پرچہ آؤٹ کی تحقیقات میں نظر انداز کرنے پر آئی بی سی سی کیمرج پر برہم، فوری جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
علامتی فوٹو
انٹر بورڈ کوآرڈینیشن کمیٹی (آئی بی سی سی) نے گزشتہ برس کیمبرج انٹرنیشنل کے امتحانات میں ریاضی کا پرچہ آؤٹ ہونے والی تحقیقات اور سزائیں دینے پر آئی بی سی سی کو نظرانداز کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات، نتائج اور رپورٹ کی بنیاد پر کیے گئے اقدامات کی تفصیلات فوری طلب کرلی ہیں۔
آئی بی سی سی کے ڈائریکٹر عمار حسین گیلانی کی جانب سے کیمبرج انٹرنیشنل کی ملکی ڈائریکٹر عظمیٰ یوسف کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ آپ سے ریاضی کے 9709 پیپر کے مبینہ لیک ہونے کی مکمل تحقیقات کرنے کی درخواست کی گئی تھی، مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کےلیے کیے گئے کسی بھی اصلاحی اقدامات سمیت نتائج پر ایک جامع رپورٹ فراہم کریں۔
اس میں مزید کہا گیا کہ تاہم آپ کی طرف سے 15 مئی 2024 کو موصول ہونے والے جواب میں، یہ اطلاع دی گئی تھی کہ کیمبرج مبینہ لیک کے بارے میں خدشات کی تحقیقات کر رہا ہے اور تحقیقات مکمل ہونے اور فیصلہ آنے کے بعد جواب کے ساتھ اپ ڈیٹ کرے گا۔ تاہم مسلسل یاد دہانیوں کے باوجود ایسی کوئی رپورٹ شیئر نہیں کی گئی۔
خط میں تحریر کیا گیا کہ 2025 کے مقدمہ نمبر 13 میں سندھ ہائی کورٹ کے نوٹس کے ذریعے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ نہ صرف تحقیقات مکمل ہوئیں بلکہ شناخت شدہ افراد کو سزائیں بھی دی گئیں۔ درخواست گزار نے یہ بھی سوال کیا ہے کہ آئی بی سی سی ایک ریگولیٹر ہونے کے باوجود انکوائری کا حصہ کیوں نہیں تھا اور اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ انکوائری مکمل کرنے کے بعد بھی آئی بی سی سی کو اعتماد میں نہیں لیا گیا اور اسے تحقیقات کے نتائج سے آگاہ نہیں کیا گیا۔
خط میں کہا گیا ہے آج بی سی سی کو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں مسلسل عدم تعاون کا مسئلہ اہم خدشات کو جنم دیتا ہے، خاص طور پر جب آئی بی سی سی کو ایسی معلومات قومی اعلیٰ فورمز پر پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر غیر ملکی امتحانی بورڈ جیسے کیمبرج انٹرنیشنل ایگزامینیشنز اس کی تعمیل نہیں کرتے ہیں، تو اس کے نتیجے میں سنگین ریگولیٹری اور آپریشنل نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، جو ممکنہ طور پر ان کی پاکستان میں کام کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتے ہیں لہٰذا، کیمبرج کے بہترین مفاد میں، یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ تحقیقات، نتائج اور رپورٹ کی بنیاد پر کیے گئے کسی بھی اقدام کی تفصیلات 23 جنوری 2025 سے پہلے عدالت میں بہتر نمائندگی کے لیے شیئر کریں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بی سی سی کو
پڑھیں:
پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے. عرفان صدیقی
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔21 جنوری ۔2025 )پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اور پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کا حتمی جواب تیار کرنے میں مزید ایک ہفتہ لگ سکتا ہے عرفان صدیقی نے ”ایکس “پر اپنے ایک بیان میں میڈیا پر اس حوالے سے چلنے والی خبر کی تردید کی ہے.(جاری ہے)
