ٹرمپ حکم نامہ، امریکا جانے کے منتظر ہزاروں افغانوں کا مستقبل خطرے میں پڑگیا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نئی امیگریشن پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی پاکستان میں عارضی طور پر مقیم ہزاروں افغان شہریوں کا مستقبل خطرے میں پڑھ گیا ہے، 2021 میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد امریکا میں پناہ کی درخواست دینے والے ہزاروں افغانوں نے ٹرمپ انتظامیہ سے پالیسی پر نظر ثانی کی اپیل کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں نئی طالبان انتظامیہ کے آنے کے بعد ایک اندازے کے مطابق افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والے تقریباً 26 ہزار سے زیادہ افغانوں نے امریکا میں پناہ کے لیے درخواستیں دے رکھی تھیں جو کہ جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے منظور بھی کر لی گئیں تھیں تاہم نئے امریکی صدر کی جانب سے پناہ گزین پالیسی کو منسوخ کیے جانے کے بعد ان افغانوں کی امیگریشن منسوخ ہو گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزین پالیسی کی منسوخی کے بعد امریکا کے لیے ان 1660 افغان مہاجرین کی پروازیں بھی منسوخ ہوگئی ہیں جن کے پاکستان سے امریکا پرواز کے لیے ٹکٹ بھی کنفرم ہو گئے تھے۔
رپورٹ کے مطابق امریکی صدر کی اس نئی پالیسی سے اب ان تمام افغان شہریوں کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے، جنہیں افغان جنگ اور بعد ازاں واشنگٹن کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے دوران امریکا کے حامیوں کے طور پر سمجھا جاتا رہا ہے، ان تمام افغانوں کو واشنگٹن کی جانب سے ایک خصوصی پروگرام کے تحت امریکا میں پناہ لینے کی اجازت دی گئی تھی۔
’یونائیٹڈ اسٹیٹس ریفیوجی ایڈمیشن پروگرامز کی تشکیل نو‘ کے عنوان سے جاری کیے گئے ڈونلڈ ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ایسے پروگرامز کے تحت پناہ گزینوں کا داخلہ امریکا کے مفادات کے لیے شدید نقصان دہ ہوگا۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق 27 جنوری سے شروع ہونے والے اس پروگرام کو کم از کم 90 دن کے لیے معطل کیا گیا ہے۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ 90 دن کے بعد ہوم لینڈ سیکیورٹی اینڈ اسٹیٹ کے وزیر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک رپورٹ پیش کریں گے کہ آیا پناہ گزینوں کی آباد کاری کا یہ پروگرام ’امریکا کے مفاد میں ہوگا یا نہیں‘۔
ادھرافغان ایویک اتحاد کے سربراہ شان وان ڈیور نے افغان پناہ گزینوں کی پاکستان سے امریکا کے لیے روانہ ہونے والی پروازوں کی منسوخی کی بھی تصدیق کی ہے۔
امریکی انتظامیہ کے اس اقدام سے انسانی حقوق کے گروپوں اور پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں میں تشویش پیدا ہوگئی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس نئی پالیسی کے باعث امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے اپنی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے والوں کی مدد کرنے کے امریکی عزم کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
پناہ گزینوں کے حامی امریکی انتظامیہ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اورافغانستان میں امریکا کے لیے سنگین حالات کا سامنا کرنے والے افغان پناہ گزینوں کی آبادکاری اورمدد کے لیے فوری انتظامات کرے۔
افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی پناہ گزین پالیسی کے تحت تقریباً 2 لاکھ افغان باشندوں کو امریکا میں آباد کیا جا چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق جو افغان مہاجرین ٹرمپ انتظامیہ کی نئی پالیسی جاری ہونے کے بعد امریکا کے لیے پرواز نہیں کرسکے ان میں سابق امریکی حمایت یافتہ کابل حکومت میں خدمات انجام دینے والے ہزاروں کی تعداد میں افغان باشندوں میں تقریباً 200 بچے بھی شامل ہیں۔
وین ڈائو اور ایک امریکی عہدیدار کے مطابق ان بچوں میں وہ بچے بھی شامل ہیں جن کے افغان والدین نے انہیں امریکی انخلا کے دوران اکیلے امریکا بھیج دیا ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو ڈونلڈ ٹرمپ صدارتی عہدہ سنبھالنے کے پہلے روز نئی امیگریشن پالیسی سے متعلق حکم نامے پر دستخط کر دیے تھے، جس کے تحت 27 جنوری سے ملک میں پناہ گزینوں کی آبادکاری کے لیے امریکی پناہ گزین داخلہ پروگرام (یو ایس آر اے پی) کو معطل کر دیا کیا گیا ہے۔
دستخط ہوتے ہی امریکا میں غیر ملکی تارکین وطن کو پناہ دینے کے پروگرام کے تحت جمع شدہ تمام درخواستیں اور پناہ گزینوں کی متوقع آمد کا سلسلہ بھی معطل ہو کر رہ گیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے نئی پالیسی کے نفاذ کے ساتھ ہی افغانوں سمیت ان ہزاروں کی تعداد میں غیر ملکی تارکین وطن کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے جن کی پہلے ہی امریکا میں پناہ کی درخواستیں منظور ہو چکی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان میں میڈیکل کی سابق طالبہ اور ایک لینگویج سینٹر کی ٹیچر مہوش منیر طالبان کی جانب سے اسکول بند کرنے کے بعد فرار ہو کر پاکستان چلی آئی تھیں۔
مہوش منیر نے امریکی پریس میں اپنے ایک مضمون اور غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے ساتھ اپنی گفتگو میں ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ مجھے توقع نہیں تھی کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس طرح کی معطلی کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ طویل انتظار کے باوجود ہمیں افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا یا پھر پاکستان میں ایک طویل عرصے تک پناہ گزین کی حیثیت سے مزید انتظار کرنا پڑے گا، جو کہ سب کے لیے ایک ڈراؤنے خواب کی طرح ہے۔
امریکا افغانوں کا مقروضعرب ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق افغان پناہ گزینوں کا الزام ہے کہ امریکا ان افغانوں کے بارے میں اپنی ذمہ داری سے دستبردار ہو رہا ہے جنہوں نے 2 دہائیوں تک ملک میں اس کی فوجی موجودگی کی حمایت کی تھی۔
رپورٹ کے مطابق ملک میں 2 دہائیوں سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں افغانوں نے امریکی مسلح افواج اور امریکی حمایت یافتہ حکومت کے ساتھ کام کیا۔ اگست 2021 میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد بہت سے افغانوں کو طالبان کی نئی انتظامیہ کی جانب سے سخت جوابی کارروائی کا خوف تھا اور وہ امریکا میں محفوظ پناہ گاہ کی امید کر رہے تھے۔
امریکا میں قائم تنظیم ’افغانز فار اے بیٹر ٹومورو‘ کے شریک بانی آرش عزیززادہ نے عرب ٹیلی ویژن کو تحریری طور پر بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ان افغانوں اور دیگر پناہ گزینوں کی پروازیں منسوخ کرنے کا فیصلہ ظالمانہ، بدصورت اور نسل پرستانہ ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ افغان مہاجرین اب کہاں جائیں گے نہ واپس وطن جا سکتے ہیں اور نہ ہی پاکستان میں قیام کر سکیں گے، ٹرمپ انتظامیہ کا یہ فیصلہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ پناہ اور تحفظ کے متلاشی افغانوں کو بقول ان کے طالبان کی ظالمانہ حکمرانی کے تحت ہدف بنانے، قید کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے یا اس سے بھی بدتر صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا افغانوں کا بہت بڑا مقروض ہے اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس انتظامیہ کے ختم ہونے کے بعد بھی امریکا افغانوں کے اس قرض کی ادائیگی کرے۔
