کشتی کا حادثہ اور انسانی اسمگلرز
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
انسانی اسمگلرز ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ حال ہی میں ایک کشتی جو کچھ پاکستانیوں کو لے کر یونان کے کسی جزیرے پر جارہی تھی کہ راستے میں کشتی خراب ہوگئی اور پھر اچھے روزگار کے خوابوں کو لئے بیشتر مسافر سمندر برد ہوگئے۔ یہ اپنی جگہ بہت بڑا المناک حادثہ ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے‘ بے روزگار نوجوانوں کو اچھی نوکری کی لالچ دیکر پاکستان سے باہر لے جانے کے لئے پانچ‘ دس لاکھ روپے معاوضہ لیتے ہی بلکہ منزل سے پہلے ہی سمندر کی خوفناک موجوں کے حوالے بھی کردیتے ہیں۔ ہرچند کہ یہ غیر قانونی غیر اخلاقی سلسلہ ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ حکومت کے اہلکار ایسے عناصر کی تادیب نہیں کرتے ہیں‘ بلکہ صرف نگاہ کرکے بلواسطہ ان کی اس غیر قانونی کام میں معاونت بھی کرتے ہیں۔ اس طرح جہاں انسانی جانیں بغیرکسی وجہ کے تلف ہوجاتی ہیں وہیں پاکستان کی بدنامی بھی ہوتی ہے۔ لیکن ایف آئی اے یا دیگر ادارے جواس غیر قانونی غیر اخلاقی کام کا سدباب کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں وہ بھی ’’ حرکت‘‘ میں نہیں آتے ہیں لیکن جب حادثہ ہوجاتاہے تب یہ جاگتے ہیں وہ بھی حکومت وقت کی ناراصگی کی وجہ سے ورنہ انہیں گرفتار کرنے والے خود اس بزنس میں مبینہ طور پر ملوث پائے گئے ہیں۔
چنانچہ اب وقت آگیاہے کہ ایسے عناصر کی سخت ترین انداز میں تادیب کی جائے۔ اور انہیں قرار واقعی سزا دی جائے‘ قانون کے ذریعے تاکہ دوسروں کو بھی اس ضمن میں عبرت حاصل ہوسکے۔ تاہم پاکستان میں انسانی اسمگلرز کا یہ دھندا ایک طویل عرصے سے جاری ہے۔ اس دھندے کا اصل مرکز پنجاب کے بعض گائوں ہیں جہاں یہ لوگ گائوں کے سیدھا سادھے لوگوں کو اچھے روزگار اور معقول پیسوں کا جھانسہ دے کر غیر قانونی طور پر باہر بھیجنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان پاکستانی انسانی اسمگلروں کا کام صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے بلکہ ان کا نیٹ ورک باہر بھی ہے۔ یونان کے بعض بدمعاش عناصر بعض پاکستانیوں کے ساتھ مبینہ طور پر مل کر یہ کام ایک عرصہ دراز سے کررہے ہیں۔ جب پکڑے جاتے ہیں اور اخبارات بھی خبریں شائع ہوتی ہیں تو یہ عناظر کچھ عرصے کے لئے زیر زمین چلے جاتے ہیں‘ لیکن جیسے ہی حالات ان کے موافق ہوجاتے ہیں یہ دوبارہ متحرک اور فعال ہوکر یہ دھندا شروع کردیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کروڑوں روپے کا لین دین ہوتاہے۔ بلکہ اتنی بڑی رقم انسانی اسمگلروں کو دینے کے باوجود نہ تو نوکری کا کوئی معقول انتظام ہوتاہے اور نہ ہی یہ ضمانت دی جاسکتی ہے کہ انہیں صحیح سلامت منزل مقصود تک پہنچادیاجائے گا۔ ان تمام غیر قانونی کاموں میں حکومت کے اپنے کچھ کارندے شامل ہیں جن کی مدد اور تعاون کے بغیر یہ کام انجام نہیں دیاجاسکتا ۔ ہرچند کہ حکومت ایسے غلط کاموں کو روکنے کے سلسلے میں کام کررہی ہے‘ لیکن اس کے نتائج نہیں نکل سکے۔ انسانی اسمگلنگ جاری ہے۔ غریب آدمی نوکری کی تلاش میں مسلسل سمندر بورد ہورہے ہیں۔ لیکن اس المیے کے باوجود یہ غیر قانونی کام جاری ہے۔ جس میں بقول شیخے حکومت کے بعض ارکان بھی شامل ہیں۔
حالانکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ حکومت نے مین پاور ایکسپورٹ کے متعلق ایک ادارہ کام کررہاہے‘ جبکہ بعض باشعور افراد اپنے ہی ادارے کے ذریعے باہر نوکریوں کی تلاش میں جاتے ہیں۔ جہاں انہیں باعزت نوکری مل جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان میں انسانی اسمگلروں سے متعلق کام کرنے والے نہ صرف یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں بلکہ پکڑے جانے کی صورت میں اور جیل کی سزا کاٹنے کے بعد یہ عناصر دوبارہ اس ہی کام میں شامل ہوکر سادا مزاج لوگوں کو لوٹنے سے دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے۔ جس میں مبینہ طور پر ایف آئی اے کے بعض افسران بھی شامل ہیں۔ایسے تمام عناصر کو جو یہ غیر قانونی کام کررہے ہیں‘ انہیں نہ تو پاکستان کی عزت کاخیال ہے اور نہ ہی اپنی ۔ انہیں صرف پیسے سے سروکار ہے۔
دراصل حکومت پاکستان کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے انسانی اسمگلرز کا دھندا جاری ہے۔ ورنہ اگر حکومت اس ضمن میں سخت تادیبی کارروائی اختیار کرکے اور ملزمان کو سخت سزائیں دے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ کیونکہ قانون کی گرفت سے بہت سے برے کام بھی ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ تاہم اس سلسلے میں حکومت کو انسانی اسمگلرز کے خلاف سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اور سزائیں بھی دینے کی ۔لیکن ایسا نظرنہیں آتاہے۔ کیونکہ انسانی اسمگلرز مالی طور پر طاقتور ہوتے ہیں جو حکومت کے متعلقہ محکموں کو رشوت دیکر اس ناجائز کام کو جاری وساری رکھتے ہیں۔
دراصل پاکستان کو انسانی اسمگلنگ روکنے کے لئے ملک کے اندر زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری لانی ہوگی جس کی مدد سے روزگار کے ذرائع پیدا ہوسکیں۔ انسانی اسمگلنگ صرف ان ممالک میں کامیاب نظر آتی ہے جہاں دولت کی تقسیم انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ اور روزگار کے ذرائع بھی کم ہیں اس لئے پاکستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیاں وضع کرے جس کی روشنی میں سرمایہ دار ملک کے اندرسرمایہ کاری کرکے روزگار کے ذریعے پیدا کرکے وہیں کی فاضل مین پاور کوبامقصد کاموں میں استعمال کرکے انہیں مالی ومعاشی طور پر خوشحال اور خودکفیل بناسکتی ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں بے روزگارلوگوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ صرف حکومت کی جانب ایسے پالیسیوں تشکیل دینی چاہیے جس کی مدد سے سرمایہ کاری وافر مقدار میں ممکن ہوسکے اور روزگار بھی بہ آسانی میسر آسکے۔ بعض ترقی پذیر ملکوں نے حال ہی میں ایسی پالیسیاں بنائی ہیں جس کی وجہ سے بے روزگار ی ختم ہوئی ہے اور سرمائے کااستعمال بھی عوام دوست بنیاد پر استعمال ہوا ہے۔ عوام کی اکثریت کو بے روزگار رکھ کر تو ملک ترقی کرسکتاہے اور نہ ہی معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ ذرا سوچیئے!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انسانی اسمگلرز غیر قانونی کام یہ غیر قانونی پاکستان کی روزگار کے بے روزگار حکومت کے کرتے ہیں جاری ہے ہے اور کے بعض
