حماس تیری مزاحمت کو سلام
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
ابو ظبی، دوحا اور مصر کی براہ راست سرپرستی اور امریکا کی بالواسطہ شرکت سے اسرائیل اور حماس کے درمیان امن معاہدہ اللہ اللہ کرکے طے پا گیا یہ مذاکرات کئی ماہ سے چل رہے تھے یہ تو اسرائیل ہی تھا جو ہر دفعہ مذاکرات میں کچھ نکات پر رضامند ہونے کے بعد بھاگ جاتا تھا اور الزام حماس کے اوپر لگا دیتا کہ حماس طے شدہ نکات سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔ ان مذاکرات میں دوحا، مصر اور ابوظبی تو شدت سے خواش مند تھے کہ مذاکرات جلد کامیاب ہو جائیں امریکا بظاہر تو یہ تاثر دے رہا تھا کہ وہ مذاکرات کا حامی ہے اور امریکا کی خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم ہو لیکن اس نے اسرائیل کی ہٹ دھرمی پر اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں۔ اسرائیل روزآنہ بمبار ی کرکے سیکڑوں فلسطینیوں کے چیتھڑے اُڑارہا تھا اور اس پر امریکا کی طرف یہ بیان آتا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے بعد حماس ہی کو دھمکی دی کے وہ مذاکرات سے فرار اختیار نہ کرے ورنہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوگا اس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکے گی۔ یہ بیان کئی بار آیا لیکن ٹرمپ نے اسرائیل کو کچھ بھی نہیں کہا۔ جبکہ امریکی انتخابات کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ مسلمان ووٹوں کی اکثریت جو ساٹھ ستر فی صد تک بنتی ہے نے ٹرمپ کو ووٹ دیا تھا جبکہ یہودی ووٹروں کی اکثریت نے ٹرمپ کی مخالف امیدوار کملا ہیرس کو ووٹ دیا تھا۔ ٹرمپ کے اس بیان سے مسلمانوں کو شاک پہنچا کہ اس جنگ میں پچاس ہزار کے قریب فلسطینی شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوئے ہیں پھر وہ فلسطینی جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اس کی تو کوئی تعداد سامنے ہی نہیں آئی اور یہ غزہ کا پورا انفرا اسٹرکچر تباہ و برباد کرکے رکھ دیا گیا لیکن معاہدہ ہوجانے کے بعد کی جو خبریں مل رہی ہیں اس کی تفصیل میں یہ پوائنٹ بھی سامنے آیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے مشرق وسطی کے ایلچی کو نیتن یاہو کے پاس بھیج کر یہ پیغام دیا کہ ہر صورت میں حلف بردار سے پہلے مذاکرات ہوجانا چاہیے اب یہ الگ بات ہے کہ بائیڈن بھی اس کا کریڈٹ لے رہے ہیں ان کا یہ بیان بھی آیا ہے کہ یہ عارضی جنگ بندی ہے پہلے مرحلے کے بعد ہم مستقل جنگ بندی تک پہنچ جائیں گے۔
میرے خیال میں مذاکرات میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ یہی تھی کہ حماس کا بڑا اور بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ مستقل جنگ بندی ہو اور اسرائیل غزہ کا علاقہ خالی کردے جبکہ اسرائیل اس بات پر اڑا ہوا تھا کہ عارضی طور پر جنگ بند کردی جائے اور اسرائیلی افواج غزہ کا علاقہ خالی نہیں کرے گی۔ میں جب مذاکرات کی کامیابی کی خبر پڑھ رہا تھا تو خبر سے زیادہ دلچسپی مجھے اس فوٹو میں تھی جس میں فلسطینی خوشی سے نعرے لگا رہے تھے اور ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ فلسطین کے حوالے سے اگر ماضی قریب کا مطالعہ کیا جائے تو کئی معاہدے ہوئے جس میں یاسر عرفات کی قیادت میں اوسلو معاہدہ ہوا تھا آج تک اسرائیل نے کسی بھی معاہدے کی پابندی نہیں کی۔ اب جو معاہدہ ہوا اس میں بھی کئی خدشات سر پر منڈلا رہے ہیں۔ ابھی معاہدہ ہونے کے بعد بھی اس نے بمباری کی اور اس میں 73 فلسطینی شہید ہوئے جس میں ایک اسرائیلی یرغمالی بھی ہلاک ہوا۔ حماس نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے بمباری نہیں روکی تو یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ حماس کے سابق سربراہ یحییٰ سنوار کی شہادت جس انداز میں ہوئی اس کی آخری لمحات کی تصویر پوری دنیا میں وائرل ہوئی وہ ایک ہاتھ سے زخمی ہے اور جو ڈرون اس کی طرف آرہا ہے دوسرے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ڈنڈی سے اس ڈرون کو مارنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر شہید ہوجاتے ہیں۔ ان کی ڈائری کے جو مندرجات سامنے آئے ہیں اس میں ایک اہم بات جو انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں سے بھی کہی تھی کہ حماس اسرائیلی یرغمالیوں کسی بھی قسم کے دبائو میں آکر رہا نہ کرے اگر ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی غلطی ہوگی، پھر یہی ہوا کے حماس نے نہ صرف ان کو کسی دبائو میں آکر واپس کیا اور نہ ہی ان کے قید میں رہنے کی جگہ کا کسی کو علم ہوا اسرائیل سر پٹخ کر رہ گیا کہ وہ شدید قسم کے حملے اور بمباری کرکے انہیں رہا کرالے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوا آج جو حماس کو مذاکرات کی میز پر جو فتح حاصل ہوئی ہے اس میں یحییٰ سنوار کی اس نصیحت کا بھی دخل ہے۔
سوا سال کی جنگ میں اسرائیل نے کیا کھویا اور کیا پایا اور اس کے مقابلے میں ایک بظاہر کمزور سی تنظیم حماس نے کیا کھویا اور کیا پایا اس کے تجزیے تو آتے رہیں گے۔ سردست تو یہ بات اہم ہے کہ 467 دن کی جنگ میں 100 فلسطینی اوسطاً روز کے حساب سے شہید ہوئے لیکن حماس کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی انہوں نے بڑی استقامت کے ساتھ اپنی مزاحمتی جنگ جاری رکھی بس اب تو دل سے یہی کلمات نکلتے ہیں کہ اے حماس والوں تمہاری عظمت کو سلام، اے فلسطینیوں تمہاری استقامت کو سلام، اے القسام بریگیڈ کے مجاہدوں تمہاری مزاحمت کو سلام۔ پہلے مرحلے میں چھے ہفتے کی سیز فائر ہوگی، 33 اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں دوہزار فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 250 قیدی وہ ہیں جنہیں سزائے موت سنائی جاچکی ہے، پہلا مرحلہ جو ڈیڑھ ماہ کا ہے اس میں اسرائیلی فوجی غزہ کے گنجان علاقوں سے نکل جائیں گی اور اسرائیل مصر کی رفح کی راہداری کو کھول دے گا۔ 600 ٹرکوں کو یہاں سے غزہ جانے کی اجازت دی جائے گی۔ امریکی نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سب سے پہلے معاہدے کا اعلان کیا جو بائیڈن نے کہا ہے کہ سیز فائر بہترین امریکی سفارت کاری کا نتیجہ ہے، سوال یہ کہ یہ بہترین سفارت کاری پہلے کہاں سوئی ہوئی تھی حماس نے کہا ہے کہ جنگ بندی فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کا نتیجہ ہے، حماس کے مرکزی رہنما خلیل الحیا کا کہنا ہے کہ فلسطینی عوام 467 روز تک جاری اسرائیلی مظالم کو بھولیں گے نہ ہی اسے معاف کریں گے۔ فلسطینیوں نے کبھی بھی اسرائیل کے سامنے اپنی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
دیکھا جائے تو اسرائیل اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا وہ جو غرور میں مبتلا تھا اور کہتا تھا کہ ہم غزہ کو چند ہفتوں میں صفحہ ہستی سے مٹا دیں گے آج اس کا غرور خاک میں مل گیا یمن کے حوثیوں نے جنگ بندی پر مزاحمتی گروپوں کو سیلوٹ پیش کیا ہے مصر کے صدر عبدالفتاح السیسی، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس، یورپی یونین اور عالمی برداری نے جنگ بندی کا خیر مقدم کیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے معاہدے کی جزیات کا کام ابھی باقی ہے جنہیں چند گھنٹوں میں حل کرلیا جائے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’’اگلے چھے ہفتوں کے دوران اسرائیل دوسرے مرحلے تک پہنچنے کے لیے ضروری انتظامات پر بات چیت کرے گا جس سے جنگ کا مستقل خاتمہ ہوگا‘‘۔ دوسرے مرحلے میں جانے کے لیے بات چیت کے لیے بہت سے مسائل ہیں لیکن منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اگر مذاکرات میں چھے ہفتے سے زیادہ وقت لگتا ہے تو جنگ بندی تب تک جاری رہے گی جب تک مذاکرات جاری رہیں گے۔
