Daily Ausaf:
2025-04-13@15:12:29 GMT

انسانی اسمگلروں کو سخت سزائیں دی جائیں

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

انسانی سمگلنگ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس کا شکار عام طور پر وہ افراد بنتے ہیں جو بہتر روزگار، معیاری زندگی، یا محض ایک نئے آغاز کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ پاکستان میں یہ مسئلہ خاص طور پر نوجوانوں میں انتہائی بڑھ گیا ہے، جو غیر قانونی طریقوں سے یورپ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے لیے ایجنٹوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال وہ دو بھائی ہیں، شہریار اور افتخار، جنہوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دیے اور بالآخر مراکش میں ہونے والے کشتی حادثے میں اپنی جان گنوا دی۔انسانی سمگلنگ ایک عالمی سطح پر موجود سنگین جرم ہے جو افراد کی زندگیوں کو درگور کر دیتا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی کاروبار ہے جس میں ملوث افراد لوگوں کو دھوکہ دہی اور جبر کے ذریعے ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرتے ہیں۔ اس کا آغاز 19ویں صدی میں ہوا جب غلاموں کی تجارت نے بین الاقوامی سطح پر اپنی جڑیں پکڑیں۔ تاہم 20ویں صدی کے آخر میں اس میں تبدیلی آئی اور یہ جنسی استحصال، محنت کے استحصال اور دوسرے غیر قانونی مقاصد کے لیے استعمال ہونے لگا۔
آج کل انسانی سمگلنگ کا مقصد صرف غلامی نہیں بلکہ انسانوں کا غیر قانونی کاروبار کرنا اور انہیں غیر محفوظ حالات میں کام کرنے کے لیے مجبور کرنا ہوتا ہے۔پاکستان جیسے ممالک میں جہاں غربت اور بے روزگاری عروج پر ہیں، لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں غیر قانونی طریقوں کا سہارا لیتے ہیں، جو انہیں انسانی سمگلروں کے جال میں پھنسنے پر مجبور کرتا ہے۔ شہریار اور افتخار کی کہانی اسی حقیقت کی غماز ہے کہ کس طرح ایجنٹوں کی دھوکہ دہی نے ان کی زندگیوں کو بے معنی بنا دیا۔شہریار اور افتخار کا معاملہ بہت سارے ایسے افراد کی کہانی کی عکاسی کرتا ہے جو دنیا کے مختلف حصوں میں بہتر روزگار کی تلاش میں غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ 21 سالہ شہریار اور 22 سالہ افتخار نے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے ایجنٹوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان دونوں بھائیوں نے اسپین جانے کے لیے ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دئیے، لیکن اس کا نتیجہ وہ نہ تھا جو انہوں نے سوچا تھا۔ ایجنٹوں نے ان سے رقم وصول کرنے کے بعد ان کے ساتھ جو وعدے کئے تھے، وہ پورے نہیں ہوئے اور اس کے بعد انہیں غیر قانونی طریقے سے اسپین لے جانے کی کوشش کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ان ایجنٹوں کی دھوکہ دہی اور ان کے غیر قانونی طریقوں کا شکار ہونے والے افراد میں صرف شہریار اور افتخار نہیں ہیں، بلکہ اس مسئلے سے لاکھوں افراد متاثر ہو چکے ہیں۔ ایجنٹ جو لوگوں کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں داخلے کی امید دلاتے ہیں، وہ حقیقت میں ان لوگوں کو شدید مشکلات میں ڈال دیتے ہیں۔ ان ایجنٹوں کا مقصد صرف پیسہ بٹورنا ہوتا ہے اور انہیں کسی کی زندگی یا سلامتی کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔شہریار اور افتخار کے والد کے مطابق ان کے بیٹے قانونی طریقوں سے ایجنٹوں کے ذریعے اسپین پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے، مگر وہ اس بات سے لاعلم تھے کہ ان کا سفر ایک بڑی مصیبت میں تبدیل ہو جائے گا۔