بھارت عالمی سطح پر دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے، بیرسٹر سلطان
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ذرائع کے مطابق ترکی کے سفیر ڈاکٹر عرفان نیزرو گلو نے آج کشمیر ہاوس اسلام آباد میں صدر آزاد کشمیر سے ملاقات کی۔ اس موقع پر ترک سفیر نے یقین دلایا کہ ترکی کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھے گا اور ہم ہر فورم پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ آزاد جموں و کشمیر کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے کہا ہے کہ بھارت نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر میں ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ ذرائع کے مطابق بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے ان خیالات کا اظہار ترکی کے سفیر ڈاکٹر عرفان نیزرو گلو سے گفتگو کے دوران کیا جنہوں نے آج کشمیر ہاوس اسلام آباد میں ان سے ملاقات کی۔ صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ مسئلہ کشمیر نہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہے بلکہ یہ امت مسلمہ کا بھی مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت نے کشمیری مسلمانوں کے دینی حقوق بھی سلب کر رکھے ہیں، انہیں جمعہ اور عیدین کی نمازوں سے روکا جاتا ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود چودھری نے کہا کہ بھارت کے 9لاکھ سے زائد بھارتی اہلکار کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور وہاں پر انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے، ایسے میں اسلامی ملکوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نہتے لوگوں پر بھارتی جبر و استبداد کا نوٹس لیں اور تنازعہ کشمیر کے حل کیلئے بھارتی قیادت پر دباﺅ ڈالیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فرقہ پرست پالیسیوں سے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ صدر نے کہا کہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی بھارت کی کینیڈا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا پردہ چاک کیا ہے جس سے بھارت کے مکروہ عزائم پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں۔ صدر نے مزید کہا کہ ترکی نے ہمیشہ کشمیری عوام کے حق خودارادیت کی حمایت کی ہے اور ہمیں امید ہے کہ وہ آئندہ بھی یہ حمایت جاری رکھے گا۔ اس موقع پر ترکی کے سفیر ڈاکٹر عرفان نیزرو گلو نے صدر آزاد جموں و کشمیر کو یقین دلایا کہ ترکی کشمیری عوام کی حمایت جاری رکھے گا اور ہم ہر فورم پر کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لئے آواز اٹھاتے رہیں گے۔ ملاقات میں ترکش سفارتخانے کی قونصلر مسز یپرک ایس بھی موجود تھیں۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کشمیری عوام نے کہا کہ کہ بھارت
پڑھیں:
دہشت گردی، کثیر الجہت چیلنجز
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آپریٹ کررہے ہیں، افغانستان دہشت گردوں کو لگام ڈالے، لندن میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ پاکستانی عوام، افواج، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ دوسری جانب آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر سے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی کانگریس کے وفد سے ملاقات میں دونوں جانب سے باہمی احترام، مشترکہ اقدار اور اسٹرٹیجک مفادات کی اہمیت پر زور دیا گیا جب کہ وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی اور دنیا کے درمیان دیوار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں، ان کے ہینڈلرز افغانستان میں ہیں اور اس درندہ صفت گروہ کو طالبان حکومت کی طرف سے آراستہ رہائش گاہیں، گاڑیاں اور امریکی چھوڑا گیا جدید وبھاری اسلحہ مہیا کیا جاتا ہے۔ مالی معاونت بھارت فراہم کرتا ہے اور واردات کی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے اندر خصوصاً بلوچستان اور کے پی کے میں ان درندوں کے سہولت کار بی ایل اے اور مجید بریگیڈ کی صورت میں موجود ہیں۔
