بینچز اختیارات کیس، معاملہ فل کورٹ جائے گا یا نہیں، فیصلہ محفوظ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
بینچز اختیارات کیس، معاملہ فل کورٹ جائے گا یا نہیں، فیصلہ محفوظ WhatsAppFacebookTwitter 0 23 January, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جب کہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں لیکن دیں گے نہیں۔
سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی سماعت ہوئی۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی، حامد خان نے کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں.
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس پاکستان بنائیں گے یا کمیٹی بنائے گی، کیا جوڈیشل آرڈر کے زریعے فل کورٹ کی تشکیل کیلئے ججز کمیٹی کو بجھوایا جا سکتا ہے۔ حامد خان نے کہا کہ ریگولر ججز کمیٹی کے ایکٹ کا سیکشن 2اے آرٹیکل 191 اے سے ہم آہنگ نہیں ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی، میں آرٹیکل 191 اے کی مثال دینا چاہتا ہوں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ا سکا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں، حامد خان نے مقف اپنایا کہ آرٹیکل 191اے میں آئینی بنچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بنچ کا زکر نہیں ہے، کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ایک آئینی بنچ ہو سکتا ہے۔انہوں نے اسدلال کیا کہ اس صورتحال میں تین آئینی بنچز بن سکتے ہیں جو ان میں سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔
اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔ کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا، سماعت ساڑھے 11 بجے دوبارہ شروع ہوئی۔دوران سماعت عدالت میں قہقہے لگ گئے جب کہ جسٹس منصور علی شاہ اور احسن بھون کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔ احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ میں تو جوڈیشل کمیشن کا بھی ممبر ہوں، احسن بھون نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس میں ججز بھی لگائے جا رہے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم جو ججز نامزد کرتے ہیں انھیں تو ایک ہی ووٹ ملتا ہے وہ بھی ہمارا ہی ہوتا ہے، باقیوں کو گیارہ گیارہ ووٹ پڑ جاتے ہیں، یہ تو گپ شپ لگتی رہے گی۔
احسن بھون نے کہا کہ ماضی میں کچھ فیصلے ہوئے۔ جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ ماضی کیا حالیہ مخصوص نشتوں کا فیصلہ ابھی پڑا ہے، ماضی میں اتنا نہ جائیں، آپ ہمارے یونیورسٹی کے دوست بھی ہے۔احسن بھون نے کہا کہ ماضی میں تشریح کے نام پر آئینی آرٹیکل کو غیر موثر کیا گیا، جسٹس منصور علی شاہ بولے آجکل تو ایسا کچھ نہیں ہوا، حال میں تو سب ٹھیک ہے۔احسن بھون کا کہنا تھا کہ حال تو مائی لارڈ اب لکھیں گے، ماضی کے تلخ تجربات کی روشنی میں کوئی فیصلہ نہ کیا جائے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم تو آئینی بینچ میں نہیں ہیں، ہم نے کیا کرنا ہے، ہم تو ویسے ہی گپ شپ کر رہے ہیں، احسن بھون نے کہا کہ اس لیے ہم چاہتے تھے کہ آئینی عدالت بنے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ تھوڑا دھکا اور لگا کر آئینی عدالت بنا لیتے، احسن بھون نے کہا کہ دھکا تو ہم نے لگایا تھا۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آرٹیکل 191اے کا جائزہ لینا تھا، جائزہ کے دوران کیس بینچ سے واپس لے لیا گیا۔احسن بھون نے کہا کہ مجھے گزارش تو کرنے دیں، بینچ پریکٹس پروسیجر کمیٹی نے بنایا تھا۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ اصل میں ساری شرارت ہمارے آرڈر کی ہے، ویسے تو ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ ایگزیکٹو بینچ بنائے، احسن بھون نے مقف اپنایا کہ یہ قانون پارلیمنٹ نے بنایا ہے، جب تک آئین میں شامل ہے تو وہ دستور کا حصہ ہے۔
جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ کیا ہم آرٹیکل 191 اے کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے، احسن بھون نے کہا کہ آپ جائزہ نہیں کیس کو آئینی بینچ کو ریفر کرینگے۔جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ تو 26 آئینی ترمیم کے زریعے بنا، کیا چلتا کیس کمیٹی واپس لے سکتی ہے۔ احسن بھون نے کہا کہ یہ آئینی منشا ہے، جسٹس عقیل عباسی بولے کہ اگر ہم آرڈر کرتے تو غیر آئینی ہوتا، جوڈیشل آرڈر عدالتی حکم سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔احسن بھون نے کہا کہ اگر معاملہ آئینی و قانونی حیثیت کا ہو تو کمیٹی آئینی بینچ کو بھیج سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپکو آج ہی سنیں گے، کوشش کریں گے آج ہی سماعت مکمل ہو جائے۔
عدالتی معاون خواجہ حارث نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ جس عدالتی بنچ نے ابتدا میں سوالات فریم کیے اسی بینچ کو یہ کیس سننا چاہیے تھا، آرٹیکل 191اے آئین کا حصہ ہے جسے کسی جوڈیشل فورم نے کالعدم قرار نہیں دیا گیا، اگر ریگولر بینچ کے سامنے کوئی آئینی نقطہ آیا تھا تو اسے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا۔خواجہ حارث نے کہا کہ اگر آپکا پچھلا عدالتی بنچ آئینی سوالات پر فیصلہ دیتا تو وہ فیصلہ ہی خلاف قانون ہوتا، یہ معاملہ عدالتی بنچ کو ججز انتظامی کمیٹی کو بھیجنا چاہیے تھا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایسا ہی ایک واقعہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کیساتھ بھی پیش آیا، ایک جوڈیشل آرڈر پر رجسٹرار آفس کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا تھا، جوڈیشل آرڈر کے باوجود انتظامی کمیٹی نے کیس ہی لے لیا، ایسے میں تو عدلیہ کی آزادی انتظامی کمیٹی کے ہاتھ چلی جائے گی، ہمارا اختیار سماعت تھا یا نہیں، اس پر فیصلہ تو ہوا ہی نہیں، شاہد ہم بھی یہ کہہ دیتے، ہمارا اختیار نہیں ہے۔عدالتی معاون خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں موقف اپنایا کہ سول اورکریمنل کیسز میں آئینی سوالات ریگولر بنچ دیکھ سکتا ہے، آرٹیکل 185 تین پر مگر دائرہ اختیار کا معاملہ آجاتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی ہم نے 63 اے کا ایک کیس تھا اس میں ریگولر بنچ میں فیصلہ دیا، یہاں کیس ہم سے واپس لیکر کمیٹی نے آئینی بنچ میں لگا دیا۔خواجہ حارث نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی ڈائریکٹ کیس آئینی بنچ میں نہیں لگا سکتی، آئینی بنچ میں کیس آئینی کمیٹی ہی لگا سکتی ہے، اگر سادہ کمیٹی نے ایسا کیا تو غلط کیا ہے، مجھے پتہ چلا کہ جو بنچ پہلے کیس سن رہا تھا وہ اگلے ہفتے کیلئے بنچ شیڈیول میں نہیں تھا، ایسی صورتحال میں کمیٹی کیس کسی اور بنچ میں لگا دینے کی مجاز ہے، کمیٹی کا کیس واپس لینا اس کے آئینی مینڈیٹ کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، اس اختیار کے استعمال کو جوڈیشل آرڈر کی خلاف ورزی پر نہیں پرکھنا چاہیے۔خواجہ حارث پریکٹس اینڈ پروسیجر آج بھی ایک نافذ العمل قانون ہے، سپریم کورٹ کا بنچ قانون کیمطابق ہی کوئی بھی حکم جاری کر سکتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا انتظامی کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے درست ہونے کا جائزہ لے سکتی ہے؟ اگر ہمارا16 جنوری کا آرڈر غلط ہے تو کیا وہ جوڈیشل فورم پر ہی چیلنج نہیں ہو گا؟ خواجہ حارث نے کاہ کہ یہاں آپ کی بات درست ہے مگر میں اس کو صرف الگ تناظر میم دیکھ رہا ہوں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا آئین میں نہیں لکھا کہ سپریم کورٹ کا آرڈر تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز کو ماننا لازم ہے؟ کیا سپریم کورٹ کی انتظامی کمیٹی پر یہ آئینی شق لاگو نہیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آئینی بنچ نان جوڈیشل فورم کے زریعے بنائے گئے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو اس لیے درست قرار دیا کہ عدلیہ بنچ بنائے گی۔خواجہ حارث نے کہا کہ آئین میں درج ہے کہ آئینی بنچ کیسے بنایا جائے گا، دو رکنی ریگولر بنچ توہین عدالت کیس میں فل کورٹ نہیں بنا سکتی، عدالتی بنچز کی تشکیل کیلئے دو کمیٹیاں ہیں۔جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ آپکی بات درست ہے، ہمارا اختلاف نہیں، بنچز کمیٹیاں ہی بناتی ہیں، لیکن بادی النظر میں فل کورٹ بنانے کا اختیار چیف جسٹس پاکستان کو ہے، ججز کمیٹیوں کو نہیں ہے۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 کے تحت چیف جسٹس پاکستان سے فل کورٹ کی گزارش کی جا سکتی ہے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کیا ہم توہین عدالت کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کیلئے چیف جسٹس سے گزارش کر سکتے ہیں۔