Daily Ausaf:
2025-04-16@11:24:29 GMT

گستاخوں کی ضمانتیں،آرمی چیف و چیف جسٹس نوٹس لیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل نے جسٹس اقبال کلہوڑو کی ہدایت پر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ سر!چونکہ جن ملزمان کی جانب سے دائر درخواست ضمانتیں آج سماعت کے لئے مقرر ہیں، وہ تمام ملزمان کسی ایک مقدمے میں نہیں بلکہ مختلف مقدمات میں الگ الگ نامزد ہیں ،اس لئے گزشتہ تاریخ سماعت پر عدالت نے ہمیں حکم دیا تھا کہ ہم ہر مقدمے کے متعلق الگ الگ چارٹ بنا کر پیش رفت رپورٹ جمع کرائیں۔اس حکم کی Compliance ہم نے کر دی ہے۔ جبکہ گزشتہ تاریخ سماعت پر ہی جو دوسرا حکم ہمیں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ پر جواب جمع کرانے کے لئے دیا گیا تھا،اس کی Compliance کرنے کے لئے ہمیں کچھ وقت چاہیے۔اس پر جسٹس اقبال کلہوڑو غصے میں آگئے اور انہوں نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کون ہیں؟کیا میں نے آپ کو بولنے کی اجازت دی تھی جو آپ بول رہے ہیں؟میں ابھی آپ کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر جیل بھیج سکتا ہوں،ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی کے وکیل نے جواب دیا کہ سر!آپ نے میری طرف ہی دیکھ کر کہا تھا کہ شروع کریں اور جو آرڈر گزشتہ تاریخ سماعت پر ہمیں کیا گیا تھا، میں اس کی Compliance ہی عدالت کو بتا رہا ہوں۔اس پر جسٹس اقبال کلہوڑو نے ریمارکس دیئے کہ میں نے تو وہ آرڈر نہیں کیا تھا کہ جس کی Compliance آپ مجھے بتا رہے ہیں۔میں آپ کو ابھی معطل بھی کروا سکتا ہوں۔جس کے جواب میں ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سر!آپ نے آرڈر نہیں دیا تھا لیکن اس کورٹ کا آرڈر تھا۔میں معذرت چاہتا ہوں۔اس کے بعد جسٹس اقبال کلہوڑو نے سوال کیا کہ مدعی مقدمہ کون ہے؟جس پر ایف آئی آر نمبر 14/24کا مدعی روسٹرم پر آیا۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے مدعی مقدمہ سے مخاطب ہوتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ’’یا تمہیں کلمے بھی آتے ہیں۔میں ابھی اگر تم سے کلمے سنوں تو تمہیں وہ بھی نہیں آتے ہوں گے۔‘‘ تمہیں کیا پتا کہ گستاخی کیا ہوتی ہے؟تم نے اس کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔(اس موقع پر درخواست گزار یہ کہنا ضروری سمجھتا ہے کہ جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے مدعی مقدمہ کے متعلق مذکورہ ریمارکس ہتک آمیز ہیں۔ان کو یہ حق کس نے دیا ہے کہ وہ حج کے منصب پر بیٹھ کر یہ دیکھے کہ کس کو کلمے آتے ہیں اور کس کو نہیں؟اس بات کا اندراج مقدمہ کرانے سے کیا تعلق ہے؟کیا وہ اپنے آپ کو کامل مسلمان سمجھتے ہیں؟جس شخص سے وہ کلمے آنے یا نہ آنے کا سوال کر رہے تھے،اس شخص کے چہرے پر سنت رسول ﷺ داڑھی بھی سجی ہوئی تھی۔اس کے حلیے سے واضح تھا کہ کم سے کم اسے دین اسلام کی بنیادی معلومات ہیں۔جبکہ اس کے برعکس جسٹس اقبال کے متعلق سوالات اٹھتے ہیں۔)