صدر ٹرمپ افغانستان سے اپنے چھوڑے گئے ہتھیار اور جنگی سازو سامان واپس لینے کا اعلان بھی کر چکے ہیں کیونکہ یہ غیر ملکی ہتھیار پاکستان کے اندر دہشت گردی پھیلانے میں استعمال کیے جا رہے ہیں۔ آج پاکستان کو ماضی کی نسبت زیادہ چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ پاکستان کا محل وقوع اسے زبردست دفاعی اہمیت دیتا ہے اور پوری دنیا اس کو اپنے ساتھ ملانا چاہتی تھی۔ بدقسمتی سے اب وہ وقت آگیا ہے کہ پاکستان ایک خطرناک محل وقوع میں گھرا ہوا ہے۔ سوائے اس کے آزمودہ دوست چین کے، باقی تمام ہمسائے اس کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔
پاکستان اس وقت دو اطراف سے دہشت گرد حملوں کی زد میں ہے۔ ایک جانب تو تحریک طالبان پاکستان یعنی ٹی ٹی پی پاکستان کے اندر یہ حملے کر رہی ہے۔ جس کی پناہ گاہیں، پاکستان کے بقول افغانستان کے اندر ہیں تو دوسری طرف بلوچستان میں علیحدگی پسند جنگجو کارروائیوں میں مصروف ہیں جن کا ہدف ماہرین کے مطابق پاکستان کی سیکیورٹی فورسز اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو نشانہ بنانا ہے۔اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے جو ماضی میں بھی ایسی صورت حال سے دوچار رہا ہے اور ماہرین کے نزدیک اس نے ملک کے اندر جڑ پکڑنے والی طالبان کی تحریک کو مرحلہ وار فوجی آپریشنز میں شدید دھچکا پہنچایا تھا، لیکن ایک بار پھر دہشت گردی پاکستان کے لیے چیلنج بن رہی ہے۔
اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے ریاست پاکستان نے مختلف اوقات میں مختلف نوعیت کی حکمت عملی اختیارکی ہے اور اس بار بھی ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ افغان طالبان کا خیال ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف وہ کوئی کارروائی کرتے ہیں تو ان کے نچلی سطح کے لوگ خاص طور سے ان کے جو جنگجو ہیں، ان کی طرف سے رد عمل آئے گا۔ شاید اس لیے وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں۔ پاکستان کے پاس یہی آپشن ہے کہ طالبان پر سفارتی دباؤ برقرار رکھے اور ظاہر ہے کہ اس حوالے سے طالبان پر ایک بین الاقوامی دباؤ بھی موجود ہے کہ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان ایک بار پھر دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے پائے۔
بلوچستان کے اندر بھی بلوچ علیحدگی پسندوں کے حملوں میں شدت آ رہی ہے اورسمجھا جارہا ہے کہ یہ تنظیم اپنی کارروائیوں کے ذریعے نہ صرف سیکیورٹی فورسز کو بلکہ پاکستان اور چین کے اشتراک سے چلنے والے منصوبوں کو بھی اپنا اہم ہدف سمجھتی ہے۔ بلوچ عسکریت پسندوں کے بارے میں بھی پاکستان کا موقف رہا ہے کہ وہ کارروائیاں کرنے کے بعد سرحد پار چلے جاتے ہیں اور اکثر اوقات افغانستان یا ایران میں روپوش ہو جاتے ہیں۔یہ دہشت گرد جو افغانستان سے واپس آئے ہیں جارحانہ انداز میں ریاست پاکستان اور اس کے اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔پاکستانی فورسز ان دہشت گردوں سے بخوبی نمٹ رہی ہے ، دوسری جانب گراس روٹ لیول پر بھی عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
چند روز قبل ایران کے صوبہ سیستان و بلوچستان میں پاکستان مخالف دہشت گرد گروہ کے مبینہ حملے میں آٹھ پاکستانی شہریوں کو بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ مقتولین کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور سے تھا۔ حملہ آوروں کی تعداد ایک درجن سے زائد بتائی گئی ہے جو واردات کے بعد فرار ہو گئے۔ ایران کا صوبہ سیستان و بلوچستان ماضی میں پاکستان مخالف گروہوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ ایران ان گروہوں کے خلاف کارروائیاں کرتا رہا ہے، مگر حالیہ واقعہ سرحدی سیکیورٹی تعاون پر سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے ناگزیر ہے کہ پاکستان اور ایران مل کر اس مسئلے کو حل کریں ،دونوں فورسز کے باہمی رابطے،معلومات کی شیئرنگ اور مشترکہ کارروائیاں دہشت گردوں کے نیٹ ورک کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔پاکستان کی وسیع پیمانے پر انسداد دہشت گردی کی مہارت نے اسے عالمی سلامتی کے مباحثوں میں ایک اہم کھلاڑی کے طور پر پیش کیا ہے۔
