مشال خان پر فیس بک پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے کے الزمات لگے۔
جہاد اور اللہ اکبر کے نعرےحسن فرحان طارق اس وقت پشاور میں ایک نیوز چینل میں کرائم رپورٹر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے تھے اور واقعے کی اطلاع ملتے ہی مردان کوریج کے لیے پہنچے تھے۔ حسن فرحان بتاتے ہیں کہ وہ وہاں پہنچے تو حالات انتہائی کشیدہ تھے۔ ہر جگہ طالب علم ٹولیوں کی شکل میں جلوس نکل رہے تھے۔ حسن نے بتایا کہ واقعے کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی اور بڑی تعداد میں لوگ مختلف علاقوں سے جہاد کا نعرہ لگا کر یونیورسٹی پہنچ رہے تھے۔ ‘اسٹوڈنس بھی تھے اور باہر سے لوگ بھی آرہے تھے اور کچھ لوگ مشتعل افراد کے سامنے مشال خان کے خلاف تقریریں کر رہے تھے۔ پولیس اہلکار تماشائی بن کر دیکھ رہے تھے۔’
واقعہ شروع کیسے ہوا؟مردان کے یونیورسٹی میں مشال خان کے خلاف سازش میں کچھ طالب علم اور اسٹاف بھی شامل تھے نکلے اور ان پر توہین مذہب کے الزامات لگا کر ان کی تلاش شروع کر دی۔ یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم اور آئینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اچانک موبائل پر ان کے خلاف میسجز شروع ہوئے اور کچھ لوگ ٹولی کی شکل میں ان کے پیچھے نکل آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک ہجوم جمع ہو گیا۔
وہ بتاتے ہیں مشال کو معلوم ہوتے ہی چھپ گئے تھے تاہم ان کے ایک لیکچرار کے ساتھ رابطہ تھا جس کے ذریعے مشتعل ہجوم کو پتہ چلا کہ وہ ہاسٹل کے ایک روم میں چھپے ہوئے ہیں۔ ‘پھر کیا، جوں ہی پتہ چلا مشتعل افراد ہاسٹل پہنچ گئے دروازہ توڑ دیا اور انھیں صفائی کا موقع بھی نہیں دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ہجوم نے مشعال پر تشدد شروع کیا اور جس کے ہاتھ جو چیز آئی اس سے مشعال کو مارتا رہا۔ ‘لوگوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی تھی جبکہ بچانے والے ایک دو ہی تھے جو کچھ نہ کر سکے۔‘
سابق طالب علم نے بتایا کہ پولیس اور یونیورسٹی سکیورٹی اہلکار بھی خاموش رہے اور مشتعل افراد نے تشدد کیا اور مشال کو قتل کر دیا۔
صحافی حسن فرحان بتاتے ہیں جب وہ پہچنے اس وقت پولیس کی بھاری نفری تعنیات تھی لیکن اس وقت بھی لوگ جلسے جلوس نکل کر مشال خان کے خلاف تقرریں کر رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ مشعل افراد قتل کے بعد بھی روکنے والے نہیں تھے اور لاش کی بے حرمتی کرنا چاہتے تھے۔ ’اتنا تشدد ہوا تھا کہ انگلی کی ہڈی تک ٹوٹی ہوئی تھی۔‘
حسن نے یاد کرکے بتایا کہ صرف مردان میں ہی حالات خراب نہیں تھے بلکہ مشال خان کے آبائی ضلع صوابی میں بھی لوگ مشتعل ہو گئے تھے اور مسجد میں ان کی نماز جنازہ نہ پڑھوانے کے لیے تقریریں شروع ہوئی تھیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بالآخر ایک مقامی بااثر شخص سامنے آئے اور اسلحہ کے زور پر تدفین کے عمل کو انجام تک پہنچایا۔
گرفتاریاں اور کارروائیواقعے کے بعد اس خبر کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اہمیت حاصل ہوئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے واقعے کا نوٹس لیا۔ پشاور کے صحافی عدنان طارق کا خیال ہے کہ انتہائی افسوس ناک واقعہ تھا اور پولیس کی موجودگی میں سب کچھ ہوا۔ انھوں نے کہا کہ واقعے کے بعد شام کو عمران خان نے ایک پریس کانفرنس میں واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ ملوث افراد کے خلاف سخت کاروائی ہوگی، یہاں کوئی جنگل کا قانون نہیں۔
عدنان بتاتے ہیں واقعے کے بعد سول سوسائٹی نے اہم کردار ادا کیا اور واقعے کے خلاف آواز اٹھائی، مشال خان کے اہل خانہ کے ساتھ کھڑے رہے جس کے بعد پولیس نے بھی گرفتاریاں شروع کر دیں۔
مشال خان قتل کا ایف آئی آر پولیس نے درج کرکے 60 سے زائد افراد کو نامزد کیا اور ویڈیوز کی مدد سے شناخت کرکے گرفتاریاں شروع کردیں جبکہ صوبائی حکومت نے واقعے کی شفاف تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بھی تشکیل دی۔ جے آئی ٹی کی جانب سے بعد میں صوبائی حکومت کو جمع رپورٹ میں مشال خان کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کو بے بنیاد قراد دیا گیا اور انہیں بےقصور قرار دیا گیا۔
عدالتی کارروائیپولیس نے مشال کیس میں مرکزی ملزم سمیت 57 ملزمان کو گرفتار کیا تھا اور کیس کو انسداد دہشتگردی کی عدالت ایبٹ آباد کے حوالے کیا گیا جس نے سیکیورٹی خدشات کے باعث ہری پور جیل میں کیس کی سماعت کی۔
صوبائی حکومت نے کیس کی پیروی کے لیے وکیل لیا اور اہل خانہ کو ہر ممکن انصاف دینے کی کوشش کی۔ عدالت نے سماعت مکمل کرنے کے بعد مرکزی ملزم عمران کو سزائے موت، 5 ملزمان کو 25، 25 سال قید جبکہ 25 ملزمان کو 4، 4 سال قید کی سزا سنائی جبکہ باقی 26 ملزمان کو بری کر دیا۔
بعدازاں، انسداد دہشتگردی کے فیصلے کو پشاور ہائیکورٹ میں چیلنچ کیا گیا اور ایبٹ آباد بینج نے 25 ملزمان کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ پشاور ہائیکورٹ نے مرکزی ملزم عمران کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی۔
حالات نہیں بدلےمشال واقعے کے بعد دن گزرنے لگے اور 8 سال ہوگئے لیکن مشال خان کے اہل خانہ کی زندگی وہیں پر رکی ہوئی ہے۔ مشال خان کے والد اقبال خان اب بھی انصاف کے لیے لڑ رہے ہیں۔ حسن فرحان کے مطابق وقت گزر کیا لیکن حالات نہیں بدلے۔ ‘عدالت سے مشال بے قصور ثابت ہو گیا۔ لیکن لوگ اب بھی نہیں مانتے۔ ان کے گھر والے اب بھی ڈر کی وجہ سے کھل کر کہیں نہیں جا نہیں سکتے کہ کہیں ان کے ساتھ بھی مشال جیسا واقعہ نہ ہو جائے۔’
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
توہین مذہب عبدالولی خان یونیورسٹی قتل مردان مشال خان