نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد !
حیرت ہوئی نا کہ ہم نے کالم کا آغاز خطبے سے کیسے کردیا؟ ایسا پچھلے 35 برسوں میں تو کبھی نہ کیا۔ تو حضور ایسا ہے کہ یہ حضرت ڈونلڈ جان ٹرمپ بہادر دام اقبالہ کی تقریب حلف برداری کا اثر ہے۔ اب یہ نہ کہیے گا کہ آپ یہ نہیں جانتے کہ امریکی اقتدار کے اثرات پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک پر مثبت یا منفی کسی نہ کسی صورت پڑتے ضرور ہیں۔ سو ہمارا خطبہ انہی اثرات کا نتیجہ ہے۔
کیا تقریب تھی صاحب! وہ تو شکر ہے کہ ٹرمپ نے اس تقریب سے خطاب بھی فرما دیا جس سے واضح ہوا کہ یہ سیاسی سرگرمی ہے۔ ورنہ ٹرمپ کی تقریر سے قبل و بعد تو صورتحال یہ تھی کہ ایک بعد ایک پادری مائیک سنبھالتا رہا، یا پھر مذہبی گائیکوں کی سرگرمیاں ہی چلتی رہیں۔ اور تو اور ملٹری بینڈ بھی مذہبی دھنیں بکھیرتا رہا۔ اگر آپ نے حالیہ صدارتی مہم کو بغور فالو کیا ہو تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس انتخابی مہم میں ٹرمپ نے بائبل کے لاکھوں نسخے مفت بھی تقسیم کروائے اور فروخت بھی کروائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ٹرمپ کی لگ بھگ ہر انتخابی تقریر میں کوئی نہ کوئی مذہبی ٹچ بھی ضرور شامل تھا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اقتدار کے پہلے روز ٹرمپ نے جو ایگزیکٹو آڈرز جاری کیے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان کی صرف 2 جنسیں ہی۔ ایک مرد، دوسری عورت۔ یہ خالصتاً مذہبی آڈر ہے۔ اور اسے سمجھنے کے لیے بائبل ہی نہیں قرآن مجید کی بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ جہاں اللہ سبحانہ 3 سے زائد بار فرما چکے کہ ہم نے انسان کو مرد و عورت کے جوڑے کی صورت پیدا کیا ہے۔ اگر کسی کو آسمانی کتب سے چڑ بھی ہے۔ اور وہ اس چڑ کے اظہار کو ماڈرن ہونے کی دلیل بھی سمجھتا ہےتو ان کے لیے ‘لاجک’ کا سہارا بھی حاضر ہے۔ کیا کسی خواجہ سرا کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ وہ خواتین کا لاکر روم، یا واش روم استعمال کرے؟ کیا کسی خواجہ سرا کو یہ حق دینا لاجک سے درست ثابت کیا جاسکتا ہے کہ وہ اسپورٹس میں خواتین کی ٹیم کا ممبر بنے؟ اور باکسنگ رنگ میں خواتین کے جبڑے توڑے؟ جس کی صورت زنانہ اور ’آلات‘ مردانہ ہیں اسے خواتین کے سرکل میں جو بائیڈن نامی عظیم لبرل نے پہنچایا تھا۔
اس فیصلے کے خلاف امریکی اسکولوں کی بچیاں روتے ہوئے امریکی کانگریس تک پہنچ گئیں۔ جہاں ہاؤس اور سینیٹ نے ان کی باقاعدہ سماعت کی۔ پھر حد دیکھیے کہ اس امریکی پالیسی کو اولمپکس تک پر مسلط کیا گیا۔ اور ایک خاتون باکسر کا جبڑا خواجہ سرا کے پنچ سے تڑواکر اس پر فخر کیا گیا۔ خاتون باکسر نے احتجاج کیا تو اگلے 24 گھنٹوں میں اس سے معذرت کروائی گئی۔ کوئی ہمیں بتائے کہ کیا ورلڈ اولمپک ایسوسی ایشن امریکا کا قومی ادارہ ہے؟ امریکی ریاست کا داخلی فیصلہ پوری دنیا پر کس عالمی قانون کے تحت مسلط کیا گیا؟