ایجنٹوں کو 80 لاکھ روپے دینے کے باوجود ان کے بیٹے نہ صرف غیر قانونی راستے اختیار کر رہے تھے، بلکہ ان کی زندگی خطرے میں تھی۔مراکش کے ساحل پر ہونے والا کشتی حادثہ ایک دردناک حقیقت ہے کہ غیر قانونی سفر کے نتیجے میں کس طرح انسانوں کی زندگیاں تباہ ہو سکتی ہیں۔ شہریار اور افتخار کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کی موت کی تصدیق اس وقت ہوئی جب کشتی کے حادثے میں بچ جانے والوں نے تصاویر کے ذریعے انہیں اس سانحے کے بارے میں بتایا۔ یہ حادثہ اس بات کا غماز ہے کہ انسانی سمگلنگ کا غیر قانونی طریقہ نہ صرف غیر محفوظ ہے بلکہ جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔انسانی سمگلنگ صرف ایک فرد یا خاندان کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ایک قومی اور بین الاقوامی سطح کا سنگین جرم ہے۔ حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مؤثر قوانین اور اقدامات کریں۔ پاکستان میں اس وقت حکومت کو چاہیے کہ وہ انسانی سمگلنگ کے خلاف سخت قانونی چارہ جوئی کرے اور ایجنٹوں کے خلاف کارروائی کرے جو لوگوں کو غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کی ترغیب دیتے ہیں۔انسانی اسمگلنگ کے اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے حکومت کو عوام میں آگاہی پیدا کرنی چاہیے تاکہ لوگ اس خطرے سے بچ سکیں۔ اس کے علاوہ، حکومت کو قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کے لئے سہولت فراہم کرنی چاہیے تاکہ لوگ غیر قانونی راستوں کو ترک کر دیں۔
عالمی سطح پر انسانی سمگلنگ کے خلاف کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں، مگر اس کے باوجود یہ مسئلہ سنگین بنا ہوا ہے۔ عالمی سطح پر ممالک کو اس بات کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اوراس کے لیے مشترکہ اقدامات کی انتہائی ضرورت ہے۔ عالمی تنظیمیں جیسے کہ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا مقصد انسانی سمگلنگ کے متاثرین کو مدد فراہم کرنا اور ان کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔پاکستان کو بھی اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ انسانی ا سمگلنگ ایک قومی بحران بن چکا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سطح پر تعاون کی ضرورت ہے۔ اس مسئلے کو عالمی سطح پر حل کرنے کے لیے مختلف ممالک کو اپنے قوانین کو مزید سخت بنانے کی ضرورت ہے اور اس کی روک تھام کے لیے مخصوص پالیسیوں کا نفاذ ضروری ہے۔انسانی سمگلنگ کے مسئلے کا حل آسان نہیں، لیکن اس کے خاتمے کے لیے عالمی سطح پر مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ شہریار اور افتخار جیسے نوجوانوں کی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ انسانی سمگلنگ کا کاروبار کس قدر خطرناک اور تباہ کن ہو سکتا ہے۔ حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے کے بارے میں عوام کو آگاہ کریں اور اس کے خلاف مضبوط قانون سازی کریں تاکہ اس قسم کے حادثات کو روکا جا سکے۔ ایجنٹوں کی دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے عوام میں شعور پیدا کرنا ضروری ہے، تاکہ آنے والی نسلوں کو اس خطرے سے بچایا جا سکے۔شہر یار اور افتخار نے جو 80 لاکھ روپے ایجنٹوں کو دیئے ان پیسوں سے پاکستان میں بہترین کاروبار ہو سکتا تھااور یورپ سے زیادہ پیسے کمائے جا سکتے تھے۔معلوم نہیں ان لوگوں کی مت ماری جاتی ہے یا پھر تقدیر ان کے دماغوں کو سن کر دیتی ہے بہر حال جہاں ہم انسانی اسمگلروں کے لئے سخت سے سخت سزاؤں کا مطالبہ کرتے ہیں وہاں ہم اللہ تبارک تعالیٰ سے یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ ہر کسی کی اولاد کو بری تقدیروں سے محفوظ فرمائے۔آمین