خواجہ حارث نے کہا کہ اس کے لیے سپریم کورٹ رولز دیکھنے ہونگے، جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ کل کہیں لوگ یہ نہ کہیں سپریم کورٹ اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہے ہیں۔ اس موقع پر کیس کی سماعت مکمل ہوگئی اور عدالت عظمی نے بینچز اختیار سماعت سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ہے جسٹس منصور علی شاہ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر خواجہ حارث نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان انتظامی کمیٹی بینچز اختیار نے کہا کہ کیا فیصلہ محفوظ جوڈیشل آرڈر آرٹیکل 191اے عدالتی بنچ سپریم کورٹ ججز کمیٹی کہ آئینی ہیں جسٹس کمیٹی کو میں نہیں کمیٹی نے کمیٹی کے کی سماعت سکتی ہے نہیں ہے کہ آئین کورٹ کی فل کورٹ سکتا ہے رہے ہیں کا حصہ
پڑھیں:
موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے. جسٹس منصور علی شاہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 جنوری ۔2025 ) سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس میں ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سے تحریری جواب طلب کرلیا ہے عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کے اعتراض پر مزید 2 عدالتی معاون مقرر کر دیے کیس کی سماعت کے دوران عدالت کے سنیئرترین جج جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے.(جاری ہے)
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے بینچز اختیار سے متعلق کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے کیخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کی دوران سماعت اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان عدالت میں پیش ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ رجسٹرار نے ایڈیشنل رجسٹرار کے دفاع میں کہا کہ یہ سب 2 ججز کمیٹی کے فیصلے سے ہوا ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کہاں ہیں؟ آج آئے ہوئے ہیں؟ جس پر ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس عدالت کے سامنے پیش ہوئے. جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرار سے استفسار کیا کہ آپ نے کاز لسٹ سے کیس کو کیوں ہٹایا تھا؟ آپ کوشش کریں آج اپنا تحریری جواب جمع کروا دیں دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالتی معاونین مقرر کرنے پر اعتراض کیا اور موقف اختیار کیا کہ جو عدالتی معاونین مقرر کیے گئے وہ چھبیسویں ترمیم کیخلاف درخواست گزاروں کے وکلا ہیں توہین عدالت کے کیس میں عدالتی معاون کا تقرر پہلی بار دیکھ رہا ہوں. جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ توازن قائم کرنے کے لیے آپ کے تجویز کردہ نام بھی شامل کر لیتے ہیں اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں کوئی نام تجویز نہیں کر رہا تاہم عدالت نے وکلا خواجہ حارث اور احسن بھون کو بھی عدالتی معاون مقرر کر دیا جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ اور کوئی بھی معاونت کرنا چاہتا ہے تو کر سکتا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ معلوم نہیں کہ کیس سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے سے نذر عباس کا کتنا تعلق ہے؟ نذر عباس صاحب! آپ کے ساتھ بھی کچھ ہوا ہے. اٹارنی جنرل نے کہا کہ توہین عدالت کیس میں بطور پراسیکیوٹر پیش ہو سکتا ہوں قانونی سوال پر 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کر سکتا ہوں توہین عدالت کیس میں بطور اٹارنی جنرل میرا کردار ذرا مختلف ہے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ سوال پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے سیکشن 2 کا ہے، بینچ اپنا دائرہ اختیار دیکھنا چاہ رہا ہو تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا آئینی ترمیم سے کوئی تعلق نہیں، ویسے کوئی ڈرنے لگ جائے تو الگ بات ہے، نذر عباس کے دفاع میں کمیٹی کے فیصلے پیش کیے گئے تھے. اٹارنی جنرل نے کہا کہ نذر عباس کا تحریری جواب آنے تک رجسٹرار کا موقف ان کا دفاع قرار نہیں دیا جاسکتا توہین عدالت کیس میں عدالت کا بہت محدود اختیار سماعت ہے شوکاز