UrduPoint:
2025-04-13@17:06:01 GMT

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جنوری 2025ء) امریکہ کی نئی ٹرمپ انتظامیہ نے ایک بار پھر سے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی گروپ کی تحریک کو ’’غیر ملکی دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دے دیا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس گروپ کو ’’خصوصی طور پر نامزد عالمی دہشت گردوں‘‘ کی فہرست میں شامل کرنے کا حکم دیا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد گروپ پر دوبارہ بہت سی سخت پابندیاں نافذ کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس نے اس تعلق سے ایک بیان میں کہا، ’’حوثیوں کی سرگرمیاں مشرق وسطیٰ میں امریکی شہریوں اور اہلکاروں کی سلامتی، ہمارے قریبی علاقائی شراکت داروں کی حفاظت اور عالمی سمندری تجارت کے استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔

(جاری ہے)

‘‘بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ اس امریکی پالیسی کے لیے علاقائی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہو گی تاکہ ان کی ’’صلاحیتوں اور کارروائیوں کو ختم کیا جا سکے۔

انہیں وسائل سے محروم کر دیا جاسکے اور اس طرح امریکی اہلکاروں اور شہریوں، امریکی شراکت داروں نیز بحیرہ احمر میں سمندری جہاز رانی پر ان کے حملوں کو ختم کیا جا سکے۔‘‘

یمن کے حوثی باغی کون ہیں؟

واضح رہے کہ ٹرمپ کے پیشرو صدر جو بائیڈن نے سن 2021 میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یمنی شہریوں تک امداد پہنچانے کے امکانات کے بارے میں خدشات کے اظہار کے بعد حوثی گروپ پر لگا دہشت گردی کا لیبل ہٹا دیا تھا۔

تاہم جب حوثی گروپ نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر اسرائیل اور بحیرہ احمر میں اس کے اتحادیوں پر حملے کیے تو، بائیڈن نے بھی یمن میں حوثی اہداف پر متعدد حملوں کا حکم دیا تھا۔

یمن میں ہوائی اڈے، بجلی گھروں، بندرگاہوں پر اسرائیلی حملے

اس کا مقصد اس گروپ کے اسرائیل کے خلاف جاری حملوں کو روکنا اور بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کی اسرائیلی وزیر اعظم سے بات چیت

ٹرمپ انتظامیہ میں امریکی وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھالنے والے مارکو روبیو نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے بات چیت کی ہے اور اسرائیل کے لیے امریکہ کی ’’مستقل حمایت‘‘ کا وعدہ کیا۔

روبیو نے کہا،’’حماس اور حزب اللہ کے خلاف اسرائیل کی کامیابی‘‘ پر نیتن یاہو کو مبارکباد بھی پیش کرتے ہیں اور غزہ میں عسکریت پسند گروپوں کے زیر حراست باقی ماندہ یرغمالیوں کی رہائی میں مدد کرنے کا وعدہ بھی کیا۔

اسرائیل پر حملہ کرنے والے کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی، نیتن یاہو

گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس نے غزہ میں مرحلہ وار جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق کیا تھا، جس کے لیے امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں کئی مہینوں تک بات چیت چلتی رہی۔

امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ اسرائیل کی حمایت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ’’اولین ترجیح‘‘ ہے۔

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی کا دورہ غزہ

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وِٹکوف نے بدھ کے روز کہا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے درمیان جنگ بندی کی نگرانی کے لیے غزہ کی پٹی میں تعینات ’’بیرونی نگراں حکام‘‘ کی ٹیم کا حصہ ہوں گے۔

مشرق وسطی: یمن کے متعدد علاقوں پر اسرائیل کے فضائی حملے

فوکس نیوز پر اسٹیو وِٹکوف نے اسرائیل کے دو تنگ راستوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’میں حقیقت میں اسرائیل جا رہا ہوں۔

میں نیٹسارم کوریڈور اور فیلاڈیلفیا راہداری پر ایک معائنہ کار ٹیم کا حصہ بننے جا رہا ہوں۔‘‘

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا، ’’اسی جگہ پر بیرونی معائنہ کار ہیں، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے وہاں موجود ہیں کہ لوگ محفوظ رہیں اور جو لوگ داخل ہو رہے ہیں وہ مسلح نہ ہوں اور کسی کے دل میں کچھ بھی برا کرنے کا نہ ہو۔‘‘

ایران کے ’محور مزاحمت‘ میں حوثی اب اہم تر ہوتے جا رہے ہیں؟

وِٹکوف نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کہ معاہدے کو ابتدائی چھ ہفتے کے مرحلے سے اس کے دوسرے مرحلے تک لے جایا جائے۔

معاہدے کے بارے میں ثالثوں کا کہنا ہے کہ اس میں باقی تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیلی فوجیوں کا مکمل انخلاء شامل ہے۔

ص ز/ (روئٹرز، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیل کے ٹرمپ کے یمن کے کے لیے