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ انکل سام بابا اور ان کے 40 چور یعنی یورپین ممالک بین الاقوامی سطح پر روبہ عمل عالمی بندوبست کو کیا نام دیتے ہیں؟ اس بندوبست کو ’رولز بیسڈورلڈ آڈر‘ کہا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ رولز کسے کہتے ہیں؟ نکما ترین وکیل بھی آپ کو بتا سکتا ہے کہ قانون کا باب 3 درجات پر مشتمل ہے۔ سب سے بالاتر آئین ہے۔ یہ وہ اصول اور حقوق طے کرتا ہے جن کی روشنی میں قوانین بنتے ہیں۔ چنانچہ ایسا قانون پارلیمنٹ بھی پاس نہیں کرسکتی جو آئین سے متصادم ہو۔ آئین کے بعد قانون کی باری آتی ہے۔ یہ بھی اتنی اہم چیز ہے کہ اگر صدر مملکت نامی فرد واحد کوئی آرڈیننس جاری کردے تو وہ بھی قانون کا مستقل حصہ تب ہی بن سکتا ہے جب پارلیمنٹ اس کی باقاعدہ منظوری دیدے۔ اس کے بعد نمبر ہے رولز نامی اس تیسری چیز کا جس کا پارلیمنٹ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ سرکاری اور پرائیویٹ سیکٹر کے ادارے اپنے روز مرہ کے ڈسپلن کے لیے تشکیل دیتے ہیں۔ مثلاً سپریم کورٹ کےججز آپس میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں کہ بیک لاگ سے کس طرح نمٹنا ہے؟ اور اس کے لیے جو رولز وہ طے کرلیں اس پر تب تک عمل کرتے ہیں جب تک کوئی اگلی فل کورٹ میٹنگ اسے تبدیل نہ کردے۔
اب اگر آپ قانون کی دنیا سے سطحی سا بھی تعارف رکھتے ہوں تو جانتے ہوں گے کہ یہ دنیا ہمیشہ ’انٹرنیشنل لا‘ کے تحت چلتی رہی ہے۔ بلکہ اس ماڈرن دور میں تو یہ بندوبست بھی موجود ہے کہ صرف لا نہیں بلکہ ایک عالمی آئین بھی موجود ہے جسے اقوام متحدہ کا چارٹر کہا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ ماڈرن ورلڈ عالمی قانون کے تحت چل رہا ہے؟ نہیں، خود امریکا اور اس کے یورپین چمچے صاف صاف کہتے ہیں کہ یہ دنیا رولز بیسڈ ورلڈ آڈر کے تحت چل رہی ہے۔ اور ہم روس اور چین کو اس بات کی اجازت بالکل نہیں دیں گے کہ وہ اسے چیلنج کریں۔ اور دنیا کو عالمی قوانین کے تحت چلانے کی سازش کریں۔ رولز بیسڈ ورلڈ آڈر کا مطلب ہے نری عالمی آمریت۔ جب کسی ملک پر آمریت مسلط ہوتی ہے تو آمر پہلا کام ہی یہ کرتا ہے کہ آئین کو معطل کردیتا ہے۔ اور اعلان کردیتا ہے کہ آج کے بعد مابدولت کی خواہشات اور ان کے تحت جاری ہونے والے فرمان ہی چلیں گے۔
آمر ججز سے نیا حلف کیوں اٹھواتا ہے؟ یہ دراصل اس حلف کی نفی کے لیے ہوتا ہے جو آئین سے وفاداری کے لیے اٹھایا گیا ہوتا ہے۔ سو آمر کہتا ہے، آج کے بعد میری وفادری ہی قابل قبول ہوگی۔ جو میرا وفادار نہیں بن سکتا وہ گھر جائے۔ یوں آمریت کسی بھی ملک میں درحقیقت آئین و قانون کو لپیٹ کر جاری کیا گیا ’رولز بیسڈ آڈر‘ ہی ہوتا ہے۔ یہی آمریت اس دنیا پر سوویت زوال کے بعد سے مسلط ہے۔ اور ہمارے لبرلز ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ عالمی آمریت مسلط کرنے والوں کا احترام ہی نہیں بلکہ ان کی عظمت کا اعتراف بھی تم پر واجب ہے۔ لہٰذا، انہیں ’مہذب اقوام‘ سمجھا کرو۔ ارے صاحب! وہ کہاں سے مہذب ہوگئے جو مردانہ آلات والے کھسرے کو خواتین پر مسلط کریں؟
یہ بھی پڑھیں: امام غزالی، دینی تعلیم اور مُلا
اگر خواجہ سرا کو مرد یا عورت میں سے کسی ایک کیمپ میں دھکیلنا ہی تھا تو اسے مرد کے کیمپ میں کیوں نہ دھکیلا گیا؟ ایسا نہ کرنے میں اس کا اپنا جبڑا بچانے کے سوا کوئی اور مقصد ہوسکتا ہے؟ اتنا تو پچھلی 4 سالہ لبرل امریکی حکومت کو بھی معلوم تھا کہ خواجہ سرا کو مرد کے کیمپ میں بھیجا تو یہ پٹے گا اور بری طرح پٹے گا۔ چنانچہ اسے بھیجا کہاں گیا؟ خواتین کے کیمپ میں۔ اور اس کے باوجود لبرل بنتے بھی خواتین کے حقوق کے سب سے بڑے چیمپیئن ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کہ پچھلے 4 سال کے دوران لبرلزم کے پایہ تخت امریکا میں خواتین کو خواجہ سرا کی مدد سے بری طرح ہراساں کیا گیا ہے۔ ان کے حقوق ہی نہیں پرائیویسی بھی پائمال کی گئی ہے۔ اور اس کا خاتمہ کس نے کیا؟ اس ڈونلڈ ٹرمپ نے جسے ہمارے لوکل لبرلز دنیا کا سب سا بڑا احمق اور پتا نہیں کیا کیا بتاتے ہیں۔ اگر خواجہ سرا کو خواتین پر مسلط کرنا عقل ہے تو ہم ایسی عقل پر 3 کیا 6 حرف بھیجتے ہیں۔ اور اگر خواتین باکسرز کے جبڑے خواجہ سرا باکسر کے پنچ سے محفوظ بنانا حماقت ہے تو ایسی حماقت بصد جاں قبول ہے۔