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: شہریار اور افتخار انسانی سمگلنگ کے بین الاقوامی عالمی سطح پر کرنے کے لیے ایجنٹوں کی دھوکہ دہی لاکھ روپے اس مسئلے ضرورت ہے کی زندگی لوگوں کو کرتے ہیں کے خلاف جانے کے اور اس اور ان اس بات

پڑھیں:

غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو جنگبندی سے نہیں جوڑنا چاہئے، فیصل بن فرحان

ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں ھاکان فیدان کا کہنا تھا کہ اسرائیل 80 سالوں سے فلسطینی عوام کے حقوق پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگبندی اور مذاکرات کا آغاز چاہتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سعودی وزیر خارجہ "فیصل بن فرحان" نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی ہونی چاہئے تا کہ مسئلہ فلسطین کا جامع حل تلاش کیا جا سکے۔ فیصل بن فرحان نے ان خیالات کا اظہار ترکی کے شہر انطالیہ میں OIC اور عرب لیگ سے وابستہ غزہ رابطہ گروپ کے وزرائے خارجہ کی ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو جنگ بندی کے ساتھ نہیں جوڑنا چاہئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت غزہ کی پٹی کے رہائیشیوں کو زبردستی اپنا علاقہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جسے کسی صورت بھی رضاکارانہ ہجرت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ریاض فلسطینیوں کی غزہ سے کسی بھی قسم کی نقل مکانی کا مخالف ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قیام امن اور فلسطین کے دو ریاستی حل کے خواہاں ہیں۔ اسی دوران ترکیہ کے وزیر خارجہ "هاکان فیدان" نے کہا کہ انقرہ 1967ء کی حد بندی کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کا متمنی ہے۔

ھاکان فیدان نے کہا کہ اسرائیل 80 سالوں سے فلسطینی عوام کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگ بندی اور مذاکرات کا آغاز چاہتے ہیں۔ اسی پریس کانفرنس سے گفتگو کرتے ہوئے مصری وزیر خارجہ "بدر عبد العاطی" نے کہا کہ ہمارا آج کا اجلاس نہایت سود مند رہا۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے حصول کے لئے مصر اور قطر روزانہ کی بنیاد پر کوششیں کر رہے ہیں۔ بدر عبد العاطی نے وضاحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل کو جنگ بندی معاہدے میں کئے گئے وعدوں کو پورا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مصر فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر باقی رکھنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک فلسطینی اتھارٹی غزہ کا انتظام و انصرام نہیں سنبھالتی، اس سلسلے میں عبوری کمیٹی چھ مہینوں تک اپنی ذمے داریاں نبھائے گی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی ہر نام اور بہانے سے قابل مسترد ہے۔

متعلقہ مضامین

  • سزائے موت اسلامی قانون کا حصہ ہے، طالبان رہنما کا موقف
  • غزہ کا المیہ، امیر جماعت اسلامی نے ایران سمیت مسلم حکمران کو خط لکھ دیا
  • عالمی برادری نظربند کشمیریوں کی رہائی کیلئے اقدامات کرے
  • طالبان کے اخلاقی قوانین یا انسانی حقوق کی پامالی؟ اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
  • ہاکس بے مشرف کٹ قبرستان کے قریب سے انسانی ہڈیاں برآمد
  • غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل کو جنگبندی سے نہیں جوڑنا چاہئے، فیصل بن فرحان
  • اسرائیل کیجانب سے غزہ میں بفر زون بنانیکی کوشش پر اقوام متحدہ کا انتباہ
  • افغانستان: تین افراد کی سزائے موت پر سر عام عمل درآمد
  • امدادی کارکن کیوں مارے جاتے ہیں؟
  • مجرمانہ سرگرمیوں پر ڈی پورٹ پاکستانیوں کے پاسپورٹ بلاک کیے جائیں گے، وزیر داخلہ