مدعیان مقدمہ کے وکیل میر سیف اللہ نے اس موقع پر مذکورہ جج سے استدعا کی کہ میں نے آج ہی وکالت نامہ جمع کرایا ہے۔میرے پاس ملزمان کی جانب سے دائر کی گئی پٹیشن کی کاپی بھی نہیں ہے۔اس لئے ہمیں ایک تاریخ دے دیں۔تاکہ تیاری کر کے دلائل پیش کر سکیں۔اس پر مذکورہ جج نے ریمارکس دیئے کہ میں کوئی تاریخ نہیں دوں گا۔آج ہی فیصلہ کروں گا۔پھر انہوں نے یکطرفہ طور پر دس گستاخوں کی جانب سے دائر آٹھ درخواست ضمانت میں گستاخوں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا میں سے صرف ایک وکیل تنویر احمد کے یکطرفہ دلائل سننے کے بعد مذکورہ دس گستاخوں کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دے دیا۔اسی طرح گزشتہ روز بھی جب مزید دو گستاخوں کی جانب سے دائر درخواست ضمانت بعد از گرفتاری کی جسٹس محمد اقبال کلہوڑو کے روبرو سماعت ہوئی تو سماعت کے آغاز پر مدعی مقدمہ حافظ احتشام احمد کے وکیل سردار عبد الحمید ایڈووکیٹ نے بینچ پر اعتراض کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ مدعی نے آپ کے خلاف مس کنڈکٹ کا مرتکب ہونے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھا ہے۔لہٰذا انصاف کا تقاضہ ہے کہ آپ ان درخواستوں کو کسی دوسرے بینچ میں منتقل کر دیں۔جسٹس ایم اقبال کلہوڑو نے مذکورہ استدعا کو مسترد کرتے ہوئے گستاخ ملزمان کے وکلا کو دلائل پیش کرنے کی ہدایت کر دی۔جس کے بعد مذکورہ ملزمان کے وکلا ذیشان احمد قاضی اور فرزانہ نے مختصر دلائل دیئے۔ بعدازاں مدعی مقدمہ کے وکیل نے دلائل شروع کئے تو اس دوران ہی فاضل جج نے مختصر فیصلہ لکھوانا شروع کر دیا اور مذکورہ ملزمان کی درخواست ضمانت کو منظور کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کر دیا۔واضح رہے کہ دوران سماعت ایف آئی اے کی طرف سے کوئی بھی عدالت کے روبرو پیش نہیں ہوا اور نہ ہی عدالت کے رو برو مذکورہ ملزمان کے خلاف مقدمے کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔
متذکرہ بالا تمام حقائق و واقعات پڑھ کر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذکورہ حساس ترین معاملے میں آئین،قانون اور انصاف کے تقاضوں کا قتل کیا جارہا ہے۔بالخصوص مذکورہ ریفرنس کے مذکورہ متن کو پڑھنے کے بعد اس خاکسار کے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا ہے کہ کیا کسی عدالت کی عزت و وقار مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کی عزت و ناموس سے بڑھ کر ہے؟کیا توہین عدالت کا جرم توہین رسالت کے جرم سے سنگین ہے؟ذرہ سی بات ناگوار گزرنے پر جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے وکیل کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے جیل بھیجنے کی دھمکی کھلی عدالت میں دی۔صرف یہ ہی نہیں بلکہ اسی جسٹس محمد اقبال کلہوڑو نے 16 جنوری کو احتشام اللہ خان نامی ایک وکیل کو اپنے سامنے صرف اونچا بولنے پر توہین عدالت کا نوٹس جاری کرکے چند منٹوں میں تین ماہ قید کی سزا بھی سنا دی تھی۔جو جج اپنی ذات،اپنی عدالت کے حوالے سے اس قدر حساس ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنی عدالت کی ذرہ سی بھی توہین کے مرتکب شخص کو بغیر صفائی کا موقع پیش کئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج دیتا ہے،،وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود مقدس ہستیوں بالخصوص حضور ﷺ کے بدترین گستاخوں کو یک جنبش قلم ضمانتیں دے کر جیل کی سلاخوں سے آزاد کروا رہا ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جانب سے دائر توہین عدالت کا درخواست ضمانت گستاخوں کی کے وکیل نے کرتے ہوئے کی Compliance تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے

ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے WhatsAppFacebookTwitter 0 14 April, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)سپریم کورٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سینیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ہائی کورٹ کے تین ججز، اٹارنی جنرل پاکستان اور جوڈیشل کمیشن کو نوٹسز جاری کردیے۔
سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے تبادلے اور سنیارٹی سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس معاملے پر ہمارے سامنے سات درخواستیں آئی ہیں، سنیارٹی کیس میں پانچوں جج بھی ہمارے سامنے درخواست لائے، کیوں نہ ہم ججز کی درخواست کو ہی پہلے سنیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکیل منیر اے ملک نے کہا کہ سینیر ہیں پہلے ان کو سن لیں، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رائٹ آف آرڈیننس منیر اے ملک کو دیا جاتا ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے ملک نے دلائل شروع کیے اور مقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ٹرانسفر ہونے والے ججز کے معاملے کو عدلیہ کی آزادی کے آرٹیکل 175 کے ساتھ دیکھنا چاہیے، ججز ٹرانسفر، فیڈرل ازم اور انتظامی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق دلائل دونگا۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ججز ٹرانسفر آرٹیکل 200 کے تحت ہوئی، بہتر ہے دلائل کا آغاز بھی یہی سے کریں، ہم ججز کو سول سرونٹ کے طور پر تو نہیں دیکھ سکتے۔منیر اے ملک نے کہا کہ اصغر اعوان کیس میں سینارٹی کے اصول کو سول سرونٹ کے طور اجاگر کیا گیا۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک جج کا ٹرانسفر چار درجات پر رضامندی کے اظہار کے بعد ہوتا ہے، جس جج نے ٹرانسفر ہونا ہوتا ہے اس کی رضامندی، جس ہائی کورٹ سے ٹرانسفر ہونا ہوتی ہے اس کے چیف جسٹس سے رضامندی معلوم کی جاتی ہے، پھر جس ہائی کورٹ میں آنا ہوتا ہے اس ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی لی جاتی ہے، آخر میں چیف جسٹس پاکستان کی رضامندی کے بعد صدر مملکت ٹرانسفر کا نوٹیفکیشن جاری کرتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ہائی کورٹ کے پانچ ججز کے وکیل منیر اے سے استفسار کیا کہ آپ کو اعتراض ٹرانسفر پر ہے، یا سینارٹی پر، منیر اے ملک نے جواب دیا کہ ہمارا اعتراض دونوں پر ہے۔دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر اور پانچ ججوں کے وکیل منیر اے ملک کے درمیان دلچسپ مکالمہ ہوا۔
وکیل نے کہا کہ جج کا ٹرانسفر عارضی طور پر ہو سکتا ہے، جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ ایسا کہیں زکر نہیں ہے، صدر مملکت نے نوٹیفکیشن میں اضافی مراعات کا بھی کہیں زکر نہیں کیا، یہاں عدم توازن مراعات کا معاملہ نہیں ہے، وہ الفاظ جو آئین کا حصہ نہیں ہیں وہ عدالتی فیصلے کے زریعے آئین میں شامل نہیں کر سکتے۔جسٹس محمد علی مظہر نے مزید کہا کہ آپ ہم سے نئے الفاظ آئین میں شامل کروانے کی بات کر رہے ہیں، آرٹیکل 62 ون ایف نااہلی کیس میں آئین میں نئے الفاظ شامل کیے گئے، آئین میں نئے الفاظ شامل کرتے ہوئے نااہلی تاحیات کر دی گئی، اس فیصلے پر شدید تنقید ہوئی جسے نظرثانی میں تبدیل کیا گیا۔
منیر اے ملک نے کہا میں آئین میں نئے الفاظ شامل کرنے کی بات نہیں کر رہا، اس کے ساتھ ہی عدالت عظمی نے ہائی کورٹ کے 3 ججز جسٹس سرفراز ڈوگر، جسٹس خادم سومرو اور جسٹس محمد آصف کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے سماعت 17اپریل تک ملتوی کردی۔عدالت عظمی نے ججز کو کام کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کر دی، عدالت نے اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان کو بھی نوٹس جاری کر دیا، مزید ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کے علاوہ چاروں ایڈووکیٹ جنرلز کو بھی نوٹس کردیے۔سپریم کورٹ نے جوڈیشل کمیشن پاکستان کو بھی نوٹس جاری کیا، چاروں ہائی کورٹس کے رجسٹرار آفسز کو بھی نوٹس جاری کیے گئے، جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن الگ سے وکیل کرنا چاہیے تو کر سکتا ہے۔