بات صرف خواجہ سرا اور اس کے پنچ تک کہاں! ایک اہم سوال تو یہ بھی ہے کہ ہمیں تو لوکل لبرلز نے یہ بتا رکھا تھا کہ سیکولرازم کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذہب کا ریاستی امور سے کوئی لینا دینا نہیں۔ مذہب لفظ تو زہریلا پن کم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے ورنہ کہنا وہ یہ چاہتے کہ خدا، اس کی کتابوں اور پیغمبروں کو ریاستی امور میں دخل کی ’اجازت‘ نہیں۔ چلیے مان لیا کہ سیکولرازم کا یہی مطلب ہے اور امریکا ایک سیکولر ریاست ہے۔ ہماری بس یہ رہنمائی کردی جائے کہ ٹرمپ کی پوری تقریب حلف برداری ایک مذہبی تقریب کا رنگ کیوں لیے ہوئے تھی؟ جب ریاست سیکولر ہے تو اسے چلانے والے صدر نے حلف بائبل پر کیوں لیا؟ ممکن ہے آپ سوچیں کہ یہ تو محض اسی طرح کی رسمی کارروائی تھی جس طرح ہمارے ہاں بھی سرکاری تقریب کا آغاز قرآن مجید کی تلاوت سے ہوتا ہے۔ تو 2 باتیں سمجھ لیجیے !
پہلی یہ کہ ہمارے ہاں قرآن مجید کی تلاوت محض رسمی معاملہ نہیں۔ یہ ملک اپنے آئین کی رو سے اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ سو ہماری سرکاری تقریب کی تلاوت قرآن کی بالادستی کا اعتراف ہوتا ہے۔ آپ بجا طور پر سوال اٹھا سکتے ہیں کہ یہ کیسی اسلامی ریاست ہے جہاں نہ روزگار ہے نہ حقوق؟ تو بھئی یہ راز سمجھنے کے لیے ارسطو جتنا دماغ نہیں درکار۔ جتنے قیراط کا یہاں مسلمان پایا جاتا ہے اتنے ہی قیراط کی یہ ریاست بھی اسلامی ہے۔ 21 قیراط والی اسلامی ریاست کے لیے تو 21 ہی قیراط کا مسلمان شہری بھی درکار ہے۔ کیونکہ ریاست قوم، آئین اور جغرافیے کے اشتراک سے وجود میں آتی ہے۔ قوم کا مذہبی و اخلاقی لیول پست ہو تو ریاست کا معیار بلند کیسے ہوسکتا ہے؟
دوسری بات یہ کہ امریکا میں معاملہ محض رسمی مذہبی ٹچ کا نہیں۔ آپ کو امریکی سپریم کورٹ کا پچھلے برس کا وہ فیصلہ تو یاد ہوگا جس میں اسقاط حمل کی اجازت کے وفاقی قانون کو کالعدم کیا گیا۔ کیا آپ یہ جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ بائبل کی روح کے مطابق دیا گیا تھا؟ امریکی سپریم کورٹ میں اس وقت قدامت پسند ججز کی اکثریت ہے۔ جنہیں روایتی زبان میں آپ ریپبلکن ججز کہتے ہیں۔ قدامت پسند امریکی وہ کہلاتے ہیں جو زنا اور ہم جنس پرستی کو قابل سزا جرم مانتے ہیں۔ جو اسقاط حمل کو بائبل کی تعلیمات کے منافی مانتے ہیں۔ چنانچہ ان ججز نے اسقاط حمل کے قانون کو اپنی مذہبی تعلیمات کی روح کے مطابق کالعدم کردیا۔
مزید پڑھیے: ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی
سو حضور! بات اتنی سمپل نہیں جتنی لوکل لبرل آپ کو بتاتا ہے۔ امریکا کو سمجھنا ہے تو اسے امریکا سے ہی سمجھیے۔ خود امریکیوں کو پڑھئے، سنیے۔ ورنہ لوکل لبرل آپ گمراہ کرتا رہے گا۔ ریاست میں مذہب کا عمل دخل ہوگا یا نہیں یہ کشمکش ابھی امریکا میں بھی بدستور جاری ہے۔ حاوی لبرلز ہیں لیکن اب ان کے خلاف ماگا کے نام سے ایک بڑی مزاحمت وجود میں آگئی ہے۔ اور ٹرمپ اسی مزاحمت کا آئی کان ہے۔ اب اس راز سے ہم بالکل بھی واقف نہیں کہ ہمارے لوکل لبرلز ان گوروں اور سیاہ فاموں کو بھی ’مہذب اقوام‘ میں شمار کرتے ہیں یا نہیں جو لبرل نہ ہوں۔ اور جو خواجہ سرا کے ہاتھوں خواتین کے جبڑے تڑوانے کے قائل نہ ہوں !
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
رعایت اللہ فاروقی امریکا امریکا کا مذہبی ٹچ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ ڈونلڈ ٹرمپ کا مذہبی ٹچ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹرمپ کی تقریب حلف برداری ڈونلڈ ٹرمپ خواجہ سرا کو خواتین کے اور اس کے ہیں کہ یہ کیمپ میں کیا گیا ہی نہیں ٹرمپ کی ہوتا ہے کے بعد کے لیے کے تحت
پڑھیں:
مسلمانوں کو انکے مذہبی طریقوں پر عمل کرنے سے روکا جا رہا ہے، اسد الدین اویسی
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ نے کہا کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کیلئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کیلئے ہے۔ اسلام ٹائمز۔ دھامی حکومت نے اپنی کابینہ میں اتراکھنڈ یونیفارم سول کوڈ ایکٹ کے قوانین کو منظوری دے دی ہے، جس کے بعد امید ہے کہ جلد ہی دھامی حکومت اتراکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کر سکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے خود اس کا اعلان کیا ہے۔ تاہم انہوں نے ابھی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے یکساں سول کوڈ یعنی یو سی سی کو لے کر بڑا بیان دیا ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ اسے یو سی سی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ہندو میرج ایکٹ اور ہندو جانشینی ایکٹ میں مستثنیات ہیں، اس کے علاوہ قبائلیوں پر یو سی سی لاگو نہیں ہوگا، ایسے میں اسے یونیفارم سول کوڈ کیسے کہا جا سکتا ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا کہ یو سی سی کے ذریعے صرف مسلمانوں کو ان کی مذہبی رسومات کے مطابق شادی، طلاق اور جائیداد کی تقسیم سے روکا جا رہا ہے، ہندو میرج ایکٹ پر یو سی سی لاگو نہیں کیا جا رہا ہے۔
اسد الدین اویسی نے یو سی سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص اپنا مذہب ہندو مذہب سے کسی دوسرے مذہب میں بدلتا ہے تو اجازت لینی پڑتی ہے، تو ایسے میں یہ یونیفارم سول کوڈ کیسے ہے۔ اس کے علاوہ اسد الدین اویسی نے کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تنظیم ہے جس کا نام آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ ہے۔ انہوں نے وقف ترمیمی بل کو بھی مسترد کر دیا ہے۔ اسد الدین اویسی کے مطابق ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ 2013ء کا پرنسپل ایکٹ درست ہے۔ اسد الدین اویسی نے الزام لگایا ہے کہ بی جے پی حکومت وقف کے حوالے سے جو قانون لا رہی ہے وہ وقف کو بچانے کے لئے نہیں ہے بلکہ وقف املاک کو تباہ کرنے کے لئے ہے۔ انہوں نے سوال کیا ہے کہ ایک غیر مسلم رکن وقف میں کیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ یوپی میں کاشی وشوناتھ بورڈ ہے، کیا کوئی غیر ہندو بھی اس بورڈ کا ممبر نہیں بن سکتا۔ اسد الدین اویسی نے واضح کیا ہے کہ اگر اتنی خامیوں کے بعد بھی کوئی بل آتا ہے تو سی اے اے کی طرح اس قانون کی بھی مخالفت کریں گے۔