7 اکتوبر 2023 کے بعد اسرائیل کے 405 فوجی ہلاک ہوئے اسرائیل کے اندر کی ہلاکتیں 1200 سے زائد ہیں اسرائیل فورسز کے ہاتھوں جو فلسطینی شہید ہوئے ہیں اس میں 18 ہزار بچے اور 11ہزار ملبے تلے دفن ہیں لیکن ایک رائے یہ بھی ہے کہ ملبے تلے دب کر شہید ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ کچھ اجتماعی قبروں کا انکشاف بھی ہو۔ اس جنگ بندی کے بعد سب سے پہلا کام ایک لاکھ سے زائد زخمیوں کا علاج معالجہ ہے اس کے لیے جو چھے سو ٹرک رفح کراسنگ سے غزہ میں آئیں گے اس میں زیادہ تر میڈیکل کے سامان اور دوائیں ہیں اسپتال تو سارے تباہ کردیے گئے اب عارضی اسپتال قائم کیے جائیں گے۔ کم از کم 19 لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں 4 لاکھ 36 ہزار مکانات مکمل تباہ ہوچکے۔ غزہ چار کروڑ ٹن ملبے کا ڈھیر ہوکر رہ گیا، چھے لاکھ ساٹھ ہزار بچوں کو ایک سال سے اسکول تک رسائی نہ مل سکی غزہ کے 564 اسکول میں سے 534 کو تباہ کردیا گیا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مذاکرات میں نے کہا ہے کو سلام حماس کے ا ہے کہ کے لیے کے بعد ہیں اس اور اس تھا کہ
پڑھیں:
اسرائیل کی سرتوڑ کوششیں حماس کو ختم کیوں نہ کرسکیں؟
جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ غزہ میں امن آتے ہی ایک بار پھر حماس کے جنگجو اپنی پناہ گاہوں سے باہر آ گئے۔
وائس آف امریکا کی رپورٹ کے مطابق عسکریت پسند گروہ حماس نے 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ میں نہ صرف اپنا وجود برقرار رکھا بلکہ تاحال غزہ میں اس کا کنٹرول اپنی جگہ قائم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو اپنی تاریخ میں پہلی بار شکست کا سامنا کرنا پڑا، اسرائیلی اخبار
حماس کی حکومت کا خاتمہ اسرائیل کی کھڑی کی گئی جنگ کے بنیادی اہداف میں سے ایک تھا لیکن لاکھ کوششوں اور اپنی تمام فوجی قوت غزہ میں استعمال کرنے کے باجود وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسی لیے خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ فریقین کے درمیان ایک بار پھر لڑائی ہو سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نتیجہ موجودہ حالات سے مختلف نہیں ہو گا۔
اتوار کو جب حماس نے 3 اسرائیلی یرغمال خواتین کو ریڈ کراس کے حوالے کیا تو وہ مناظر انتہائی ڈرامائی تھے۔ ان یرغمالوں کی گاڑیوں کو سر پر سبز پٹیاں باندھے حماس کے درجنوں جنگجوؤں نے گھیرے میں لے رکھا تھا جن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں افراد کا ہجوم بھی تھا۔ یہ سب مناظر براہ راست اسرائیل اور دنیا بھر میں دیکھے گئے۔
غزہ میں دیگر مقامات پر سامنے آنے والے مناظر اس سے بھی زیادہ ڈرامائی تھے۔ حماس کی پولیس کے ہزاروں اہلکار سڑکوں پر نکل آئے اور انتہائی تباہ شدہ علاقوں میں بھی یہ دکھائی دیے۔
مزید پڑھیے: جنگ بندی معاہدہ، حماس نے 3 یرغمالی، اسرائیل نے 90 فلسطینی قیدی رہا کر دیے
غزہ سٹی میں اپنے گھر واپس آنے والے محمد عابد نے بتایا کہ پولیس والے یہاں سے کہیں گئے نہیں تھے بس فرق اتنا ہے کہ جنگ بندی کے بعد اب یہ اپنی وردیوں میں نظر آ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس والے بے گھر افراد کے کیمپس ہی میں رہتے تھے اور اسی وجہ سے وہاں چوری کے واقعات نہیں ہوتے تھے۔
غزہ کے دیگر رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس نے اسپتالوں اور دیگر مقامات پر دفاتر بنائے ہوئے تھے جہاں لوگ شکایات درج کرا سکتے تھے۔
اسرائیل تواتر کے ساتھ حماس کو غزہ میں شہریوں کے بھاری جانی نقصان اور انفراسٹرکچر کی تباہی کا ذمے قرار دیتا آیا ہے۔ اس کے بقول حماس اپنے جنگجوؤں کو رہائشی علاقوں، اسکولوں اور اسپتالوں میں رکھتی ہے جس کی وجہ سے یہ مقامات بھی لڑائی کی زد میں آتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکا نے بھی حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہوا ہے۔