پڑھیں:

تجارتی جنگ اور ہم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو اپریل کو درآمدات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا تو مالیاتی مارکیٹوں میں تہلکہ مچ گیا۔ ’’متاثرہ ملکوں‘‘ کو یہ اقدام دس ریکٹر اسکیل کا تجارتی زلزلہ لگا جس نے ورلڈ سپلائی چین اور فری مارکیٹ اکانومی سسٹم کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔

ان ممالک کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ پچھلے 40 برسوں سے جس’’ رول بیسڈ ورلڈ ٹریڈ آرڈر‘‘ کے وہ عادی اور خوشہ چیں تھے،اس ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے اور قائم رکھنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والا ملک اپنے ہاتھوں سے اس ورلڈ آرڈر کو تہہ کر کے یوں آسانی سے سائیڈ پہ رکھ دے گا! تاہم حقیقت یہی ہے کہ صدر ٹرمپ نے انہونی کو ہونی کر دیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے 65 ممالک پر بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک تہلکہ خیز واقعہ تھا جس کے باعث فنانشل مارکیٹس میں شدید ترین گراوٹ دیکھی گئی۔ ایک ہی روز میں اربوں کھربوں ڈالرز کی حصص ویلیو ہوا ہو گئی۔

عالمی مالیاتی مارکیٹوں میں شدید گراوٹ اور معاشی بے یقینی کی گرج چمک نے دنیا بھر کے کے ممالک کو چکرا کر رکھ دیا۔ صدر ٹرمپ نے اس پر ایک اور ترپ کا پتہ کھیل کر دنیا کو نہ صرف حیران کر دیا بلکہ کم از کم اگلے90 دن کے لیے انھیں انتظار کی سولی پر بھی لٹکا دیا۔صدر ٹرمپ نے ٹیرف کے فوری نفاذ کو چین، کینیڈا، میکسیکو کے سوا باقی ممالک کے لیے 90 دنوں تک موخر کر دیا۔ البتہ اس دوران سب پر 10فیصد یکساں ٹیرف عائد کر دیا۔

چین نے امریکی ٹیرف کے جواب میں ترکی بہ ترکی ٹیرف عائد کیے جس پر سیخ پا ہو کر امریکا نے چین پر عائد ٹیرف بڑھا کر 125فیصد کر دیا۔ امریکی حکام کے بقول دنیا کے 70 ممالک ان سے مذاکرات کے لیے رابطہ کر چکے ہیں ،کئی سربراہان نے فون یا وائٹ ہاؤس یاترا کرکے معاملات کی درستی کے لیے پیش قدمی کی لیکن چین ٹس سے مس نہ ہوا۔

بلکہ چینی صدر فار ایسٹ ایشیاء کے دورے پر نکل کھڑے ہوئے۔ مقصود یہ کہ علاقائی ملکوں کے ساتھ نئے تجارتی بندوبست کا اہتمام کیا جا سکے۔ امریکی انتظامیہ کے ایک اہلکار نے مایوسی کا اظہار بھی کیا کہ ایک فون کی تو بات تھی لیکن چین کو سمجھ نہیں آئی !

ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی موجودگی اور ملٹی لیٹرل ٹریڈ سسٹم کے طے شدہ اصولوں کے باوجود امریکی صدر نے ورلڈ ٹریڈ سسٹم کو بائی پاس کر دیا اور یکطرفہ طور پر کم ازکم 65 ممالک پر ٹیرف عائد کر دیے۔ ورلڈ سسٹم کو بائی پاس کرتے ہوئے بھاری بھرکم ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ صدر ٹرمپ کا انفرادی تھا یا اس فیصلے کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی ہے ؟ یعنی There is method behind this madness۔

امریکی سیاست اور معاشی پالیسیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کٹر خیالات رکھنے والے سیاسی اور غیر سیاسی لوگوں کی ری پبلکن پارٹی پر بڑھتی ہوئی مظبوط گرفت ، کانگریس میں ان کی اکثریت اور صدر ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت ان ہنگامہ پرور فیصلوں کا باعث بنی۔

امریکی صدر کے امیگریشن، ایجوکیشن، لیبر یونین کی مزید حوصلہ شکنی سمیت حکومتی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں ، بیوروکریسی ، کئی ملکی اور عالمی سطح پر جاری۔امدادی پروگرام بند کرنے اور عالمی تجارتی نظام پر اپنی شرائط پر گرفت قائم کرنے جیسے اقدامات پر ری پبلکن پارٹی میں سرگرم سیاسی و نظریاتی حمایت موجود ہے۔

انتہائی دائیں بازو کے ان ایجنڈا اقدامات کی تشکیل کے لیے دو سال قبل ایک معروف تھنک ٹینک نے 900 صفحات پر مبنی پروجیکٹ 2025 رپورٹ پبلک کر دی تھی۔ اس رپورٹ کے 37 لکھاریوں میں سے 27 صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور صدارت میں ان کی ایڈمنسٹریشن کا حصہ تھے یا ان کے سیاسی حلقہ اثر سے متعلق تھے۔

