سیف علی خان نے اسپتال پہنچانے والے آٹو رکشہ ڈرائیور کو کیا گفٹ دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
آٹو رکشہ ڈرائیور رانا، جنہوں نے سیف علی خان کو حملے کے دن لیلاوتی اسپتال پہنچایا تھا، انہوں نے بتایا کہ وہ کبھی کچھ نہیں مانگیں گے، لیکن اگر سیف علی خان ان کو آٹو رکشہ تحفے میں دینا چاہیں تو وہ خوشی سے قبول کریں گے۔
رانا سے جب ملاقات میں سیف علی خان کی طرف سے دی گئی رقم کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اسے ذاتی معاملہ قرار دیتے ہوئے انکار کر دیا۔
ان کا کہنا تھا، "میں نے سیف صاحب سے وعدہ کیا ہے اور میں اسے نبھاؤں گا۔ لوگ اندازے لگائیں، چاہے وہ 50,000 روپے کہیں یا 1,00,000 روپے، لیکن میں اس رقم کا ذکر نہیں کروں گا۔ یہ صرف میرے اور سیف علی خان کے درمیان ہے۔"
رپورٹس کے مطابق، سیف علی خان نے 21 جنوری کو اسپتال سے ڈسچارج ہونے سے پہلے رانا سے ملاقات کی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ ملاقات کے دوران سیف نے رانا کو گلے لگایا اور اپنی والدہ، معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور سے ان کا تعارف کروایا۔ رانا نے شرمیلا ٹیگور کے پاؤں چھوئے، اور انہوں نے ان کو دعائیں دیں۔
یاد رہے کہ 16 جنوری کو سیف علی خان اپنے باندرہ والے گھر میں ایک چوری کی کوشش کے دوران حملے میں زخمی ہوئے تھے۔ انہیں چاقو کے چھ وار لگے اور فوری طور پر لیلاوتی اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کی دو سرجریاں ہوئیں۔
ممبئی پولیس نے 30 سالہ بنگلہ دیشی شہری، محمد شرف الاسلام شہزاد، کو تھانے سے گرفتار کیا ہے، جو اس حملے میں ملوث تھا۔ عدالت نے ملزم کو پانچ روزہ پولیس حراست میں بھیج دیا ہے۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سیف علی خان
پڑھیں:
تہور رانا کی بھارت حوالگی روکنے کی خط وکتابت سامنے آگئی
٭ تہور رانا کو پاکستانی نژاد مسلمان ہونے کی وجہ سے بھارت کی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ٭بھارت حوالگی امریکا میں اب تک کی مکمل اور منصفانہ پیش رفت پر سوالیہ نشان ہو گی، وکیل کا خط
پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور حسین رانا نے بھارت حوالگی سے قبل امریکی محکمۂ خارجہ کو ایک خط لکھا تھا۔
تہور رانا کے وکیل جان ڈی کلائن نے21 جنوری 2025ء کو امریکی محکمۂ خارجہ کو خط لکھ کر اپنے مؤکل کی بھارت حوالگی روکنے کی ایک آخری کوشش کی تھی۔
وکیل نے خط میں لکھا کہ تہور رانا کی بھارت حوالگی اس کیس میں امریکا میں ہونے والی اب تک کی مکمل اور منصفانہ پیش رفت پر سوالیہ نشان ہو گی۔
وکیل نے امریکی محکمۂ خارجہ کو تہور رانا کی صحت کے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے خبردار بھی کیا کہ ان کے مؤکل کو پاکستانی نژاد مسلمان ہونے کی وجہ سے بھارت کی جیلوں میں تشدد کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے اور ایسے میں خرابیٔ صحت کی وجہ سے ان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
وکیل نے خط میں لکھا کہ تہور رانا کی صحت لاس اینجلس کے میٹرو پولیٹن ڈیٹینشن سینٹر میں تقریباً 5 سال قید رہنے کے بعد اب مسلسل بگڑتی جا رہی ہے، ان میں 2024ء میں پارکنسنز کی بیماری کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد سے ان کی حالت مزید خراب ہوتی جا رہی ہے۔
وکیل نے خط میں لکھا ہے کہ بیماری کی وجہ سے تہور رانا زیادہ سردی برداشت نہیں کر سکتے، انہیں سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے، سماعت اور ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہے، مثانے میں بھی تکلیف ہے، دل اور گردے بھی صحیح سے کام نہیں کر رہے، یہاں تک کہ گردے کی پیوند کاری کی ضرورت پڑے گی۔
وکیل نے خط میں یہ بھی لکھا کہ تہور رانا کی حالت اس قدر خراب ہے کہ انہیں دل کا دورہ پڑنے، فالج، ذیا بیطس، ٹی بی اور پروسٹیٹ کینسر ہونے کا خدشہ ہے۔
تہور رانا کے وکیل کے اس خط کے جواب میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کے دفتر نے تہور رانا کے وکیل کے خط کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ تہور رانا کو بھارت بھیجنے کا فیصلہ تمام بین الاقوامی قوانین بالخصوص تشدد کے خلاف اقوامِ متحدہ کے کنونشن کی پیروی کرتے ہوئے کیا گیا ہے۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے تہور رانا کا علاج جاری رکھنے میں مدد کے لیے بھارتی حکام کو ان کے میڈیکل ریکارڈز فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔
واضح رہے کہ بھارت نے شکاگو میں مقیم 64 سالہ تاجر تہور حسین رانا پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے 2008ء کے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی میں مدد کی تھی۔
بھارتی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق تہور حسین رانا کو 18 دنوں کے لیے انسدادِ دہشت گردی ایجنسی (این آئی اے) کی تحویل میں جمعرات کی شام بھارتی دارالحکومت نئی دہلی پہنچایا گیا ہے۔