نوٹس جسے جاری کیا گیا، اس کا تحریری بیان جمع ہونا چاہیے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارا مقصد تو ایسا نہیں تھا لیکن ہم جاننا چاہتے تھے کیس کیوں واپس ہوا؟. اٹارنی جنرل نے کہا معاملہ عدالت اور توہین کرنے والے کے درمیان ہے26 ویں آئینی ترمیم کے تحت بینچ بنانے کا اختیار آئینی کمیٹی کو ہے دوران سماعت وکیل شاہد جمیل روسٹرم پر آ گئے اور کہا کہ پشاور میں بھی اسی طرح بینچ تبدیل ہوا تھا پھر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک نوٹ لکھا تھا سپریم کورٹ میں جو روسٹر ایک دفعہ بنتا ہے وہ تبدیل ہوتا رہتا ہے یہاں ایک کیس کی سماعت ایک بینچ کرتا ہے درمیان میں بینچ تبدیل ہوتا ہے اور کبھی بینچ سے ایک معزز جج کو نکال دیا جاتا ہے ایک کیس چل رہا ہو اس کو بینچ سے واپس نہیں لیا جا سکتا. جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ مطلب یہ ہوا کہ جب ایک کیس شروع ہو گیا تو اس کی واپسی نہیں ہے شاہد جمیل نے کہا کہ جہاں سوال اٹھے گا وہ کیس لیا بھی جا سکتا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سوال اس صورت میں اٹھے گا اگر کیس بینچ کے سامنے نا ہو شاہد جمیل نے کہا پہلے سارے کیسز سیکشن ٹو کی کمیٹی کے پاس جائیں گے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ابھی تک ٹو اے کی کمیٹی کی ایکسر سائز رہی ہے کہ کمیٹی ریگولر بینچز ہی بنائے گی ٹو اے میں کمیٹی بینچ تبدیل کر سکتی تھی اس صورت میں جب کیس کسی کورٹ میں نا ہو. شاہد جمیل نے موقف اپنایا کہ آئینی بینچ کو جوڈیشل کمیشن نے نامزد کرنا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا سارے کیسز پہلے مرکزی کمیٹی میں جائیں گے وکیل نے موقف اپنایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ سارے کیسز پہلے آئینی بینچ کی کمیٹی کو بھیجے جائیں مطلب یہ اوور لیپنگ ہمشیہ رہے گی یہ معاملہ فل کورٹ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جا سکتا ہے دوران سماعت عدالتی معاون منیر اے ملک نے فل کورٹ تشکیل دینے کی تجویز دے دی جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کیا ہم توہین کا کیس سنتے ہوئے فل کورٹ کا آرڈر کر سکتے ہیں؟. منیر اے ملک نے کہا کمیٹی فیصلہ بطور دفاع پیش کیا گیا ہے کمیٹی اختیار پر بالکل یہ عدالت فل کورٹ آرڈر کر سکتی ہے آئینی بینچ سپریم کورٹ کا صرف ایک سیکشن ہے سپریم کورٹ آنے والے کیسز کو پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر کی کمیٹی کو ہی دیکھنا چاہیے 3 رکنی کمیٹی کو طے کرنا چاہیے کون سے کیسز آئینی بینچ کو بھیجنے ہیں میری رائے میں کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو انتظامی آرڈر سے ختم نہیں کر سکتی. منیر اے ملک نے بتایا کہ کل جاری ہونے والی پریس ریلیز میں نے دیکھی ہے کہا یہ گیا کہ پہلے کیس غلطی سے اس ریگولر بینچ میں لگ گیا تھا اگر یہ غلطی تھی، تب بھی اس پر اب جوڈیشل آرڈر ہو چکا اب جوڈیشل آرڈر کو دوسرا جوڈیشل آرڈر ہی بدل سکتا ہے یہ معاملہ اب عدلیہ کی آزادی سے جڑا ہے معاملہ ہمیشہ کے لیے فل کورٹ سے ہی حل ہو سکتا ہے عدالتی معاون حامد خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انتظامی فورم عدالتی احکامات پر عمل درآمد کا پابند ہوتا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کسی کیس میں 9 رکنی بینچ بنانے کی ہدایت کر سکتا ہے؟. حامد خان نے موقف اپنایا کہ عدالت 9 رکنی بینچ بنانے کا حکم دے تو عمل کرنا ہوگا کوئی آئینی سوال آئے تو ریگولر بینچ بھی سماعت کر سکتا ہے سپریم کورٹ آئین کے مطابق ہی قائم کی گئی ہے آئین میں لکھا ہے سپریم کورٹ میں چیف جسٹس اور دیگر ججز ہوں گے جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ کیا ہمارا شمار دیگر ججز میں ہوتا ہے؟. جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیئے اب تو شاید ہم دیگر ججز ہی رہ گئے ہیں جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب ویسے پوچھ رہا تھا کہ ہم سپریم کورٹ کے ججز کا حصہ ہیں؟ اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی بالکل آپ حصہ ہیں جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ویسے ہی پوچھ رہا تھا کہ آج کل پتا نہیں چلتا، دیگر عدالتی معاونین کو کل سنیں گے عدالت نے مزید سماعت ایک دن کے لیے ملتوی کر دی.