مذاکرات ختم کرنے کااعلان افسوسناک،ہمارا جواب تو سُن لیتے ،عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد : پی ٹی آئی سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہےکہ مذاکرات ختم کرنے کااعلان افسوسناک ہے ، مذاکرات کا یہ عمل پی ٹی آئی کی پیشرفت پر ہوا تھا۔
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ یہ ہمارا جواب تو سُن لیتے پھر انکار کرتے، ہمارے خیال میں 7 ورکنگ دن 28 جنوری کو مکمل ہو رہے تھے اور وہ اسپیکر کو 28 جنوری کی تاریخ دے چکے تھے، وہ کیوں 5 دن انتظار نہیں کرسکتے۔
عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پہلی میٹنگ میں طے پایا کہ مطالبات تحریری شکل میں لائیں گے، انہیں 42 دن مطالبات لانے میں لگے اور ہم سے چاہتے ہیں کہ 7 دن میں کمیشن بن جائے، ان کو آنے کی بھی بے تابی تھی اور ان کو جانے کی بھی جلدی ہے بہت،7 دن میں ایسا کیا ہوگیا جو انہوں نے مذاکرات ختم کرنےکا اعلان کیا؟
حکومتی کمیٹی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم 28 جنوری کی تاریخ اسپیکر کو دے چکے ہیں، ہم نے مطالبات کو سنجیدگی سے لیا اور 7 جماعتوں کی کمیٹی بیٹھی،ہم 28 کی ڈیڈ لائن کے لیے تیار تھےکہ کچھ چیزیں ہو جاتیں، ہم چاہتے تھے کہ معاملات بہتر ہو جائیں یہ چیزیں آگے بڑھ جاتیں، یہ 5 دن مزید انتظار نہ کر سکے اور انہیں اب بھی دوبارہ سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کی سول نافرمانی کی کال چل رہی ہے، ہمارے وزیراعظم کو منہ بھر کے گالی دیتے ہیں ہم نے اس پر بھی کچھ نہ کہا، ہم سلجھے ہوئے طریقے سے اپنی راہ پر چلتے رہے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: عرفان صدیقی
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے. عرفان صدیقی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے عرفان صدیقی نے ”ایکس “پر اپنے ایک بیان میں میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی خبر کی تردید کی ہے.(جاری ہے)
پاکستان تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے میڈیا پر ایک خبر سامنے آئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے جواب میں اپنا موقف تیار کر لیا ہے تاہم عرفان صدیقی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیا ر کر لیا ہے. انہوں نے کہا کہ یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے راہنمائی حاصل کرنے کے عمل میں ہیں حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حتمی جواب تیار کرنے میں ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے. دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ عرفان صدیقی حکومتی کمیٹی کے ترجمان ہیں اور ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذاکرات کو تعطل کا شکار بنائیں بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات پر قائم ہے اور مذاکرات کرنا چاہتی ہے. چیئرمین پی ٹی آئی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے سات دن میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا عندیہ نہ دیا تو مذاکرات کی چوتھی نشست نہیں ہو سکتی انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ آرمی چیف سے ملاقات لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر تھی اور اس ملاقات پر ایشو کھڑا نہیں کرنا چاہیے . قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی نے عندیہ دیا تھاکہ بات چیت میں ضرورت پڑنے پر اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے مدد لی جا سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ معاملہ ہے جہاں پر اسٹیبلشمٹ، عدلیہ یا کسی اور ادارے کی مدد لینا پڑی کہ یہ کیسے کام ہو سکتا ہے تو ہم ضرور لیں گے. کچھ روز قبل سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے نجی ٹیلی وژن چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اصل فیصلہ سازوں کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا عرفان صدیقی نے اسد قیصر کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ پیش نہیں کیا انہوں نے شو میں یہ مطالبہ ضرور رکھا ہے لیکن جس مقتدرہ کی وہ بات کرتے ہیں اس کے دروازے پر بار بار وہ دستک دیتے رہے ہیں، آوازیں دیتے رہے ہیں وہ دروازہ نہیں کھلا. عرفان صدیقی کا کہنا تھاکہ انہوں نے کہہ دیا کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور یہ ہمارے پاس آ گئے جس فریق سے وہ بات کرنا چاہ رہے تھے اس فریق نے انکار کر دیا تو ہم انہیں پکڑ کر ان کے سامنے بٹھا دیں کہ ان سے بات کریں یہ ہمارا کام نہیں مذاکراتی کمیٹی اپنا اختیار رکھتی ہے جب پی ٹی آئی ہمارے پاس آئی تو ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جن کے پاس ہم جا رہے ہیں ان کے پاس اختیار ہے یا نہیں اگر ان کی نظر میں ہم بے اختیار ہیں تو انہوں نے کمیٹی کیوں بنائی؟ سپیکر یا ہمارے پاس کیوں آئے؟ وزیر اعظم سے کمیٹی کی تشکیل پر کیوں بات کی؟ بااختیار ہی سمجھیں جب تک ان پر ہماری بے اختیاری واضح نہیں ہو جاتی. ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کی مرضی کا جج اور فوجی بھی شامل کر دیں اس وقت تو وہ حکومت سے اور حکومت ان سے بات کر رہی ہے عرفان صدیقی نے خواجہ آصف کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہاتھا کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے، ان کے علاوہ ہمارے جماعت میں اور بھی لوگ ہیں جو ان مذاکرات کو بے ثمر سمجھتے ہیں عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی عدالتی کمیشن بنانے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے متعلق گفتگو میں کہاتھا اگر 31 جنوری تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بھی مذاکرات کے لیے ہمیں آگے جانا چاہیے.