آئینی بینچ نے جوڈیشل کمیشن کو ہائی کورٹس کے مستقل چیف جسٹس صاحبان تعینات کرنے سے روکنے کی استدعا مسترد کردی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس کب ہے، منیر اے ملک نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس 18 اپریل کو بلایا گیا ہے، ٹھیک ہے ہم کیس سترہ اپریل کو سنیں گے۔آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کی نئی سینارٹی لسٹ معطل کرنے کی استدعا مسترد کی، عدالت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ٹرانسفر ہونے والے ججز کو کام سے روکنے کی استدعا بھی مسترد کردی۔جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا قیام ایکٹ کے ذریعے ہوا ہے، کیا ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کا اسکوپ موجود ہے؟۔
منیر اے ملک نے موقف اپنایا کہ ایکٹ میں ججز کو تبادلہ کر کے لانے کی گنجائش نہیں ہے، ایکٹ میں اسلام آباد ہائیکورٹ میں صرف نئے ججز کی تعیناتی کا زکر ہے۔جسٹس نعیم اختر افغان نے استفسار کیا کہ جب ججز کی آسامیاں خالی تھیں تو ٹرانسفر کے بجائے انہی صوبوں سے نئے جج کیوں تعینات نہ کئے گئے؟ کیا حلف میں زکر ہوتا ہے کہ کون سی ہائیکورٹ کا حلف اٹھا رہے ہیں؟۔
منیر اے ملک نے استدلال کیا کہ حلف کے ڈرافٹ میں صوبے کا زکر ہوتا ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا حلف اٹھاتے اسلام آباد کیپیٹل ٹیراٹری کاذکر آتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ سنیارٹی ہماری اس حلف سے گنی جاتی ہے جو ہم نے بطور عارضی جج لیا ہوتا ہے، دیکھنا یہ ہے اگر دوبارہ حلف ہو بھی تو کیا سنیارٹی سابقہ حلف سے نہیں چلے گی؟ نئے حلف سے سنیارٹی گنی جائے تو تبادلے سے پہلے والی سروس تو صفر ہوجائے گی۔منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ اسی لئے آئین میں کہا گیا ہے جج کو اس کی مرضی لیکر ہی ٹرانسفر کیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • گمشدہ شہری کے نمبر سے نامعلوم شخص کی کال آئی کہ درخواست واپس لے لو تو اسے چھوڑ دینگے: عدالت میں وکیل کا بیان
  • لاپتہ افراد کی عدم بازیابی: آئی جی، ڈی جی رینجرز سندھ کو نوٹس جاری
  • سپریم کورٹ: سپر ٹیکس کا ایک روپیہ بھی بے گھر افراد کی بحالی پر خرچ نہیں ہوا، وکیل مخدوم علی خان کا دعویٰ
  • ججز ٹرانسفر کیس، قائم مقام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کو کام سے روکنے کی استدعا مسترد، 3ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکا میں وکیل کا پاکستان آنے کا فیصلہ
  • 9 مئی کیسز، اے ٹی سی کو 4 ماہ میں ٹرائل مکمل کرنے کی ہدایت
  • عافیہ صدیقی کے امریکہ میں موجود وکیل کا پاکستان آنے کا فیصلہ
  • ججز تبادلہ، سنیارٹی کیس: سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے 3 ججز کو نوٹس جاری کردیے
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکا میں وکیل کلائیو اسمتھ نے پاکستان آنے کا فیصلہ کر لیا
  • ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے امریکا میں وکیل کلائیو اسمتھ کا پاکستان آنے کا فیصلہ