تحریک کی گہری جڑیںفلسطینی معاشرے میں حماس کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ سنہ 1980 کی دہائی میں قائم ہونے والی اس تنظیم کے مسلح اور سیاسی ونگ علیحدہ ہیں۔ اس کے علاوہ حماس اپنا میڈیا اور کئی خیراتی پروگرام بھی چلاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس کے خلاف جھڑپوں میں 74 ہزار صہیونی فوجی زخمی، نصف تعداد نفسیاتی امراض کا شکار
حماس دہائیوں سے ایک منظم شورش جاری رکھے ہوئے ہے جس میں اسرائیلی فورسز پر حملے اور اسرائیل پر خودکش اور بم حملے جیسی کارروائیاں کرنا بھی شامل ہے۔
مقتول رہنماؤں کی جگہ نئی قیادت لے لیتی ہےحماس کے کئی رہنما قتل ہو چکے ہیں لیکن ان کی جگہ نئی قیادت لے لیتی ہے۔
حماس نے سنہ 2006 کے پارلیمانی الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی تھی اور اگلے ہی برس اس نے فلسطینی اتھارٹی سے کشیدگی اور لڑائی کے بعد غزہ کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔
اس کے بعد حماس نے غزہ میں ایک حکومتی ڈھانچہ کھڑا کیا تھا جس میں وزارتیں، پولیس اور بیورو کریسی کا نظام تھا۔ اس کی سیکیورٹی فورسز نے غزہ کے طاقت ور خاندانوں کو ایک صف میں کھڑا کردیا اور متحارب گروپس کو کچل دیا۔
کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ حماس نے مبینہ طور پر اختلافی آوازوں کو بھی بے رحمی سے دبایا اور بعض مواقع پر اپنے خلاف ہونے والے احتجاج کو بھی کچل دیا۔
مزید پڑھیں: حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت اسرائیلی یرغمالیوں کی فہرست جاری کردی
اسرائیل کے ساتھ ہونے والی گزشتہ 4 جنگوں سے حماس غزہ میں اقتدار میں ہے۔ ایران کی مدد سے اس نے اپنی صلاحیتیں بڑھائی ہیں اور اپنے راکٹس کی رینج بڑھا کر انہیں اسرائیل کے زیادہ اندر تک رسائی کے قابل بنایا ہے۔
علاوہ ازیں اسرائیل کے فضائی حملوں سے بچنے کے لیے حماس نے زیرِ زمین سرنگوں کے اپنے نیٹ ورک کو مزید بڑھایا ہے۔7 اکتوبر 2023 تک حماس ہزاروں جنگجوؤں کے دستے تیار کر چکی تھی۔
ان صلاحیتوں کے ساتھ حماس نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر اچانک ایک منظم حملہ کردیا تھا جس میں اس کے جنگجو جنوبی اسرائیل میں زمین، فضا اور سمندر تینوں راستوں سے حملہ آور ہوگئے تھے۔
اس حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر سویلین تھے۔ جب کہ حماس کے جنگجو 250 افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
جنگ جو اس سے پہلے نہیں لڑی گئیاس کے فوراً بعد اسرائیل نے غزہ میں جنگ گرم کردی جس میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 47 ہزار سے زائد افراد شہید اور سوا لاکھ سے زیادہ زخمی ہوچکے ہیں۔ اس پٹی میں ہر طرف عمارتیں ملبے میں تبدیل ہو چکی ہیں اور غزہ کی لگ بھگ 90 فی صد آبادی ایک سے زائد بار بے گھر ہو چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے: حماس اسرائیل جنگ بندی معاہدہ، سعودی عرب کا خیر مقدم، غزہ میں جشن
غزہ میں جنگ کے دوران روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فوج کی جانب سے درجنوں جنگجوؤں کو ماردینے یا کسی کمانڈر کو گرفتار کرنے یا کسی سرنگ، کمپلیکس یا ہتھیار کے ذخیرے کو تباہ کرنے کے اعلانات سامنے آتے رہے۔
اسرائیلی فورسز نے حماس کے ٹاپ لیڈر یحییٰ سنوار اور دیگر کئی اہم رہنماؤں کو شہید کیا لیکن پھر بھی حماس کی جلاوطن قیادت نہیں بکھری اور یحییٰ سنوار کے بھائی محمد سنوار نے غزہ میں بڑی ذمے داریاں سنبھال لیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے 17 ہزار جنگجو ماردیے ہیں۔ اس دعوے کو درست مانا جائے تو اسرائیل جنگ سے قبل حماس کی جتنی افرادی قوت کا اندازہ لگایا گیا تھا ان میں سے نصف کو ختم کر چکی ہیں۔ تاہم فوج نے تاحال اپنے دعوے کے ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔
