جنگ بندی کا مطلب کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
’’جنگ بندی‘‘ کا مطلب اگر یہ ہے کہ ہم بیت المقدس سے دستبردار ہوگئے۔ ارضِ فلسطین کو یہودیوں کے ناپاک وجود سے پاک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا گیا اور لاکھوں فلسطینیوں کی شہادت کا بدلہ لینے سے بھی منحرف ہوگئے تو پھر اِس طرح کی جنگ بندی کو ہم مسترد کرتے ہیں۔ تاہم جنگ بندی کا مطلب اگر یہ ہے کہ اپنے ہدف اور مقاصد کے حصول تک جنگ اور جہاد جاری رہے گا، جنگ بندی کا اختتام نہیں بلکہ ایک طویل اور صبر آزما جنگ لڑنے کی منصوبہ بندی ہے، جہادیوں کی صفوں کو ازسرنو درست کرنا ہے تو پھر ایسی جنگ بندی کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
کوئی بھی عزت دار اور غیرت مند مسلمان 100 سال سے ارضِ فلسطین پر مسلمانوں کے خلاف اہلِ یہود و نصاریٰ کی دہشت گردی، بربریت اور جارحیت کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔ 1917ء سے 1948ء تک اور آج 2025ء کے آغاز تک ’’اسرائیلی ریاست‘‘ کے ناپاک وجود کو قائم کرنے سمیت جس طرح سے مسلمانوں کی زمینوں پر قبضے، گھروں کو مسمار اور قتل عام کیا گیا ہے اِس ساری تاریخ کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ مسلمانوں نے جس تاریخ کو اپنے خون سے لکھا ہے وہ تاریخ اُس وقت تک دہرائی جاتی رہے گی جب تک مقدس ارضِ فلسطین پر یہودی ریاست کے ناپاک وجود کا مکمل خاتمہ نہیں کردیا جاتا۔
حماس کے بانی شیخ احمد یاسین شہید، اسماعیل ہنیہ شہید، یحییٰ السنوار شہید اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ شہید سمیت اُن لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کو کیسے بھلایا جاسکتا ہے کہ جن کا خون ہم پر قرض اور مشن ابھی نامکمل ہے۔ مصر، شام، فلسطین اور لبنان کی زمینوں پر قبضے، ایران اور یمن پر حملے کیونکر نظر انداز کیے جاسکتے ہیں۔ بیت المقدس جو ہمارا ’’قبلہ اوّل‘‘ ہے اُس پر اسرائیل نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران قبضہ کیا۔ امریکا نے اسرائیلی قبضہ کو مستحکم کرنے کے لیے اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا۔ اِس دوران سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ کی زیر صدارت ’’اسلامی سربراہ کانفرنس‘‘ (OIC) کا اجلاس ہوا جس میں متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا کہ ’’بیت المقدس آزاد فلسطینی ریاست کا دارالخلافہ ہوگا‘‘ جبکہ بیت المقدس ابھی تک اسرائیل اور امریکا کے مشترکہ قبضے سے آزاد نہیں ہوا۔ الفتح کے سربراہ اور مشہور فلسطینی رہنما یاسر عرفات کو بھی فرانس کے ایک اسپتال میں دوران علاج اسرائیلی جاسوسوں نے زہر دے کر شہید کردیا۔ غزہ کے الشفا اسپتال میں عملے کی مسلم خواتین کو یہودی فوجیوں نے ریپ کرکے قتل کر ڈالا اور پھر انہیں اجتماعی قبروں میں دفن کردیا گیا۔ ہماری جو فلسطینی بہنیں اور بیٹیاں اسرائیلی جیلوں میں قید تھیں ان کی برہنہ پریڈ کرائی گئی۔ کیا اِن سب کا بدلہ لیے بغیر بھی جنگ بندی کا کوئی تصور ہے؟ جنگ تو تب ہی ختم ہوگی جب ظالم، جارح اور غاصب اپنے اپنے جرم کی سزا پاچکے ہوں گے۔