افغان یو ایس آر اے پی کا ٹرمپ انتظامیہ کو خطایک اور ایڈوکیسی گروپ ’افغان یو ایس آر اے پی‘ پناہ گزینوں نے ٹرمپ اور امریکی کانگریس کے ارکان کے نام ایک کھلا خط جاری کیا ہے جس میں اس فیصلے پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
خط میں لکھا گیا ہے کہ ’ہم میں سے بہت سے لوگوں نے مترجم، ٹھیکیداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور امریکا کے اتحادی کی حیثیت سے امریکی مشن کی حمایت کے لیے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال دی تھیں‘۔
تنظیم نے لکھا کہ ’ ان کے لیے پاکستان میں صورتحال تیزی سے غیر مستحکم ہوتی جا رہی ہے۔ افغانوں کی گرفتاریاں، ملک بدری اور عدم تحفظ نے افغانوں کی پریشانیوں میں اضافہ کر دیا ہے۔
ایک بڑا مطالبہرپورٹ کے مطابق ایک اندازے کے مطابق اس وقت 15 ہزار افغان باشندے پاکستان میں آباد کاری کی منظوری کے منتظر ہیں۔ کچھ لوگوں نے برسوں تک انتظار کیا ہے اور امریکی امیگریشن سسٹم کی پیچیدگیوں کو حل کرنے میں کئی عرصہ گزار دیا ہے۔
بہت سے افغان مہاجرین جنوبی امریکا پہنچ چکے ہیں تاکہ وہ شمال میں امریکا اور میکسیکو کی سرحد میں پناہ حاصل کر سکیں۔
ادھر اقوام متحدہ نے افغان پناہ گزینوں کی صورت حال کو ‘دنیا کے سب سے بڑے اور فوری حل طلب بحرانوں میں سے ایک قرار دیا ہے۔ اس کا اندازہ ہے کہ 2025 میں 5 لاکھ سے زیادہ افغانوں کی آباد کاری کی ضرورت ہوگی۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگست 2021 سے اب تک ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ افغان مہاجرین امریکا پہنچ چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اقوام متحدہ امریکا امریکی صدر امیگریشن امیگریشن سسٹم انتظامیہ ایگزیکٹو آرڈر باشندے پاکستان پالیسی پناہ پناہ گزین پیچیدگیاں ٹرمپ جلا وطنی جنوبی امریکا صدارتی حکم نامہ طالبان طالبان حامی مہاجرین میکسیکو وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اقوام متحدہ امریکا امریکی صدر امیگریشن امیگریشن سسٹم انتظامیہ ایگزیکٹو ا رڈر پاکستان پالیسی پناہ پناہ گزین جلا وطنی جنوبی امریکا صدارتی حکم نامہ طالبان طالبان حامی مہاجرین میکسیکو وی نیوز
پڑھیں:
افغان طالبان اور امریکا میں قیدیوں کا تبادلہ، 2 امریکیوں کے بدلے ایک جنگجو رہا
کابل: افغان حکومت نے امریکا کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا اعلان کردیا۔
افغان وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکا میں قید افغان جنگجو خان محمد امریکی شہریوں کے بدلے رہائی پانے کے بعد وطن واپس پہنچ گیا ہے۔
خان محمد تقریباً دو دہائیاں قبل امریکا میں گرفتار ہونے کے بعد عمر قید کی سزا کاٹ رہا تھا، اس پر دہشت گردی اور منشیات کی فروخت کا الزام تھا۔
افغان وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ افغان قیدی کی رہائی کی ڈیل قطرکی ثالثی میں ہوئی۔
وزارت خارجہ نے افغان قیدی کی رہائی کے بدلے رہا کیے جانے والے امریکی شہریوں کی تعداد واضح نہیں کی تاہم امریکی میڈیا کے مطابق افغان قیدی کی رہائی کے بدلے 2 امریکی شہریوں رائن کوربیٹ اورولیم میک کینٹی کو رہا کیا گیا ہے۔