پاکستان تحریک انصاف کے چارٹر آف ڈیمانڈ کے حوالے سے میڈیا پر ایک خبر سامنے آئی جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ حکومتی کمیٹی نے جواب میں اپنا موقف تیار کر لیا ہے تاہم عرفان صدیقی نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ذرائع کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی اس خبر میں کوئی صداقت نہیں کہ حکومتی کمیٹی نے پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈز کے جواب میں اپنا موقف تیا ر کر لیا ہے. انہوں نے کہا کہ یہ خبر اور اس میں بیان کی گئی تمام تفصیلات بے بنیاد ہیں اس وقت حکومتی کمیٹی میں شامل سات جماعتیں باہمی مشاورت اور اپنی اپنی قیادت سے راہنمائی حاصل کرنے کے عمل میں ہیں حکومتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ حتمی جواب تیار کرنے میں ایک ہفتہ مزید لگ سکتا ہے. دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ عرفان صدیقی حکومتی کمیٹی کے ترجمان ہیں اور ان کے لیے مناسب نہیں کہ وہ مذاکرات کو تعطل کا شکار بنائیں بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات پر قائم ہے اور مذاکرات کرنا چاہتی ہے. چیئرمین پی ٹی آئی نے خبردار کیا ہے کہ اگر حکومت نے سات دن میں جوڈیشل کمیشن قائم کرنے کا عندیہ نہ دیا تو مذاکرات کی چوتھی نشست نہیں ہو سکتی انہوں نے ایک بار پھر دہرایا کہ آرمی چیف سے ملاقات لا اینڈ آرڈر کی صورت حال پر تھی اور اس ملاقات پر ایشو کھڑا نہیں کرنا چاہیے . قبل ازیں برطانوی نشریاتی ادارے سے انٹرویو میں حکومتی کمیٹی کے ترجمان اور پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیٹر عرفان صدیقی نے عندیہ دیا تھاکہ بات چیت میں ضرورت پڑنے پر اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ سے مدد لی جا سکتی ہے ان کا کہنا تھا کہ یہ وہ معاملہ ہے جہاں پر اسٹیبلشمٹ، عدلیہ یا کسی اور ادارے کی مدد لینا پڑی کہ یہ کیسے کام ہو سکتا ہے تو ہم ضرور لیں گے. کچھ روز قبل سابق سپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے نجی ٹیلی وژن چینل کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اصل فیصلہ سازوں کو مذاکرات میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا عرفان صدیقی نے اسد قیصر کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ پی ٹی آئی نے باضابطہ طور پر مذاکرات کے دوران یہ مطالبہ پیش نہیں کیا انہوں نے شو میں یہ مطالبہ ضرور رکھا ہے لیکن جس مقتدرہ کی وہ بات کرتے ہیں اس کے دروازے پر بار بار وہ دستک دیتے رہے ہیں، آوازیں دیتے رہے ہیں وہ دروازہ نہیں کھلا. عرفان صدیقی کا کہنا تھاکہ انہوں نے کہہ دیا کہ سیاست دان آپس میں بیٹھ کر بات کریں اور یہ ہمارے پاس آ گئے جس فریق سے وہ بات کرنا چاہ رہے تھے اس فریق نے انکار کر دیا تو ہم انہیں پکڑ کر ان کے سامنے بٹھا دیں کہ ان سے بات کریں یہ ہمارا کام نہیں مذاکراتی کمیٹی اپنا اختیار رکھتی ہے جب پی ٹی آئی ہمارے پاس آئی تو ان کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے تھا کہ جن کے پاس ہم جا رہے ہیں ان کے پاس اختیار ہے یا نہیں اگر ان کی نظر میں ہم بے اختیار ہیں تو انہوں نے کمیٹی کیوں بنائی؟ سپیکر یا ہمارے پاس کیوں آئے؟ وزیر اعظم سے کمیٹی کی تشکیل پر کیوں بات کی؟ بااختیار ہی سمجھیں جب تک ان پر ہماری بے اختیاری واضح نہیں ہو جاتی. ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کی مرضی کا جج اور فوجی بھی شامل کر دیں اس وقت تو وہ حکومت سے اور حکومت ان سے بات کر رہی ہے عرفان صدیقی نے خواجہ آصف کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہاتھا کہ یہ ان کی اپنی رائے ہے، ان کے علاوہ ہمارے جماعت میں اور بھی لوگ ہیں جو ان مذاکرات کو بے ثمر سمجھتے ہیں عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی عدالتی کمیشن بنانے کے لیے 31 جنوری کی ڈیڈ لائن سے متعلق گفتگو میں کہاتھا اگر 31 جنوری تک کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو بھی مذاکرات کے لیے ہمیں آگے جانا چاہیے.