اس کی سیکیورٹی ایجنسیاں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں، جو پاکستان کو انسداد دہشت گردی تعاون میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ سفارتی کوششیں، جیسے کہ پاکستان، افغانستان امن عمل اور علاقائی استحکام کے اقدامات، اس کے دیرپا امن کے عزم کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ جیسا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف اپنی طویل جدوجہد کے اثرات کا تجزیہ کر رہا ہے، اسے اپنی قربانیوں اور کامیابیوں دونوں پر غور کرنا ہوگا۔ قوم نے گہرے انسانی اور اقتصادی نقصانات برداشت کیے ہیں، سفارتی چیلنجز کا سامنا کیا ہے، اور عالمی سطح پر ایک مسخ شدہ بیانیے سے دوچار رہی ہے۔ پھر بھی، اس کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں نمایاں کمی، سیکیورٹی اداروں کی مضبوطی، اور اس کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں کا بڑھتا ہوا اعتراف قابل ذکر کامیابیاں ہیں۔درحقیقت پاکستان اس وقت کثیر الجہت چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔
اب عملی اقدام کرنے کا حقیقی معنوں میں فیصلہ کرلیا گیا ہے، ترجیحات بھی متعین کرلی گئی ہیں، اب وفاق یکسو ہوگیا ہے کہ صوبوں کی مشاورت کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا، صوبوں میں کاؤنٹر ٹیرر ازم ڈپارٹمنٹ کی استعدادِ کار کو بڑھایا جائے گا، اور صوبوں کو وسائل دیے جائیں گے۔ پہلے مرحلے میں نیشنل انٹیلی جنس فیوژن اینڈ تھریٹ اسسمنٹ سینٹرز قائم کیے جائیں گے، فرنٹیئر کانسٹیبلری کی تنظیم نو کی جائے گی اور اسے ریزرو پولیس میں تبدیل کیا جائے گا، وزارتِ خارجہ افغان حکومت کے ساتھ روابط بڑھائے گی اور دہشت گردی کے مسئلے سے مؤثر طریقے سے نمٹا جائے گا۔ بلوچستان میں تشدد کے سلسلے کا تفصیل سے جائزہ لے کر اسے بند کرنے کی راہ اپنائی جائے گی، حق سے محروم لوگوں کو مزاحمت کاروں سے الگ کرنے کی حکمت عملی پر عمل کیا جائے گا، تاہم ان فیصلوں پر نتیجہ خیز عمل درآمد کے لیے ملک میں گزشتہ کئی سال سے جاری سیاسی انتشار اور محاذ آرائی پر قابو پانا بھی ناگزیر ہے۔
ان تمام مشکلات کے باوجود، پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف ثابت قدمی نے بین الاقوامی سطح پر جزوی طور پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ حال ہی میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ہائی پروفائل دہشت گرد کی گرفتاری میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے تعاون کو عالمی سلامتی کے لیے ناگزیر قرار دیا۔ اسی طرح، سابق امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے اعتراف کیا کہ سوویت افواج کو شکست دینے میں پاکستان کی مدد لینے کے بعد، امریکا نے اسے تنہا چھوڑ دیا، جس کے نتیجے میں شدت پسند گروہوں کو پنپنے کا موقع ملا اور خطے میں عدم استحکام پیدا ہوا۔دہشت گردی کے خلاف میدان جنگ میں، پاکستان نے نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اس کی مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں بڑے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے میں کامیاب رہی ہیں، جس کے نتیجے میں حملوں کی شدت اور تعداد میں نمایاں کمی آئی ہے۔
فوجی آپریشنز، جیسے کہ ضربِ عضب اور ردالفساد، نے ان علاقوں میں امن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا جو پہلے شدت پسندی کا مرکز تھے۔ پاکستانی عوام کی استقامت اور محافظوں کی قربانیوں نے ملک کو انتہا پسندی کے آگے جھکنے نہیں دیا۔مستقبل کے لیے، پاکستان کو اقتصادی بحالی، اسٹرٹیجک علاقائی سفارت کاری، اور فعال عالمی شمولیت کی طرف بڑھنا ہوگا۔ اس کی قربانیوں کو اقتصادی شراکت داری، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، اور بین الاقوامی فورمز میں منصفانہ سلوک کے ذریعے ٹھوس فوائد میں تبدیل ہونا چاہیے۔ صرف دانشمندانہ پالیسی سازی اور متوازن خارجہ پالیسی کے ذریعے ہی پاکستان یہ یقینی بنا سکتا ہے کہ اس کی استقامت دیرپا فوائد میں ڈھلے اور قوم ایک مستحکم اور خوشحال مستقبل کی طرف گامزن ہو۔