سانحہ اے پی ایس پشاور، شہید بچوں کے والدین سپریم کورٹ پہنچ گئے، انصاف کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
اسلام آباد (عطاء الرحمن کوہستانی) پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے دہشت گرد حملے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ یہ والدین کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے عدالت عالیہ پہنچے ہیں۔
اے پی ایس کے شہید بچوں کے والدین کی اے بی این نیوز سے گفتگو میں کہا گیا چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے 5 اکتوبر کو پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیشن تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔ جس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی تھی۔ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اس رپورٹ پر گزشتہ چھ سال میں صرف دو سماعتیں ہوئی ہیں، اور آج تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں آیا۔
والدین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار اور ڈپٹی رجسٹرار نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ اس کیس کی تاریخ جلدی دی جائے گی، مگر ایک سال گزرنے کے باوجود کوئی تاریخ نہیں دی گئی۔ شہید بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں اس لیے آئے ہیں کہ انہیں کمیشن کی رپورٹ کے حوالے سے کوئی تاریخ دی جائے، چاہے وہ رپورٹ ان کے حق میں نہ ہو، لیکن کم از کم انہیں یہ بتایا جائے کہ اس رپورٹ میں کیا کچھ شامل ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر مالدار افراد کے لیے عدالتیں رات کے وقت کھول سکتی ہیں تو شہید بچوں کے والدین کے لیے عدالت کیوں نہیں کھل سکتی؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ انصاف کے منتظر ہیں اور عدالت سے درخواست ہے کہ اس اہم کیس کو فوری طور پر سنا جائے تاکہ شہید بچوں کے والدین کو کمیشن کی رپورٹ اور اس کے نتائج سے آگاہ کیا جا سکے۔
والدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ انصاف کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور جب تک انہیں انصاف نہیں ملتا، وہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
یہ کیس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں انصاف کا عمل کبھی کبھار سست روی کا شکار ہو جاتا ہے، خاص طور پر جب سانحے کا تعلق عوامی نوعیت کے معاملات سے ہو، اور اسے سیاسی و سماجی دباؤ کے بغیر فوری طور پر نمٹانا ضروری ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ اے پی ایس حملہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے خونریز دہشت گرد حملہ تھا جس میں 132 بچے اور 9 اساتذہ شہید ہو گئے تھے، اور اس سانحے نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا تھا۔ اس حملے کے بعد حکومت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید تیز کرنے کی عہد کی تھی، لیکن ابھی تک سانحے کے متاثرین کو مکمل انصاف نہ مل سکا۔
اراکین قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں 200 فیصد اضافےکی تجویز
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سپریم کورٹ اے پی ایس کی رپورٹ کے لیے
پڑھیں:
بیٹے نے والدین کے ذہنی مرض سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں ڈالرز ہتھیا لیے
آسٹریلیا میں ایک ایسے شخص کے خلاف قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے جس نے اپنے بہن بھائیوں کے لیے اپنے ذہنی مریض والدین سے لاکھوں ڈالرز چرائے تھے۔
49 سالہ بلیک ایڈرین برنکلو کو مارچ 2017 اور جولائی 2018 کے درمیان اپنے والدین پال اور ویلری (جو اب مرچکے ہیں) سے فنڈز چوری کرنے کا مجرم پایا گیا۔
2016 میں الزائمر کی بیماری کی تشخیص ہونے کے بعد بلیک کو والدین کا بطور پاور آف اٹارنی مقرر کیا گیا تھا جس کا مطلب تھا کہ والدین سے متعلق تمام معاملات بلیک کے کنٹرول میں تھے۔
بلیک کے والدین نے اپنے آخری سال نگہداشت کی سہولت میں گزارے۔ بلیک کی والدہ ویلری برنکلو کا انتقال 2019 میں ہوا جبکہ 2 سال بعد والد بھی جنوری 2021 میں انتقال کرگئے۔
بلیک نے عدالت میں تمام جرائم سے انکار کیا ہے لیکن انہیں جیوری کی طرف سے پاور آف اٹارنی رہتے ہوئے چوری کے تین الزامات کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کو مدعی علیہ کے وکیل نے بتایا بلیک 387,809 ڈالر ہی معاوضہ ادا کر سکتے ہے لیکن عدالتی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ مدعی جو کہ برنکلو جائیداد کی نگران ایجنسی ہے، اس معاوضے سے کہیں زیادہ رقم کا مطالبہ کررہی ہے۔
دعوے میں کہا گیا ہے کہ برنکلو کی اسٹیٹ تقریباً 800,000 ڈالرز کا مطالبہ کررہی ہے جو کہ کئی آن لائن جوا کھیلنے والی کمپنیوں اور بلیک کے کاروبار سے منسلک اکاؤنٹس میں رقم منتقلی کو دیکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