پی ٹی آئی کا مذاکرات ختم کرنے کا اعلان افسوسناک، حکومت اب بھی سنجیدہ ہے، عرفان صدیقی
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کا مذاکرات ترک کرنے کا اعلان افسوسناک ہے، حکومت ابھی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہے۔
پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ اگر 9 مئی اور 26نومبر کے واقعات کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جاتا تو وہ مذاکرات ختم کردے گی، پی ٹی آئی رہنماؤں نے کہا کہ وہ یہ بات عمران خان کی ایما پر کررہے ہیں، مذاکرات کا عمل پی ٹی آئی کی درخواست پر ہی شروع ہوا تھا۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے مذاکرات کے لیے گزشتہ سال 5 دسمبر کو کمیٹی بنائی تھی اور خود خواہش کی تھی کہ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں، اس سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے بہت سے محرکہ آرائیاں ہوچکی تھیں، فتوحات کی بڑی کوششیں ہوچکی تھیں، 9 مئی ہوچکا تھا، فائنل کال بھی ہوچکی تھی اور 26 نومبر بھی ہوچکا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے محسوس کیا کہ اب ان کے پاس صرف مذاکرات کا راستہ باقی رہ گیا ہے تو انہوں نے مذاکراتی کمیٹی بنادی، وہ کمیٹی اسپیکر قومی اسمبلی سے ملی اور خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
’اسپیکر قومی اسمبلی وزیراعظم سے ملے، وزیراعظم نے پی ٹی آئی سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی، جس میں 7 اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی شامل تھے، اس کے بعد سنجیدہ مذاکرات شروع ہوئے، پہلی میٹنگ میں طے پایا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری شکل میں لے کے آئے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسری میٹنگ میں پی ٹی آئی رہنما تحریری مطالبات نہیں لے کے آئے، 16 جنوری کی میٹنگ میں وہ تحریری مطالبات لے کے آئے، 42 دن لگے ان کو اپنے مطالبات لانے میں، دوسری طرف پی ٹی آئی کا ہم سے تقاضا ہے کہ ہم 7 دن کے اندر اس کے مطالبات کا مثبت جواب دیں، جن ججز کا اس نے کہا ہے ان پر مشتمل جوڈیشنل کمیشن ہمارے ٹی او آرز کے مطابق تشکیل دیں۔
عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے پی ٹی آئی کے مطالبات کو بڑی سنجیدگی سے لے لیا، حکومتی کمیٹی نے غور کے لیے اجلاس بلایا، کمیٹی میں شامل رہنماؤں نے آپس میں مشاورت کی، لیکن آج جو بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ وہ میرے لیے بہت افسوسناک ہے، جو جماعت ہم سے ہاتھ ملانا نہیں چاہتی تھی، سمجھتی تھی کہ ہم چور، ڈاکوں ہیں، وہ ہم سے ہاتھ ملانے پہ راضی ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے نہیں سمجھ آتی کہ ان 7 دنوں کے اندر ایسی کیا چیز ہوئی ہے، پچھلی میٹنگ میں دونوں کمیٹیوں کے درمیان طے پایا تھا کہ حکومتی کمیٹی 7 ورکنگ دنوں کے اندر اندر پی ٹی آئی مطالبات پر اپنا باضابطہ تحریری مؤقف دے گی، یہ 7 دن 28 تاریخ کو پورے ہورہے ہیں۔
’ہم بڑی تندہی سے کام کررہے ہیں لیکن وہ جس بیتابی سے آئے تھے، اسی بیتابی سے جارہے ہیں، ہم ان کو کہتے ہیں کہ ابھی نہ جائیں، کچھ دن ٹھہر جائیں اور موسم خوشگوار ہونے دیں، جو کچھ آپ پہلے کرتے رہے ہیں وہ 6 دن بعد بھی ہوسکتا ہے، ہم نے اسپیکر قومی اسمبلی کو کہہ دیا ہے کہ وہ 28 فروری کو مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس بلائیں۔‘
انہوں نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ آج 23 تاریخ ہے، پی ٹی آئی رہنما جس عمل کے لیے اتنے بیتاب تھے، اس کو بھاڑ میں جونکنے کے لیے تیار ہیں، صرف 5 دن مزید انتظار نہیں کرسکتے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پاکستان پی ٹی آئی عرفان صدیقی عمران خان مذاکرات مسلم لیگ ن.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستان پی ٹی ا ئی عرفان صدیقی مذاکرات مسلم لیگ ن کہ پی ٹی ا ئی عرفان صدیقی میٹنگ میں نے کہا کہ نے کہا ہے انہوں نے کی تھی کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے. عرفان صدیقی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے عرفان صدیقی نے ”ایکس “پر اپنے ایک بیان میں میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی خبر کی تردید کی ہے.(جاری ہے)
