اے آئی منصوبے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے جس رقم کا وعدہ کیا گیا وہ اصل میں موجود نہیں. ایلون مسک
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 جنوری ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اعلان کردہ 500 ارب ڈالر کے مصنوعی ذہانت کے منصوبے پر ایلون مسک نے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے جس رقم کا وعدہ کیا گیا وہ اصل میں موجود نہیں فرانسیسی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ تبصرہ دنیا کے امیر ترین شخص اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان تقسیم کی نادر مثال ہیں مسک نے انتخابی مہم پر 27 کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے بعد نئی انتظامیہ میں اہم کردار حاصل کیا ہے.
(جاری ہے)
صدرٹرمپ نے اے آئی منصوبے کے حوالے سے کہا ہے کہ اسٹار گیٹ نامی یہ منصوبہ امریکا میں مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے میں کم از کم 500 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر ایک پوسٹ میں ایلون مسک نے کہا کہ 500 ارب ڈالر کے اے آئی منصوبے کے مرکزی سرمایہ کاروں کے پاس اصل میں پیسہ نہیں ہے. انہوں نے کہا کہ سافٹ بینک کے پاس 10 ارب ڈالر سے کم محفوظ ہیں مسک نے اپنی پوسٹ میں کہا کہ میرے پاس یہ اچھی اتھارٹی ہے ایلون مسک کی سائیڈ سوائپ خاص طور پر اوپن اے آئی کو نشانہ بنا سکتی ہیں جو دنیا کا معروف مصنوعی ذہانت کا اسٹارٹ اپ ہے جسے مسک نے 2018 میں چھوڑنے سے پہلے مدد بھی کی تھی. ٹیسلا کے سربراہ اور اوپن اے آئی کے چیف ایگزیکٹو سیم آلٹمین جو اے آئی سے متعلق صدر ٹرمپ کے اعلان کے موقع پر وائٹ ہاﺅس میں موجود تھے ایک سنگین تنازع میں پھنس گئے ہیں ایلون مسک نے چیٹ جی پی ٹی کی ملکیتی کمپنی کے خلاف بار بار مقدمات دائر کیے ہیں. وال اسٹریٹ جنرل کے مطابق اوپن اے آئی دنیا کے سب سے زیادہ قابل قدر اسٹارٹ اپس میں سے ایک ہے لیکن مہنگی ٹیکنالوجی کو تبدیل کرنے پر کافی پیسہ خرچ کرتا ہے جریدے نے کہا ہے کہ کلاﺅڈ کمپنی اوریکل جو ٹرمپ کے 500 ارب ڈالر کے منصوبے میں بھی شامل ہے اس کے پاس تقریباً 11 ارب ڈالر نقد اور سیکیورٹیز ہیں سافٹ بینک کے پاس تقریباً 30 ارب ڈالر نقد ہیںجبکہ اسٹار گیٹ منصوبے میں ابتدائی طور پر 100 ارب ڈالر اور اگلے 4 سال میں 500 ارب ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا عزم ہے.
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سرمایہ کاری ایلون مسک ارب ڈالر اے آئی کے پاس
پڑھیں:
داسو منصوبہ 240 فیصد مہنگا، ذمہ داری کسی فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی
اسلام آباد:ایک سرکاری انکوائری میں داسو ہائیڈرو پاور پرو جیکٹ کی لاگت میں 240 فیصد کے اضافے کرکے اسے 6.2 ارب ڈالر تک لانے کی ذمہ داری کسی ایک فرد یا ادارے پر نہیں ڈالی گئی بلکہ چینی کنٹریکٹرز، واپڈا اور پلاننگ کمیشن کی طرف اشارہ کیا گیا۔
تین رکنی کمیٹی نے زمین کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار ضلع کوہستان کی مقامی انتظامیہ کو بھی ٹھہرایا۔ رپورٹ میں کہا گیا چینی کنٹریکٹرز پر دو مہلک حملوں کے بعد حفاظتی انتظامات میں اضافہ کی وجہ سے لاگت میں 48 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
مجموعی لاگت میں سکورٹی انتظامات کا اثر بمشکل 3.8 فیصد رہا۔ رپورٹ میں کہا گیا مختلف عوامل اور غیر متوقع چیلنجز کے پیچیدہ تعامل نے داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کو نہ صرف 10سال تاخیر کا شکار کردیا بلکہ اس کی لاگت میں 1.3ٹریلین روپے یا 240فیصد اضافہ بھی کردیا۔
مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں ایک کھرب سے زائد کا اضافہ
ڈالر کے حساب سے لاگت میں یہ اضافہ 6.2 بلین ڈالر ہے۔ اس طرح 2160میگا واٹ کے اس پروجیکٹ کی قیمت غیر معقول حد تک 1.74ٹریلین روپے تک پہنچ گئی۔
کمیٹی نے کہا کہ چینی کنٹریکٹر نے کنسلٹنٹس کی ہدایات کو نظر انداز کیا۔ مقامی انتظامیہ بروقت اراضی حاصل نہیں کرسکی اور سب سے اہم واپڈا نے کنٹریکٹرز کی جانب سے مطلوبہ اراضی کی دستیابی کو یقینی بنائے بغیر تعمیراتی ٹھیکے دے دیے۔
کمیٹی نے واپڈا کے کسی چیئرمین یا کسی بھی اعلیٰ افسر کا نام لے کر ذمہ داری طے نہیں کی ۔ پلاننگ کمیشن کو زمین کے حصول اور آباد کاری کے مسائل حل کرنے میں کوتاہی کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: عالمی بینک داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کیلیے ایک ارب 58 کروڑ ڈالر کی مالی معاونت فراہم کر رہا ہے
