اسلام آباد:

پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن کے خلاف کل کتنے مقدمات درج ہیں، اس حوالے سے رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی گئی۔

ہائی کورٹ میں رؤف حسن کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جس میں وزارت داخلہ نے اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔

رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں رؤف حسن کے خلاف 6 مقدمات درج ہیں، جب کہ ایف آئی اے میں بھی رؤف حسن پر ایک مقدمہ درج ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی رپورٹس تاحال موصول نہیں ہوئیں۔ خیبرپختونخوا سے تفصیلات جلد مل جانی چاہییں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور ہر بار اسلام آباد آتے ہیں اور یہاں سے لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں۔

رؤف حسن کی جانب سے ان کی وکیل عائشہ خالد عدالت میں پیش ہوئیں۔ بعد ازاں عدالت نے بلوچستان، خیبرپختونخوا اور نیب سے مقدمات کی مکمل تفصیلات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت ملتوی کر دی۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: عدالت میں

پڑھیں:

پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چلتے مقدمات واپس لینا شروع کر دے گی تو عدلیہ کی آزاد ختم: جسٹس منصور

اسلام آباد (خصوصی رپورٹر+نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت میں جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چلتے ہوئے کیسز واپس لینا شروع کردے گی تو عدلیہ کی آزادی تو ختم ہوگئی۔ جہاں محسوس ہو کہ فیصلہ حکومت کیخلاف ہوسکتا ہے تو کیس ہی بینچ سے واپس لے لیا جائے۔ یہ درست نہیں۔ سپریم کورٹ میں بینچز اختیارات کیس مقرر نہ کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ سماعت نے کی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتائیں عدالتی حکم کے باوجود کیس مقرر کیوں نہ ہوا؟۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے کہا کہ یہ کیس آئینی بینچ کا تھا غلطی سے ریگولر بینچ میں لگ گیا۔ جسٹس عقیل نے استفسار کیا کہ اگر یہ غلطی تھی تو عرصے سے جاری تھی، اب ادراک کیسے ہوا؟۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ اس پر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا اجلاس کیسے ہوا؟ کیا کمیٹی نے خود اجلاس بلایا تھا یا آپ نے درخواست کی؟۔ رجسٹرار سپریم  کورٹ نے کہا کہ ہم نے کمیٹی کو نوٹ لکھا تھا۔ جسٹس منصور نے ریمارکس دیے کہ جب جوڈیشل آرڈر موجود تھا تو نوٹ کیوں لکھاگیا؟۔ ہمارا آرڈر بہت واضح تھا کہ کیس کس بینچ میں لگنا ہے، ہمیں وہ نوٹ دکھائیں جو آپ نے کمیٹی کو بھیجا تھا۔ رجسٹرار سپریم  کورٹ نے کمیٹی کو بھیجا گیا آفس نوٹ پیش کردیا۔ رجسٹرار آفس کا نوٹ رجسٹرار سپریم کورٹ کے مؤقف سے متضاد نکلا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اس نوٹ میں غلطی کا ادراک تو نہیں کیا گیا، اس میں آپ لکھ رہے ہیں 16 جنوری کو ایک آرڈر جاری ہوا، آپ اس آرڈر کی بنیاد پر نیا بینچ بنانے کا کہہ رہے ہیں، آرڈر میں تو ہم نے بتایا دیا تھا کہ کس بینچ میں لگنا ہے۔ رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی نے کیس آئینی بینچ کمیٹی کو بھجوایا، آئینی بینچز کمیٹی نے آئینی ترمیم کے مقدمات 27 جنوری کو مقرر کیے، ترمیم کے بعد جائزہ لیا کہ کون سے مقدمات بینچ میں مقرر ہوسکتے ہیں کون سے نہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ کیس شاید آپ سے غلطی سے رہ گیا لیکن بینچ میں آگیا تو کمیٹی کا کام ختم ہوگیا۔ یہ کیس آپ سے رہ گیا اور ہمارے سامنے آگیا۔ آخر اللہ تعالی نے بھی کوئی منصوبہ ڈیزائن کیا ہی ہوتا ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ ہمارے کیس سننے سے کم از کم آئینی ترمیم کا مقدمہ تو مقرر ہوا، پہلے تو شور ڈلا ہوا تھا لیکن ترمیم کا مقدمہ مقرر نہیں ہورہا تھا، ٹیکس کیس میں کون سا آئینی ترمیم کا جائزہ لیا جانا تھا جو مقدمہ واپس لے لیا۔ عدالت نے معاونت کیلئے اٹارنی جنرل کو طلب کرلیا۔ جسٹس منصور نے کہا کہ جو دستاویزات آپ پیش کر رہے ہیں یہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کا دفاع ہے، دفاع میں پیش کئے گئے موقف پر عدالت فیصلہ کرے گی کہ درست ہے یا نہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو مقدمہ واپس لینے کا اختیار کہاں سے آیا؟۔ رجسٹرار سپریم کورٹ نے بتایا کہ کمیٹی کیسز مقرر کر سکتی ہے تو واپس بھی لے سکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ تو آپ کو ہم بتائیں گے کہ اس کیس میں وہ لے سکتی ہے یا نہیں، مجھے پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا، کمیٹی کو بتا دیا تھا کہ جوڈیشل حکم جاری کر چکا، اجلاس میں آنا لازمی نہیں۔ ایک عدالتی حکم کو انتظامی سطح پر کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟۔ جسٹس عقیل عباسی نے ریمارکس دیے کہ ایک مقدمہ سننے سے کیوں اتنی پریشانی ہوگئی کہ کیس ہی منتقل کر دیا، پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا کام کیس پہلی بار مقرر ہونے سے پہلے تک ہے، جب کیس چل پڑے تو اس کے بعد کمیٹی کا کام ختم ہوجاتا ہے، کہا گیا کہ معاملہ ریسرچر کے پاس چلا گیا ہے۔ رجسٹرار نے عدالت کو بتایا کہ ریسرچر کا روز ذکر آرہا ہے، یہ ایک شخص نہیں پورا سیل ہے، سپریم کورٹ میں ریسرچ سیل موجود ہے، یہ آپ کے علم میں ہے۔ جسٹس منصور نے کہا کہ مجھے نہیں علم تھا آپ کے اندر ایک وکیل بھی ہے، ہم تو ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کو سننا چاہتے تھے جس نے یہ سب کیا، آپ انتظامی افسر ہیں، پتہ نہیں آپ کو اس معاملے میں کیوں لایا جارہا ہے۔ رجسٹرار نے کہا کہ ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل بیماری کے باعث رخصت پر ہیں، جب ایڈیشنل رجسٹرار واپس آئیں گے تو وہ بھی عدالت کو جواب دیں گے۔ کیا ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کے خلاف جا سکتی ہے؟۔ کیا ججز کمیٹی کسی بینچ سے زیر سماعت مقدمہ واپس لے سکتی ہے؟۔ عدالت نے قانونی سوال پر حامد خان اور منیر اے ملک کو معاون مقرر کر دیا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کو بھی معاونت کی ہدایت کر دی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ معاونت اس نکتے پر بھی کروں گا کہ توہین عدالت کیس میں کمیٹی کے فیصلوں کا جائزہ لیا جا سکتا یا نہیں، اس وقت عدالت کے سامنے صرف توہین عدالت کا کیس ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ رجسٹرار نے کمیٹی فیصلے کو اپنے دفاع میں پیش کیا ہے، وہ کمیٹی فیصلہ درست تھا یا نہیں ہم اس کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ بعدازاں عدالت نے سماعت آج تک ملتوی کردی۔نوائے وقت رپورٹ کے مطابق ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کسی ڈی لسٹ کر دیا گیا۔. رجسٹرار آفس کی جانب سے نوٹس جاری کر دیا گیا۔ رجسٹرار  آفس کے بعد آج سپریم کورٹ میں سماعت نہیں ہو سکے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی احتجاج کی فائنل کال پر مانیٹرنگ سیل کی رپورٹ میں انکشاف، کروڑوں روپے ملنے پر رہنما ورکرز کو نہ نکال سکے
  • ڈیرہ اسماعیل خان میں نئے سال کا پہلا پولیو کیس رپورٹ
  • امیر مقام سے  رحمت سلام خٹک  کی ملاقات،ن لیگ میں شمولت کی دعوت قبول کرلی
  • خیبرپختونخوا میں سب کے پاس اسلحہ ہے، کوئی لائسنس لیتا ہی نہیں ، عدالت عظمیٰ
  • لاہور ہائیکورٹ کے جج کی پی ٹی آئی رہنما کی درخواست پر سماعت سے معذرت
  • پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چلتے مقدمات واپس لینا شروع کر دے گی تو عدلیہ کی آزاد ختم: جسٹس منصور
  • نو مئی مقدمات ،6پی ٹی آئی رہنمائوں کی ضمانت کی توثیق
  • 9 مئی مقدمات، 6 پی ٹی آئی راہنماؤں کی عبوری ضمانت کی توثیق
  • نو مئی مقدمات میں 6 پی ٹی آئی رہنماؤں کی ضمانت کی توثیق