چائے بیچ کر 50 روپے روزانہ کمانے سے 200 کروڑ کی فلمیں کرنے والا بھارتی اداکار
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
جنوبی بھارتی انڈسٹری کے معروف اداکار اور کے جی ایف اسٹار یش کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہے تاہم کم ہی لوگ یہ جانتے ہیں کہ فلمی دنیا میں آنے سے پہلے یش چائے بیچتے تھے اور ان کی روزانہ کی آمدنی صرف 50 روپے تھی۔
’کے جی ایف‘ کی دونوں فلموں نے مجموعی طور پر 1500 کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا، جس کے باعث یہ کناڈا سینما کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں شامل ہو گئیں۔ یہی کامیابی یش کو بھارت کے صف اول کے اداکاروں میں لے آئی۔
مگر یش کا یہ سفر آسان نہیں تھا۔ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے کی حیثیت سے ان کی زندگی محنت اور جدوجہد سے بھری ہوئی تھی۔ 16 سال کی عمر میں انہوں نے اپنے والدین کو قائل کیا کہ وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے گھر چھوڑ دیں۔ وہ کناڈا فلم انڈسٹری میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر شامل ہوئے، لیکن بنگلور پہنچنے کے دو دن بعد ہی یہ پروجیکٹ ختم ہو گیا۔
یش نے ایک انٹرویو میں بتایا ’میں گھر سے بھاگ آیا تھا۔ بنگلور پہنچ کر شہر کی وسعت اور ماحول نے مجھے ڈرا دیا، لیکن میں ہمیشہ خود پر یقین رکھنے والا شخص رہا ہوں۔ میرے پاس صرف 300 روپے تھے اور جانتا تھا کہ واپس جانے پر والدین دوبارہ آنے کی اجازت نہیں دیں گے۔‘
بنگلور پہنچنے کے بعد یش نے بینکا ڈرامہ ٹروپ میں شامل ہو کر اپنی زندگی کی شروعات کی، جہاں انہوں نے زیادہ وقت اسٹیج کے پیچھے کام کرتے ہوئے گزارا کیا۔ اسی دوران، چائے بیچنے اور دیگر چھوٹے کاموں سے انہوں نے روزانہ 50 روپے کمائے۔ تھیٹر میں اپنی صلاحیتیں نکھارنے کے ساتھ وہ کالج میں بھی داخل ہوئے اور تعلیم مکمل کی۔
یش کو پہلا اداکاری کا موقع ٹی وی سیریل ’نندا گوکلا‘ میں ملا، جہاں ان کی ملاقات ان کی مستقبل کی شریک حیات رادھیکا پنڈت سے ہوئی۔ 2007 میں یش نے فلمی دنیا میں قدم رکھا اور 2008 کی فلم ’راکی‘ میں پہلی بار مرکزی کردار ادا کیا۔
یش کو سب سے بڑی کامیابی رومانوی کامیڈی فلم ’مودلا سالا‘ سے ملی، جس کے بعد ’کرتکا‘، ’موگینا ماناسو‘، ’ڈراما‘، ’گوگلی‘، ’مسٹر اینڈ مسز رامچاری‘، اور ’ماسٹر پیس‘ جیسی ہٹ فلموں نے انہیں ایک کامیاب اداکار بنا دیا۔
2018 میں یش نے ’کے جی ایف: چیپٹر 1‘ میں مرکزی کردار ادا کیا، جس نے باکس آفس پر 250 کروڑ روپے سے زائد کا بزنس کیا اور کناڈا سینما کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلم بن گئی۔
2022 میں ’کے جی ایف: چیپٹر 2‘ نے اس ریکارڈ کو توڑتے ہوئے 1250 کروڑ روپے کا بزنس کیا، یہ بھارتی سینما کی سب سے زیادہ کمائی کرنے والی فلموں میں شامل ہو گئی اور 1000 کروڑ سے زیادہ کمانے والی واحد کناڈا فلم بنی۔