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی سربراہی میں سینٹرل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی نے جمعہ کو داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کے لیے قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی کی مشروط منظوری کی سفارش کی ۔
تین رکنی کمیٹی کی رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا کہ یہ ایک قابل غور رائے ہے کہ داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ (مرحلہ-1) میں تاخیر عوامل کے پیچیدہ تعامل کا نتیجہ ہے۔ دسمبر میں حکومت نے 2019میں لاگت میں کی گئی پہلی نظرثانی کے بعد اس کی وجوہات کی نشاندہی کرنے اور اس منصوبے کو مکمل کرنے میں ناکامی کی ذمہ داری طے کرنے کے لیے انکوائری کا حکم دیا تھا۔ انکوائری کمیٹی کی سربراہی سول انجینئر اطہر حمید کر رہے تھے۔
دیگر ارکان میں وزارت آبی وسائل کے ڈائریکٹر مانیٹرنگ سید ایاز محمد حیدر اور وزارت کے پروکیورمنٹ ایکسپرٹ عمران نجم بھی شامل تھے۔ انکوائری نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تعمیراتی تاخیر غیر متوقع اہم انتظامی چیلنجوں اور حصول اراضی، معاوضے کی ادائیگی اور آباد کاری کے عمل میں طریقہ کار کی رکاوٹوں کی وجہ سے بڑھ گئی ہے۔
مزید پڑھیں: توانائی کی ضروریات داسو پراجیکٹ انتہائی اہم چیئرمین واپڈا
غیر متوقع تکنیکی چیلنجز نے پراجیکٹ پر عمل درآمد کے شیڈول کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ کمیٹی کے مطابق کمیونٹی کی شکایات اور مزاحمت پر مبنی سماجی مسائل نے پیش رفت کو مزید سست کر دیا۔
انکوائری کمیٹی نے مزید کہا کہ کنٹریکٹرز اور کنسلٹنٹس کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان، پراجیکٹ ایریا میں سیکیورٹی چیلنجز اور دشوار گزار علاقے، غیر متوقع ارضیاتی حالات اور سیلاب جیسی قدرتی وجوہات نے بھی تاخیر میں اضافہ کیا۔
رابطہ کرنے پر وزارت آبی وسائل کے سیکرٹری سید علی مرتضیٰ نے کہا کہ انکوائری چیف انجینئرنگ ایڈوائزر نے کی تھی جو ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس طرح کی انکوائری کرنے کے لیے ہے۔
سیکرٹری نے مزید کہا کہ انکوائری کمیٹی کو پتہ چلا کہ لاگت میں 85 فیصد اضافہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے ہوا اور باقی 15 فیصد منصوبے کے دائرہ کار اور ڈیزائن میں تبدیلی کی وجہ سے ہوا۔ انکوائری کمیٹی نے کہا منصوبے کی کامیابی کا انحصار ایسے باہمی تعاون پر ہے جو وفاقی حکومت، خیبر پختونخوا حکومت ، کوہستان کی ضلعی انتظامیہ، واپڈا، کنٹریکٹرز، کنسلٹنٹس اور مقامی کمیونٹیز کے درمیان صف بندی اور تعاون کو فروغ دیتا ہو۔
مزید پڑھیں: داسو ہائیڈرو پاور منصوبہ تین سالہ تاخیر کا شکار 2028ء میں مکمل ہوگا وزارت اقتصادی حکام
کمیٹی نے خاص طور پر 132کے وی ٹرانسمیشن لائن پر سماجی مسائل کو فعال طور پر حل کرنے اور تکنیکی، سماجی اور سکیورٹی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایک مضبوط انتظامی حکمت عملی کو نافذ کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔
تاہم یہ وہ مسائل ہیں جن کو 2014 میں پورا کیا جانا چاہیے تھا۔ منصوبے کا پی سی ون 2014میں منظور کیا گیا اور اس کی لاگت 486ارب روپے رکھی گئی۔ منصوبے کی تکمیل کا وقت 2019رکھا گیا۔ زمین کی بڑھتی شرح کی وجہ سے اکتوبر 2019 میں لاگت کو 511 بلین روپے تک بڑھا دیا گیا اور اس پر عمل درآمد جون 2024 تک بڑھا دیا گیا۔
جنوری 2025 کی انکوائری رپورٹ کے مطابق اسٹیج ون کے لیے مرکزی سول ورک کنٹریکٹر میسرز چائنا گیزوبا گروپ کمپنی (سی جی جی سی) کا تھا ، نگرانی جاپان کے میسرز نیپون کوئی اور ترکی کے میسرز ڈولسر کے جوائنٹ وینچر کو دی گئی۔
مزید پڑھیں: اہم سنگ میل داسو ہائیڈرو پروجیکٹ کیلئے دریائے سندھ کا رخ موڑ دیا گیا
ساتھ ہی میسرز ڈی ایم سی، میسرز این ڈی سی اور میسرز پی ای ای ایس کا تعاون شامل کیا گیا تھا۔ جنوری تک منصوبے کی مجموعی پیشرفت 23.3 فیصد اور مالیاتی پیشرفت 23 فیصد تھی۔ دوسری نظرثانی پر انکوائری رپورٹ نے بتایا کہ اس منصوبے کو بنیادی طور پر ورلڈ بینک، مقامی اور غیر ملکی کمرشل بینکوں اور واپڈا ایکویٹی کے ذریعے فنڈز فراہم کیے جاتے ہیں۔
منصوبے پر اب تک 317 ارب روپے خرچ ہو چکے ہیں۔ 1.73 ٹریلین روپے کی کل لاگت میں لیے جانے والے قرضوں پر 479 ارب روپے کا سود شامل ہے۔