پڑھیں:
مراکش کشتی حادثہ نہیں ، قتل عام تھا، تشدد اور ڈبوکر ماراگیا : زندہ بچ جانیوالوں کے پاکستانی ٹیم کو بیانات
اسلام آباد + لاہور +گوجرانوالہ (نوائے وقت رپورٹ+نمائندہ خصوصی) مراکش کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کے ابتدائی بیانات ریکارڈ کرلیے گئے، سمگلروں نے تاوان دینے والوں کو چھوڑ دیا اور نہ دینے والوں کو ہتھوڑے مار کر سمندر میں پھینک دیا۔ بیانات پاکستان سے گئی چار رکنی ٹیم نے ریکارڈ کیے جس میں متاثرین نے بتایا کہ مراکش میں کشتی حادثہ نہیں ہوا بلکہ قتل عام ہوا، انسانی سمگلروں نے کشتی کھلے سمندر میں جان بوجھ کر کئی دن روکے رکھی اور تاوان مانگا، تاوان دینے والے لوگوں کو چھوڑ دیا گیا اور نہ دینے پر بہت سے مسافروں کو ہتھوڑے مارکر زخمی کیا اور سمندر میں پھینک دیا۔ متاثرین کے مطابق کشتی میں سوار بیشتر لوگ سرد موسم اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے، کشتی میں موجود افراد کو کھانے پینے کی قلت کا بھی سامنا تھا، کشتی انٹرنیشنل ہیومن ٹریفکنگ ریکٹ کی نگرانی میں تھی، اس ریکٹ میں سینیگال، موریطانیہ اور مراکش کے سمگلر شامل ہیں۔ وزارت خارجہ اور مراکش میں پاکستانی سفارت خانے نے کشتی حادثے میں ایک اور پاکستانی کے بچ جانے کی تصدیق کردی۔ بچ جانے والے پاکستانیوں کی تصدیق شدہ تعداد 22 ہو گئی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق زندہ بچ جانے والے پاکستانی کا نام محمد عدیل ولد محمد رشید ہے۔ گوجرانوالہ کے نواحی گاؤں بھٹی بھنگو کے دو نوجوان بھائی بھی لقمہ اجل بن گئے جنہوں نے سپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دیے تھے۔ 21 سالہ شہریار اور 22 سالہ افتخار 4 ماہ قبل سپین جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے۔ ایجنٹ طارق، فائزہ اور عامر گورایہ نے پیسے وصول کیے۔ جاں بحق نوجوانوں کے والد نے وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب سے مدد کی اپیل کی۔ کراچی سے آئی این پی کے مطابق دو سال پہلے یونان کشتی حادثے میں ملوث ایف آئی اے افسروں کیخلاف محکمانہ کارروائی شروع کر دی گئی۔ کراچی ایئرپورٹ پر تعینات تین ایف آئی اے افسران کو چارج شیٹ جاری کردی گئی۔ تین رکنی کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔ چارج شیٹ میں ڈپٹی ڈائر یکٹر علی مراد، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز راشد بھٹی اور وسیع اللہ شامل ہیں۔ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے مراکش کشتی حادثہ میں ملوث انسانی سمگلر انصر کو گرفتار کر لیا۔ ملزم نے متاثرہ کو بیرون ملک بھجوانے کیلئے اہلخانہ سے 53لاکھ 50ہزار روپے ہتھیائے۔انٹرپول نے لیبیا‘ یونان اور موریطانیہ میں روپوش 15 انسانی سمگلرز کے ریڈ نوٹسز جاری کر دیئے۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق ٹیمیں ملزمان کی گرفتاری کیلئے ان ممالک میں جائیں گی۔ ملزمان یونان‘ لیبیا اور مراکش کشتی حادثے میں ملوث ہیں۔