کس قدر حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ جنگ بندی پر آج وہی مسلم حکمران بغلیں بجا رہے ہیں کہ جنہوں نے اسرائیلی حملوں کے دوران مظلوم فلسطینی بھائیوں کی قطعاً کوئی ’’فوجی مدد‘‘ نہیں کی۔ بسکٹ اور کمبل بھیج کر فلسطینی مسلمانوں کے وارث اور نمائندے بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اِسی طرح سے دینی اور سیاسی جماعتیں بھی اپنے حصے کا کام کرنے میں ناکام رہیں، حالانکہ پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی دینی سیاسی قیادت کو چاہیے تھا کہ امریکی سفارتخانوں کا اُس وقت تک گھیرائو جاری رکھے کہ جب تک اسرائیلی فوجیں غزہ سے انخلا نہ کرجائیں مگر پوائنٹ اسکورنگ کے چکر میں جلسوں اور ریلیوں پر اکتفا کیا گیا۔ بلاشبہ جنگ بندی کا اختیار فلسطینی قیادت ہی کو حاصل ہے کیونکہ انہوں نے لازوال اور بے پناہ قربانیاں دی نہیں وہ اپنی آئندہ کی حکمت عملی خود ہی جانتے ہیں اس لیے ہم اُن کے کسی فیصلے پر کوئی تنقید نہیں کرنا چاہتے، تاہم اِتنا ضرور کہنا چاہیں گے کہ فلسطین کا مسئلہ صرف عربوں کا نہیں بلکہ یہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے۔ خلافت عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمیدؒ کے پاس جب ایک یہودی تاجر یہ درخواست لے کر آیا کہ ارضِ فلسطین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا خطیر رقم کے عوض ہمیں عنایت کیا جائے کہ جہاں اسرائیلی ریاست قائم کی جاسکے تو سلطان نے برہم ہو کر فرمایا کہ ’’فلسطین میرا نہیں اُمت کا ہے اور اُمت مسلمہ نے اِس کے لیے بہت خون دیا، لہٰذا فلسطین کی ایک اِنچ زمین بھی آپ کو نہیں دی جاسکتی‘‘۔
بہرحال پاکستان سمیت تمام عالم اسلام کی دینی اور سیاسی قیادت کو چاہیے کہ وہ ایسی پالیسیوں اور غلطیوں سے اجتناب کریں کہ جن سے فلسطین کے ’’دو ریاستی حل‘‘ کی راہ ہموار ہوتی ہو، جیسا کہ چند ماہ قبل سعودی عرب میں منعقد ہونے والی اسلامی سربراہ کانفرنس میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم نے دو ریاستی حل کے لیے عالمی اتحاد کی بنیاد رکھ دی ہے، جس پر مل کر مزید کام کرنا ہوگا‘‘۔ ’’دو ریاستی حل‘‘ فلسطین کا حل نہیں بلکہ اِس طرح سے پہلے مرحلے پر اسرائیل کے ناجائز وجود کو تسلیم کرنا اور دوسرے مرحلے پر ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کے نقشے کو مکمل اور نافذ کرنا ہے۔ ’’جہاد‘‘ کے بہت سے مرحلے ابھی باقی ہیں، شکرانے کے نوافل ادا کرنے سے پہلے استقامت کی دُعائیں مانگنے کا وقت ہے۔ خلیفہ دوم امیر المومنین حضرت عمرفاروقؓ نے بیت المقدس کے اندر داخل ہونے کے بعد شکرانے کے نفل ادا کیے تھے، اِس طرح سے عظیم جرنیل سلطان صلاح الدین ایوبیؒ بھی صلیبیوں کو مکمل شکست دے کر جب بیت المقدس میں داخل ہوئے تب مسجد اقصیٰ کے صحن میں سجدہ شکر بجا لائے… اللہ پاک ہمیں بھی یہ وقت ضرور نصیب فرمائے گا اور ان شاء اللہ ہم بھی بیت المقدس کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد سجدہ گاہ رسولؐ کے قریب جا کر نماز شکرانہ ادا کریں گے۔ لہٰذا جنگ بندی کو جنگ کا اختتام سمجھنے والے خدا سے ڈریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں کہ جس سے اسرائیل، برطانیہ اور امریکا کے ایجنڈے کو تقویت ملے۔
اللہ پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین ثم آمین