پاکستان تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے میڈیا پر ایک خبر سامنے آئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے جواب میں اپنا موقف تیار کر لیا ہے تاہم عرفان صدیقی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیا ر کر لیا ہے. انہوں نے کہا کہ یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے راہنمائی حاصل کرنے کے عمل میں ہیں حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حتمی جواب تیار کرنے میں ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے. دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ عرفان صدیقی حکومتی کمیٹی کے ترجمان ہیں اور ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذاکرات کو تعطل کا شکار بنائیں بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات پر قائم ہے اور مذاکرات کرنا چاہتی ہے. چیئرمین پی ٹی آئی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے سات دن میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا عندیہ نہ دیا تو مذاکرات کی چوتھی نشست نہیں ہو سکتی انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ آرمی چیف سے ملاقات لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر تھی اور اس ملاقات پر ایشو کھڑا نہیں کرنا چاہیے . قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی نے عندیہ دیا تھاکہ بات چیت میں ضرورت پڑنے پر اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے مدد لی جا سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ معاملہ ہے جہاں پر اسٹیبلشمٹ، عدلیہ یا کسی اور ادارے کی مدد لینا پڑی کہ یہ کیسے کام ہو سکتا ہے تو ہم ضرور لیں گے. کچھ روز قبل سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے نجی ٹیلی وژن چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اصل فیصلہ سازوں کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا عرفان صدیقی نے اسد قیصر کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ پیش نہیں کیا انہوں نے شو میں یہ مطالبہ ضرور رکھا ہے لیکن جس مقتدرہ کی وہ بات کرتے ہیں اس کے دروازے پر بار بار وہ دستک دیتے رہے ہیں، آوازیں دیتے رہے ہیں وہ دروازہ نہیں کھلا. عرفان صدیقی کا کہنا تھاکہ انہوں نے کہہ دیا کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور یہ ہمارے پاس آ گئے جس فریق سے وہ بات کرنا چاہ رہے تھے اس فریق نے انکار کر دیا تو ہم انہیں پکڑ کر ان کے سامنے بٹھا دیں کہ ان سے بات کریں یہ ہمارا کام نہیں مذاکراتی کمیٹی اپنا اختیار رکھتی ہے جب پی ٹی آئی ہمارے پاس آئی تو ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جن کے پاس ہم جا رہے ہیں ان کے پاس اختیار ہے یا نہیں اگر ان کی نظر میں ہم بے اختیار ہیں تو انہوں نے کمیٹی کیوں بنائی؟ سپیکر یا ہمارے پاس کیوں آئے؟ وزیر اعظم سے کمیٹی کی تشکیل پر کیوں بات کی؟ بااختیار ہی سمجھیں جب تک ان پر ہماری بے اختیاری واضح نہیں ہو جاتی. ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کی مرضی کا جج اور فوجی بھی شامل کر دیں اس وقت تو وہ حکومت سے اور حکومت ان سے بات کر رہی ہے عرفان صدیقی نے خواجہ آصف کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہاتھا کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے، ان کے علاوہ ہمارے جماعت میں اور بھی لوگ ہیں جو ان مذاکرات کو بے ثمر سمجھتے ہیں عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی عدالتی کمیشن بنانے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے متعلق گفتگو میں کہاتھا اگر 31 جنوری تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بھی مذاکرات کے لیے ہمیں آگے جانا چاہیے.