Jasarat News:
2025-04-15@09:23:39 GMT

غزہ میں جنگ بندی ،آگے کامنظر کیا ہوگا

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

غزہ میں جنگ بندی ،آگے کامنظر کیا ہوگا

غزہ میں جنگ بندی معاہدہ ہوگیا اور معاہدہ بھی حماس کی شرائط سے قریب، اسے اسرائیلی حکومت کی شکست کہا جائے یا منصوبہ سازوں کا منصوبہ ، یہ بات اب بھی معمہ ہے کہ اسرائیل حماس کے حملے سے لاعلم تھا یا اب جو رپورٹس آرہی ہیں کہ اسرائیل میں بھی یہ اطلاعات تھیں کہ حماس حملہ کرنے والی ہے، درست ہیں، لیکن بعد میں آنے والی رپورٹس مشتبہ ہی ہوتی ہیں جیسے 9/11کے بارے میں بعد میں ملبہ مسلمانوں پر ڈالنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس معاہدے سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے جیسے کہ کیا یہ اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے لیے سانس لینے کے لیے کیا ہے ؟ اب آگے کیا ہوگا، نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ یا نئی قوت کے ساتھ نیا اتحاد، مسلم حکمران کیا کریں گے اس کے امکانات کیا ہیں ، مثلاً،

( ا) چونکہ فلسطینیوں نے اسرائیل سے معاہدہ کیا ہے اس لیے ہم بھی کریں گے۔
(ب)سعودی عرب اور امارات اسرائیل سے دوستی کا فیصلہ موخر کریں گے ۔
(ج) ترکی اور امارات دعووں اور اعلانات سے آگے بڑھیں گے، یا اسے اپنی کامیابی قرار دے کر اپنے اپنے ملک کے عوام کو دھوکا دیتے رہیں گے۔
(د ) پاکستان کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
(ڈ) اور پاکستان کے حوالے سے سب سے بڑا سوال! کیا اب پی ٹی آئی ٹرمپ کی واہ واہ کرے گی کہ دیکھا اس نے آتے ہی اسرائیلی یرغمالی رہا کرا لیے، اب پاکستان کے قیدی نمبر 804 کی باری ہے۔
پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی ٹرمپ کی سفارتکاری کے گن گائے گی۔
(ذ) حماس اور شام کی نئی حکومت کیا کریں گی ؟

ان سوالات کے جوابات میں، فلسطین کا مستقبل پنہاں ہے۔

اور دیکھا جائے تو ہر سوال کے ممکنہ جواب سے نئے سوالات نکلیں گے، تو پھر کیا نتیجہ نکالا جائے، ہمارا خیال ہے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے عام طور پر اور اسلامی تحریکوں کے لیے خاص طور پر یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے کہ اس دور میں کھڑے کس طرف تھے، اب جو صف بندی ہورہی ہے یہ اسی کا آغاز ہے جس کے بارے میں ہمیں بہت سی روایات میں پتا چلتا ہے، لیکن کسی شخصیت کسی گروہ کسی فرد یا عمل کو وہ نام دیناہمارا کام نہیں ہے جو مختلف جگہ لکھا گیا ہے۔

البتہ یہ سبق سب کے لیے ہے کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں اگر آپ کا ایمان ہے کہ آپ حق پر ہیں تو مزاحمت کریں نتائج آپ کے حق میں ہوں یا خلاف آپ کامیاب ہیں، جس طرح تاریخ میں نتائج کے اعتبار سے ٹیپو سلطان کو شکست خوردہ کہا جاسکتا ہے لیکن دنیا جانتی ہے کہ وہ کامیاب تھا، کیونکہ اس نے مزاحمت کی اور امر ہوگیا، بالکل اسی طرح یحییٰ سنوار نے آخری لمحے تک مزاحمت کی اور امر ہوگیا، تو آج کے لیے بھی یہی پیغام ہے کہ مزاحمت کرو کہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے، اور حماس نے بھی ثابت کردیا ہے کہ مزاحمت ہی میں زندگی ہے۔ لہٰذا مزاحمت پر کبھی شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔

اب آتے ہیں ان سوالات کی طرف جن کے جوابات کے سب منتظر ہیں… سب سے پہلے تو یہ سوال ہے کہ اسرائیل نے کیا یہ جنگ بندی محض کسی وقفے کے لیے قبول کی ہے، کیا وہ اپنے عزائم پورے کرنے کے لیے سانس لینا چاہتا ہے، اور یہ فیصلہ اسرائیل کرے گا کہ کب جنگ ہوگی اور کب امن، لیکن ایسا نہیں ہے اس جنگ کے پیچھے جو قوتیں ہیں فیصلے وہ کرتی ہیں، مگر پھر ٹھیریں!!! کوئی اور قوت بھی ہے جو فیصلے کرتی ہے اور اسی کے فیصلے مبنی بر حق ہوتے ہیں۔