اسرائیلی دعوے اور حقیقتاسرائیل کا دعویٰ رہا ہے کہ اس نے غزہ میں انتہائی محتاط انداز میں کارروائیاں کی ہیں لیکن ان حملوں میں خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکتیں رپورٹ ہوتی رہی ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں امریکا کے سیکریٹری خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ حماس نے اس سے زیادہ جنگجو بھرتی کر لیے ہیں جتنے اسرائیل کے ساتھ جنگ میں کھوئے تھے۔
فلسطینی امور کے ماہر اور اسرائیلی انٹیلی جینس کے سابق افسر مائیکل ملشٹن کا کہنا ہے کہ حماس اب دوبارہ 7 اکتوبر کی طرح کے حملے کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہے لیکن اسرائیل کا نہ پھٹنے والا گولہ باردود اور گھریلو ساختہ دھماکہ خیز مواد استعمال کر کے اپنی مزاحمت جاری رکھ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اور خود بدلے حالات کے مطابق ڈھال لیتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ جنگ حماس کی کامیابی کے مضبوط تاثر کے ساتھ اختتام پذیر ہو رہی ہے۔
حماس کا متبادلحماس کے فلسطینی ناقدین کا دیرینہ مؤقف ہے کہ جنگ اب مشرق وسطی کے تنازع کا حل نہیں ہے جو اس تنظیم کے وجود میں آنے سے کئی دہایوں پہلے سے چلا آ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں ملبے کے نیچے 10 ہزار لاشیں موجود ہونے کا انکشاف
ان کا مؤقف رہا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس اگر اسرائیل کا قبضہ ختم کرانے کے لیے کوئی متبادل راستہ ہوتا تو وہ کب سے حماس سے اپنی راہیں جدا کر لیتے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کے مخالف ہیں اور انہوں نے یقینی بنایا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس کوئی اور راستہ نہ رہے۔
امریکا اور عرب ممالک یہ تجویز پیش کرتے آئے ہیں کہ غزہ اور مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کو مزید مؤثر بنایا جائے تاہم نیتن یاہو ایسی تجاویز کو نظر انداز کرتے آئے ہیں۔ اس کے برعکس وہ دونوں علاقوں پر غیر معینہ مدت تک سیکیورٹی کنٹرول قائم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: رہائی کے دوران حماس جنگجوؤں کا یرغمالیوں سے مثالی حسن سلوک
ایک سینیئر اسرائیلی صحافی اور نیٹ فلکس پر معروف ہونے والی سیریز ’فوضیٰ‘ کے کو کریئٹر ایوی اساکاروف کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کا فلسطینی اتھارٹی میں اصلاحات سے انکار اس جنگ کی سب سے بڑی ’شکست‘ ہے۔
اپنے ایک حالیہ مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیل ایک ڈراؤنے خواب سے دوسرے ڈراؤنے خواب میں آنکھ کھول رہا ہے اور حماس اب بھی حکومت کرتی رہے گی، سرنگیں بناتی رہے گی اور مزید بھرتیاں کرتی رہے گی کیوں کہ اس پر کسی مقامی مقابل کے سامنے آنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔
’جنگ دوبارہ شروع ہوسکتی ہے‘نتین یاہو پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر 6 ہفتوں پر مشتمل جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اسرائیل کے اہداف پورے نہ ہوئے تو جنگ دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔
مزید پڑھیے: رہائی پانے والی اسرائیلی خواتین حماس کے حسن سلوک کی گواہ بن گئیں
ادھر حماس کا کہنا ہے وہ لمبے عرصے تک جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کے مکمل انخلا تک دیگر کئی درجن یرغمالوں کو رہا نہیں کرے گی۔
بظاہر اس کی ٹھوس وجہ نظر نہیں آتی ہے کہ ایسی کسی صورت حال میں مزید طویل لڑائی مختلف نتائج لے کر آئے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اسرائیل کی ناکامی حماس حماس جنگجو حماس قیادت حماس کی ثابت قدمی فلسطین