گو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اس رپورٹ کے مندرجات سے پہلو تہی اختیار کی لیکن صدارت سنبھالنے کے بعد ان کے تمام اقدامات۔انداز ہو بہو تیری آواز پاء کا تھاکی مثال ثابت ہورہے ہیں۔ اس پروجیکٹ رپورٹ کے دو سینئر ممبرز امریکی صدر کی انتظامیہ کا حصہ بھی ہیں۔ اسی لیے بیشتر ماہرین کا یہ خیال ہے کہ ٹیرف اقدامات کے پیچھے سوچی سمجھی اسٹرٹیجی کار فرما یے۔ البتہ اس میں باقی ڈرامائی انداز ڈونلڈ ٹرمپ کی اپنی شخصیت کا کرشمہ اور مزاج کا عکس ہے۔

امریکی سیاست میں گزشتہ 45 سالوں کے دوران بہت بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ 80 کی دہائی میں امریکی سیاست میں نیوکون NEOCON معیشت دانوں اور نیو لبرل سیاست دانوں کو عروج ملا۔ ان کی تجویز کردہ بیشتر معاشی پالیسیوں کو صدر رونالڈ ریگن نے اپنایا۔ان پالیسیوں کا امریکا اور عالمی معیشت پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ آج تک اس معاشی طرز نظامت کو ریگنامکس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

تاہم اسدوان زمانہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔ 80 کی دہائی سے دنیا بھر میں شروع ہونے والی حیرت انگیز معاشی، ٹیکنالوجی اور سیاسی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والی تبدیلیاں امریکا اور اس کے حلیفوں کے لیے غیر متوقع تھیں۔ 2025 کا عالمی تجارتی منظر اور اس کے بڑے بڑے کھلاڑی یعنی Who is who کی فہرست اور ترتیب میں بنیادی تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ کم و بیش ہر نوزائیدہ معاشی قوت کی معاشی ترقی کے سوتے امریکا کی پرکشش اور فری مارکیٹ اکانومی سے پھوٹے۔ اس لیے جب امریکا نے بیک جنبش قلم جاری توازن کو جھٹکا دیا تو دنیا بھر کو جھٹکا لگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں کے دوران عالمی تجارتی اور معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے 80 کی دہائی والا ماحول اب موجود نہیں، تاہم اس کے باوجود امریکا کا اثرو نفوذ اب بھی بہت وسیع اور فیصلہ کن ہے۔

آنے والا وقت بتائے گا کہ عالمی تجارت اور نئی جیو پولیٹیکل بساط پر امریکا ،چین اور دیگر ممالک کی اگلی صف بندی اور چالیں کیا ہوں گی۔ گو پاکستان عالمی تجارتی حجم میں بہت کم وزن ہے لیکن جیو پولیٹیکل منظر پر ضرور اہم ہے۔

تاہم امریکا اور چین کے مابین تشکیل پاتی نئی سرد جنگ میں روایتی سرد جنگ کی طرح کسی ایک کیمپ کا انتخاب شاید مجبوری بن جائے۔ چین کے ساتھ روایتی دوستی، سی پیک اور بڑھتا ہوا معاشی انحصار امریکا کو مزید کھٹک سکتا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے لیے دو کشتیوں کا سوار رہنا مشکل تر ہو جائے گا۔ پاکستان کو جلد یا بہ دیر اس مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؛" آپ ہمارے ساتھ نہیں ہیں تو پھر اپ ہمارے مخالف ہیں"۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں اور " دوست ممالک " کے ڈیپازٹس سے قائم زرمبادلہ کے بھرم سے اپنی معاشی "سفید پوشی " قائم رکھنے والے ملک کے لیے یہ مشکل مرحلہ ہوگا!

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سے مکالمت صرف جوہری پروگرام اور پابندیوں سے متعلق، ایران
  • ایران امریکہ مذاکرات
  • فیکٹ چیک: محصولات کے بارے میں صدر ٹرمپ کے جھوٹے دعوے
  • تجارتی جنگ اور ہم
  • ٹرمپ کا اصل ہدف کمزور قوموں کے معدنی ذخائر پہ قبضہ ہے، علامہ جواد نقوی
  • صدر ٹرمپ امریکہ کو دوبارہ دولت مند بنانے کے اپنے مشن میں غیرمتزلزل ہیں .وائٹ ہاﺅس
  • امریکہ گلوبل انڈر گریجویٹ ایکسچینج پروگرام مکمل کریگا، پاکستانی طلبہ بھی شامل
  • کشمیر کا مسئلہ ہویا فلسطین جماعت اسلامی نے ہمیشہ آواز بلند کی؛ لیاقت بلوچ
  • سفارت کاری کو ایک حقیقی موقع دینا چاہتے ہیں، ایران
  • امریکہ نے پاکستانی نژاد شہری کو اندیا کے حوالے کر دیا