ومکرو ومکر اللہ ،واللہ خیر الماکرین۔

پہلا سوال یہی ہے کہ اسرائیل کا قیام سانس لینے کے لیے عمل میں نہیں آیا تھا بلکہ اسے ایک خاص مقصد کے لیے وجود میں لایا گیا تھا، لہٰذا اسے قائم کرنے والے اس کا فیصلہ کریں گے کہ سانس لینے کا وقت دیا جائے یا کوئی نیا محاذ کھولا جائے۔البتہ کچھ چیزیں ضرور ایسی ہوں گی کہ ان پر ان دنیاوی فیصلہ سازوں کا بھی اختیار نہیں ہے۔ مثلاً مغربی ممالک کے غیر مسلم حکمرانوں کے ضمیر کی بیداری، جس کے امکانات ستاون مسلم حکمرانوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں، اسی طرح مغربی ممالک کے عوام کا بائیکاٹ تمام مسلم ممالک سے زیادہ مضبوط اور مؤثر ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے آثار بھی نظر آنے لگے ہیں، تین وزیروں کا استعفیٰ اس کی کڑی ہے۔ اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ ان وزیروں کو بھی کہیں سے کنٹرول کیا جاتا ہو اور اسی کے اشارے پر ایسا کیا گیا ہو، یعنی یہ کام صرف پاکستان میں نہیں ہوتا کہ جس مہرے سے جو کام لینا ہو اس سے وہ کام لینے کے بعد اسے فارغ کردیا جاتا ہے۔ یہ کام دنیا بھر میں ہوتا ہے ، محیرالعقول قسم کے واقعات ظہور میں آتے ہیں، امریکا میں عموماً ایک پارٹی اور ایک صدر دو مدت پوری کرتا ہے لیکن ٹرمپ کی ایک مدت مکمل ہونے کے بعد جو بائیڈن ایک مدت کے لیے لائے گئے اور اب ٹرمپ پھر لائے گئے ہیں، ٹرمپ اور بائیڈن کی باریوں کا ڈراما پاکستان کی سیاسی باریوں جیسا لگ رہا ہے۔

غزہ کی جنگ بندی کے بعد دُنیا کی نظریں اسرائیل پر ہیں لیکن عرب دُنیا کو نظر انداز نہیں کہاجاسکتابلکہ اسرائیل کی طرح وہاں بھی تبدیلیاں ہوں گی، عربوں کو اسرائیل سے تعلقات کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی ہوگی اگرچہ کوئی عرب حکمران ایسا نہیں نظر آتا جس پر بھروسہ کیا جاسکے کہ اب اسرائیل سے تعلقات کا معاملہ ختم کردے گا۔ بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اب مزید جھکیں گے، کیونکہ ان کے سروں پر بھی مغربی طاقتیں مسلط ہیں۔ نیتن یاہو حکومت کا خاتمہ ہو یا اسے پھر کسی گروہ کے ساتھ باندھ کر اقتدار میں رکھا جائے دونوں صورتوں میں اسلامی ممالک کا طرزعمل اہم ہوگا،یہاں سے جتنی مضبوطی دکھائی جائے گی اسرائیل کے قدم اتنا ہی پیچھے ہٹیں گے۔ گزشتہ پندرہ ماہ میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی نسل کشی اور ظلم میں اضافے کا اصل سبب مسلم حکمرانوں کی کمزوری ہے ورنہ مال دولت، قدرتی وسائل، فوجی عددی برتری اسلحہ وغیرہ یہ سب اُمت مسلمہ کے پاس ہے، کمی ہے تو بس جرأت اور حکمت کی، فراست کی۔

آج دنیا میں اسرائیل کے جواز، فلسطین کے مستقبل، صہیونیت، نسل کشی اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی بے حسی اور بائیکاٹ وغیرہ جو باتیں بھی ہورہی ہیں وہ سب صرف ایک چیز کی وجہ سے ہیں اور وہ حماس کی مزاحمت ہے، حماس نے مزاحمت کی نئی تاریخ رقم کی ہے، اس کی مزاحمت نے دُنیا میں مزاحمت کرنے والوں کا سر بلند رکھا، ورنہ نام نہاد دانشور تو حماس کو دہشت گرد تسلیم کرکے لوگوں کو بھی یہی مشورہ دے رہے تھے کہ حماس کی بھی مذمت کی جائے۔ اور ایسے لوگوں کی سرکاری سرپرستی بھی کی جارہی تھی، اب نئے حالات میں دُنیا حماس کی طرف دیکھ رہی ہے، اور شام کی نئی قیادت سے توقعات باندھی جارہی ہیں، لیکن اب لوگ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں امریکا اور یورپی حکومتوں سے مایوس ہوچکے ہیں، اب دُنیا میں جو ہوگا وہ مزاحمتی قوتیں ہی کریں گی۔ اب اُمت مسلمہ کا کام یہ ہے کہ درست سمت میں کھڑی رہے، نام نہاد دانشور اسے تاریخ کی غلط سمت کہتے ہیں، لیکن حماس نے ثابت کردیا کہ تاریخ غلط رخ پر کھڑی تھی۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کہ اسرائیل اسرائیل سے ہے کہ اس کریں گے نہیں ہے حماس کی ہے کہ ا اور اس کے لیے

