انسانی اسمگلروں کو سخت سزائیں دی جائیں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
انسانی سمگلنگ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کا شکار عام طور پر وہ افراد بنتے ہیں جو بہتر روزگار، معیاری زندگی، یا محض ایک نئے آغاز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مسئلہ خاص طور پر نوجوانوں میں انتہائی بڑھ گیا ہے، جو غیر قانونی طریقوں سے یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لیے ایجنٹوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ دو بھائی ہیں، شہریار اور افتخار، جنہوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دیے اور بالآخر مراکش میں ہونے والے کشتی حادثے میں اپنی جان گنوا دی۔انسانی سمگلنگ ایک عالمی سطح پر موجود سنگین جرم ہے جو افراد کی زندگیوں کو درگور کر دیتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی کاروبار ہے جس میں ملوث افراد لوگوں کو دھوکہ دہی اور جبر کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرتے ہیں۔ اس کا آغاز 19ویں صدی میں ہوا جب غلاموں کی تجارت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی جڑیں پکڑیں۔ تاہم 20ویں صدی کے آخر میں اس میں تبدیلی آئی اور یہ جنسی استحصال، محنت کے استحصال اور دوسرے غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔
آج کل انسانی سمگلنگ کا مقصد صرف غلامی نہیں بلکہ انسانوں کا غیر قانونی کاروبار کرنا اور انہیں غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کے لیے مجبور کرنا ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہیں، لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں، جو انہیں انسانی سمگلروں کے جال میں پھنسنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہریار اور افتخار کی کہانی اسی حقیقت کی غماز ہے کہ کس طرح ایجنٹوں کی دھوکہ دہی نے ان کی زندگیوں کو بے معنی بنا دیا۔شہریار اور افتخار کا معاملہ بہت سارے ایسے افراد کی کہانی کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں بہتر روزگار کی تلاش میں غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 21 سالہ شہریار اور 22 سالہ افتخار نے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان دونوں بھائیوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دئیے، لیکن اس کا نتیجہ وہ نہ تھا جو انہوں نے سوچا تھا۔ ایجنٹوں نے ان سے رقم وصول کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو وعدے کئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے اور اس کے بعد انہیں غیر قانونی طریقے سے اسپین لے جانے کی کوشش کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ان ایجنٹوں کی دھوکہ دہی اور ان کے غیر قانونی طریقوں کا شکار ہونے والے افراد میں صرف شہریار اور افتخار نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے سے لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ایجنٹ جو لوگوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں داخلے کی امید دلاتے ہیں، وہ حقیقت میں ان لوگوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کا مقصد صرف پیسہ بٹورنا ہوتا ہے اور انہیں کسی کی زندگی یا سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔شہریار اور افتخار کے والد کے مطابق ان کے بیٹے قانونی طریقوں سے ایجنٹوں کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کا سفر ایک بڑی مصیبت میں تبدیل ہو جائے گا۔ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دینے کے باوجود ان کے بیٹے نہ صرف غیر قانونی راستے اختیار کر رہے تھے، بلکہ ان کی زندگی خطرے میں تھی۔مراکش کے ساحل پر ہونے والا کشتی حادثہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ غیر قانونی سفر کے نتیجے میں کس طرح انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو سکتی ہیں۔ شہریار اور افتخار کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں نے تصاویر کے ذریعے انہیں اس سانحے کے بارے میں بتایا۔ یہ حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی طریقہ نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔انسانی سمگلنگ صرف ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک قومی اور بین الاقوامی سطح کا سنگین جرم ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مؤثر قوانین اور اقدامات کریں۔ پاکستان میں اس وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کرے اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کرے جو لوگوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو عوام میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس خطرے سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کے لئے سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ لوگ غیر قانونی راستوں کو ترک کر دیں۔
عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے خلاف کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ سنگین بنا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ممالک کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اوراس کے لیے مشترکہ اقدامات کی انتہائی ضرورت ہے۔ عالمی تنظیمیں جیسے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو مدد فراہم کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ انسانی ا سمگلنگ ایک قومی بحران بن چکا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنے قوانین کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے اور اس کی روک تھام کے لیے مخصوص پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔انسانی سمگلنگ کے مسئلے کا حل آسان نہیں، لیکن اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہریار اور افتخار جیسے نوجوانوں کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی سمگلنگ کا کاروبار کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں اور اس کے خلاف مضبوط قانون سازی کریں تاکہ اس قسم کے حادثات کو روکا جا سکے۔ ایجنٹوں کی دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو اس خطرے سے بچایا جا سکے۔شہر یار اور افتخار نے جو 80 لاکھ روپے ایجنٹوں کو دیئے ان پیسوں سے پاکستان میں بہترین کاروبار ہو سکتا تھااور یورپ سے زیادہ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔معلوم نہیں ان لوگوں کی مت ماری جاتی ہے یا پھر تقدیر ان کے دماغوں کو سن کر دیتی ہے بہر حال جہاں ہم انسانی اسمگلروں کے لئے سخت سے سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتے ہیں وہاں ہم اللہ تبارک تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ ہر کسی کی اولاد کو بری تقدیروں سے محفوظ فرمائے۔آمین
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: شہریار اور افتخار انسانی سمگلنگ کے بین الاقوامی عالمی سطح پر کرنے کے لیے ایجنٹوں کی دھوکہ دہی لاکھ روپے اس مسئلے ضرورت ہے کی زندگی لوگوں کو کرتے ہیں کے خلاف جانے کے اور اس اور ان اس بات
پڑھیں:
سمگلنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں کاگینگ گرفتار ،کروڑوں مالیت کی منشیات برآمد
لاہور(نامہ نگار)برکی پولیس نے منشیات کی سمگلنگ میں ملوث پولیس اہلکاروں پر مشتمل گینگ گرفتار کرکے کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد کر لی ہے پولیس ذرائع کے مطابق برکی پولیس نے خفیہ اطلاع پر کارروائی کے دوران منشیات فروشی میں ملوث کانسٹیبل طارق اورعثمان کوساتھی سمیت گرفتار کرکے ملزمان کے قبضے سے2کروڑ روپے مالیت کی ساڑھے6کلوسے زائد ہیروئن،ڈرون کیمرہ،نقدی، ویٹ مشین اور دیگر اشیاء برآمد کر کے مقدمہ درج کر لیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کا مفرور ساتھی شعیب بھی پولیس کانسٹیبل ہے۔ ملزم پولیس کانسٹیبل ڈولفن فورس اور کینٹ سرکل میں تعینات ہیں۔ گرفتارہونیوالے پولیس کانسٹیبل لاہورکے ایک پولیس افسرکے بھائی ہیں جویونیفارم وسرکاری وسائل استعمال کرکے منشیات سمگلنگ کرتے تھے۔ دوران تفتیش ملزمان نے پشاور سے بذریعہ آن لائن منشیات منگوا کر مختلف اضلاع میں سپلائی دینے کا اعتراف کیاہے۔ ایس پی کینٹ کا کہنا ہے کہ کانسٹیبل طارق شمالی چھاؤنی میں تعینات ہے جبکہ کانسٹیبل عثمان چند ماہ قبل ڈولفن فورس سے برخاست ہوا تھا۔