’کے جی ایف‘ کی کامیابی نے یش کو بین الاقوامی سطح پر پہچان دلائی۔ اب انہیں نتیش تیواری کی ایک بڑی بجٹ کی فلم میں اہم کردار کے لیے سائن کیا گیا، جس میں رنبیر کپور اور سائی پلوی بھی شامل ہیں۔ یہ فلم بھارت کی سب سے مہنگی پروڈکشنز میں شمار کی جا رہی ہے۔
یش اس فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں، اور رپورٹس کے مطابق انہوں نے اس کے لیے 200 کروڑ روپے کا معاوضہ وصول کیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کروڑ روپے کے جی ایف سے زیادہ انہوں نے کی سب سے شامل ہو
پڑھیں:
پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا۔
ملک میں مہنگی بجلی اور بجلی مسائل کے باعث پاکستان نے سولر پینلز درآمد کرنے میں پوری دنیا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔برطانوی توانائی تھنک ٹینک "ایمبر" کی عالمی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان دنیا کا سب سے بڑا سولر پینلز درآمد کرنے والا ملک بن گیا ہے۔ اِس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ کوئی بڑی قانون سازی ہوئی، نہ عالمی سرمایہ کاری کی یلغار اور نہ ہی وزیرِاعظم نے سبز انقلاب کا اعلان کیا، اس کے باوجود 2024 کے آخر تک پاکستان نے دنیا کے تقریباً تمام ممالک سے زیادہ سولر پینلز درآمد کیے۔ پاکستان نے صرف 2024 میں ہی 17 گیگا واٹ کے سولر پینلز درآمد کیے، جس سے وہ دنیا کی صفِ اول کی سولر مارکیٹس میں شامل ہو گیا ہے، یہ اضافہ 2023 کی نسبت دوگنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی سولر درآمدات کی یہ وسعت خاص طور پر اِس لیے حیران کن ہے کیونکہ یہ کسی قومی پروگرام یا بڑے پیمانے پر منظم منصوبے کے تحت نہیں ہوا بلکہ صارفین کی ذاتی کوششوں سے ہوا ہے۔ زیادہ تر مانگ گھریلو صارفین، چھوٹے کاروباروں اور تجارتی اداروں کی طرف ہے جو مہنگی اور غیر یقینی سرکاری بجلی کے مقابلے میں سستی اور قابلِ اعتماد توانائی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق سولر پر منتقلی اُن لوگوں اور کاروباروں کی بقاء کی کوشش ہے جو غیر مؤثر منصوبہ بندی اور غیر یقینی فراہمی کے باعث قومی گرڈ سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، یہ پاکستان میں توانائی کی سوچ میں ایک بنیادی تبدیلی کی علامت ہے۔ صرف مالی سال 2024 میں ہی پاکستان کی سولر پینلز کی درآمدات ملک بھر میں بجلی کی کُل طلب کا تقریباً نصف بنتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اب قومی گرڈ کو اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے لیے خود کو ڈھالنا پڑے گا کیونکہ موجودہ انفرااسٹرکچر اس تیز رفتار تبدیلی کے ساتھ قدم نہیں ملا پا رہا، اس منتقلی کو پائیدار اور منظم بنانے کے لیے نظام کی اپڈیٹڈ منصوبہ بندی ناگزیر ہے۔ صنعتی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ریگولیٹرز نے نیٹ میٹرنگ کی اجازت دی ہے اور درآمدات پر کچھ نرمی بھی کی گئی ہے، لیکن پاکستان کی سرکاری گرڈ سے منسلک سولر پیداوار اب بھی بہت کم ہے، جو ظاہر کرتی ہے کہ زیادہ تر نئی تنصیبات گرڈ سے باہر کام کر رہی ہیں اور قومی بجلی کے اعدادوشمار میں شامل نہیں ہو رہیں۔