پی ٹی آئی ارکان کا آج پھر قومی اسمبلی میں احتجاج ونعرے بازی کے بعد واک آؤٹ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی اسمبلی میں آج بھی پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے احتجاج کیا گیا اور نعرے بازی کی گئی۔ بعد ازاں اپوزیشن ارکان واک آؤٹ کر گئے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوتے ہی اپوزیشن نے احتجاج شروع کردیا۔ اجلاس میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے نکتہ اعتراض پر مائیک مانگا، تاہم اسپیکر نے انہیں اجازت دینے سے انکار کردیا۔
عمر ایوب کو اجازت نہ ملنے پر پی ٹی آئی کے ارکان نے ڈیسک بجا کر احتجاج کیا، جس سے ایوان کی کارروائی شدید متاثر ہوئی اور اسپیکر نے کان پر ہیڈ فون لگا لیے۔ اس دوران حکومتی وزرا اور پارلیمانی سیکرٹریز نے ہیڈ فون لگا کر کارروائی جاری رکھنے کی کوشش کی۔
اجلاس میں پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے ظالمو جواب دو خون کا حساب دو کے نعرے لگائے گئے۔ اس دوران پی ٹی آئی ارکان نے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ کر پھینک دیں۔
رکن قومی اسمبلی آغا رفیع اللہ نے کہا کہ عوام دیکھ لیں آج پی ٹی آئی کے نمائندے ان کے حقوق کی بات کررہے ہیں یا جانوروں کی آوازیں نکال رہے ہیں۔ یہاں یہ مہنگائی پر بات نہیں کرتے، نہ بجلی کی بات کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ارکان احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کر گئے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی اسمبلی آئی ارکان پی ٹی آئی
پڑھیں:
حکومت کی جانب سے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش
وفاقی حکومت نے 6 نئی نہروں کے منصوبوں کی تفصیلات قومی اسمبلی میں پیش کردیں۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے 6 نئی نہروں سے متعلق تحریری تفصیلات ایوان میں پیش کیں۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پنجاب کے لیے چھوٹی چولستان نہر کے منصوبے کے لیےارسا نے جنوری 2024 میں این او سی جاری کیا، یہ منصوبہ حکومت پنجاب کی مالی معاونت سے مکمل کیا جا رہا ہے، جب کہ منصوبے کی کل لاگت 225 ارب 34 کروڑ روپے ہے جسے سی ڈی ڈبلیو پی نے ایکنک کو بھجوا دیا ہے، تاہم ایکنک نے تاحال اس کے پی سی ون پر غور نہیں کیا۔معین وٹو نے بتایا کہ حکومت سندھ نے 15 نومبر 2024 کو ارسا کا جاری کردہ سرٹیفکیٹ منسوخ کرنے کی سمری ارسال کی جب کہ تھر کینال منصوبے کے لیے ارسا سے این او سی کی باضابطہ درخواست نہیں دی گئی۔ واپڈا نے اس منصوبے کے لیے 212 ارب روپے کا پی سی ون جمع کرایا ہے، منصوبہ فی الحال غیر منظور شدہ ہے۔
وزیر آبی وسائل کے مطابق گریٹر تھل کینال کے لیے ارسا نے مئی 2008 میں پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا، اس منصوبے کا پہلا مرحلہ 10 ارب 17 کروڑ روپے کی لاگت سے 2010 میں مکمل ہو چکا ہے اور اسے پنجاب کے حوالے بھی کیا جاچکا ہے، دوسرے مرحلے کی منظوری ایکنک نے 2024 میں سی سی آئی سے مشروط کر کے دی ہے۔وزیر آبی وسائل نے بتایا کہ برساتی نہر منصوبے کے لیے ارسا نے ستمبر 2002 میں سرٹیفکیٹ جاری کیا تھا۔ فیز ون 17 ارب 88 کروڑ 60 لاکھ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا اور اسے حکومت سندھ کے حوالے کر دیا گیا، فیز ٹو کی تجویز کو جی او سی مشاورتی اجلاس میں مسترد کر دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لیے شروع کیے گئے نہری منصوبے کا این او سی ارسا نے اکتوبر 2003 میں جاری کیا، اس کا فیز ون 2017 میں مکمل ہوا، تاہم 2022 کے سیلاب میں اسے نقصان پہنچا، واپڈا نے متاثرہ حصوں کی مرمت جزوی طور پر کر دی ہے، رواں مالی سال مارچ تک اس منصوبے کے لیے 22 ارب 92 کروڑ روپے مختص کیے گئے جب کہ فیز ٹو کے لیے 70 ارب روپے کا پی سی ون تیار کر لیا گیا ہے جس کی منظوری کا انتظار ہے۔معین وٹو کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا کے لیے سی بی آر سی نہر کو ارسا نے اپریل 2004 میں این او سی دیا جب کہ ایکنک نے 2022 میں 189 ارب 61 کروڑ روپے کا پی سی ون منظور کیا، یہ منصوبہ فی الحال ایوارڈ کے عمل سے گزر رہا ہے۔