پڑھیں:

صرف بددعائیں دینے سے اسرائیل تباہ نہیں ہوگا، عبدالقادر پٹیل

اسلام آباد:

پاکستان پیپلزپارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل نے کہا ہے کہ یہودیوں کی کُل آبادی جتنے ہمارے پاس مولوی ہیں مگر دعائیں قبول نہیں ہورہیں، صرف بددعائیں دینے سے اسرائیل تباہ نہیں ہوگا۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین پر بحث کے دوران پیپلزپارٹی کے عبد القادر پٹیل نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسی لاکھ یہودی ہیں اتنے تو ہمارے پاس مولوی ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہورہی ہے، کیا ہم اب بھی ابابیلوں کے انتظار میں ہیں، اگر ابابیلیں آ بھی گئی ہیں تو وہ ہمیں ہی ماریں گی۔ 

قادر پٹیل نے کہا کہ اس ہاؤس میں اسرائیل کے حق میں تقریر ہوئی اور اسما حدید نے تقریر کی کہ اسرائیل کو تسلیم کرو، اس جماعت نے اپنے ایم این اے سے باز پرس نہیں کی جس کا مطلب ہے کہ یہ پالیسی میٹر تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک ہی جماعت ہے جس نے ایک یہودی کیلئے مہم چلائی۔ بھٹو صاحب گرفتار ہوئے تو پوری اسلامی دنیا کہہ رہی تھی ان کو پھانسی نہ دو۔ او آئی سی قابل عمل بلانی ہوتو پھر بھٹو کی طرح پھانسی بھی لگتی ہے اس لیے سوچ سمجھ کر بات کریں۔ 

انہوں نے کہا کہ بھٹو شہید نے کہا تھا کہ نیند میں بھی کشمیر و فلسطین پر دھوکہ نہیں کھا سکتے۔

قادر پٹیل نے کہا کہ آج اسرائیل اور امریکی قانون ساز ایک بندے کو مانگ رہے ہیں، جس طرح کے حالات ہیں وہ جیل میں بند شخص کو لے بھی جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کینالز کے مسئلے پر ہم نے قرارداد جمع کرائی تو آپ شور کر رہے تھے، آپ اس دن بھی شور کرتے رہے اور ہماری بات نہیں مانی، انہوں نے کاغذ لہرایا کہ فلاں نے نہروں کی منظوری دی جبکہ ان کو پتہ ہی کہ اس فورم کا کام ہی نہیں منظوری دینا۔

قادر پٹیل نے کہا کہ صدارتی خطاب کے دوران آصف علی زرداری نے  کینالز کی کھل کر مخالفت کی۔ انہوں نے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں بات کرنے کی ہمت نہیں تھی تو بائیکاٹ کردیا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل حماس جنگ بندی کیلئے ہونیوالے مذاکرات بغیر کسی پیشرفت کے ختم
  • قاہرہ مذاکرات ناکام: حماس نے ہتھیار ڈالنے سے صاف انکار کر دیا
  • مصر کی غزہ جنگ بندی کیلیے نئی حیران کن تجویز؛ حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ
  • صیہونی قیدیوں کی ایک مرحلے میں رہائی کیلئے حماس کی شرائط
  • مصری تجویز مسترد: حماس کا جنگ بندی معاہدے کے لیے غیر مسلح ہونے سے انکار
  • جنگ کے خاتمے کی ضمانت ملے تو یرغمالیوں کو رہا کر دیں گے، حماس
  • غزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضمانت پر یرغمالی رہا کر دیں گے، حماس
  • صرف بددعائیں دینے سے اسرائیل تباہ نہیں ہوگا، عبدالقادر پٹیل
  • اسرائیل طاقت کے ذریعے قیدیوں کو نہیں چھڑا سکتا، حماس
  • حماس کی جانب سے صہیونی قیدیوں کی رہائی کے لیے شرائط