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جنگ بندی کا بیت المقدس
پڑھیں:
ٹرمپ کا صدارت کی کرسی سنبھالنے کے بعد غزہ جنگ بندی پر مایوس کن بیان
WASHINGTON:امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کا کریڈٹ لینے باوجود کہا ہے کہ انہیں اعتماد نہیں ہے کہ یہ جنگ بندی پائیدر ہوگی۔
امریکی نشریاتی ادارے (سی این این) کی رپورٹ کے مطابق اپنے دفتر میں صحافی کے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے سوال پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پراعتماد نہیں ہیں، یہ ہماری جنگ نہیں ہے بلکہ ان کی جنگ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے غزہ کی ایک تصویر دیکھی اورغزہ تباہ شدہ علاقے کی مانند ہے اور اس جگہ کی تعمیر واقعی میں ایک مختلف انداز میں کرنی ہوگی۔
غزہ جنگ بندی پر امریکی صدر کا مایوس کن بیان صرف ان تک محدود نہیں ہے بلکہ اسرائیلی کابینہ کے مختلف اراکین کا بھی اپنی حکومت اور ان پر دباؤ ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جنگ بندی حماس کی فتح ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ جنگ بندی کے حوالے سے یہ بیان چند گھنٹے قبل صدارت کے عہدے کا حلف اٹھانے کے وقت کی گئی تقریر کے بالکل برعکس ہے جہاں انہوں نے کہا تھا کہ وہ جنگوں کی فتوحات کی بنیاد پر اپنی کامیابیاں شمار نہیں کریں گے بلکہ جنگوں کا خاتمہ بھی اہم ہوگا۔
امریکا کے نئے صدر نے دفتر کا چارج سنبھالنے کے بعد ابتدائی طور پر جن انتظامیہ احکامات پر دستخط کیے تھے، ان میں سابق صدر بائیڈن کی جانب سے مغربی کنارے میں تشدد کے ذمہ دار اسرائیلی آباد کاروں پر عائد کی گئی پابندی منسوخ کرنا بھی شامل تھا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ جنگ بندی کے معاہدے سے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے، حماس
ٹرمپ نے غزہ میں حکمرانی سے متعلق ایک سوال پر گزشتہ روز حماس کا نام لیے بغیر اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہاں جو لوگ نظر آرہے ہیں وہ بالکل نہیں ہوسکتے، ان میں سے اکثر تو شہید ہوگئے ہیں لیکن وہ درست انداز میں نہیں چلا پائے۔
ان کا کہنا تھا کہ غزہ کو ان لوگوں نے بدترین اور کشیدہ انداز میں چلایا، اس لیے وہ تو نہیں ہوسکتے ہیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا تھا کہ غزہ کی بحالی میں ہوسکتا ہے کوئی کردار ہو اور غزہ کی جغرافیائی صورت حال کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ سمندر اور بہترین موسم کے ساتھ یہ غیرمعمولی مقام ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیزالیل اسمورٹرک نے اس اقدام پر ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی قومی سلامتی، پورے علاقے میں آباد کاروں کی توسیع اور دنیا میں اسرائیل کی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے مزید سود مند تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہوں۔
مزید پڑھیں: حماس کی جانب سے رہا کی جانے والی تین اسرائیلی خواتین قیدی کون ہیں؟
بیزالیل اسمورٹرک ان اسرائیلی وزرا میں سے ایک ہے جو غزہ میں یہودی آباد کاری کے خواہاں ہیں جبکہ 2005 کے معاہدے کے تحت اس کی اجازت نہیں ہے جبکہ بیزالیل نے اس وقت بھی مذکورہ معاہدے کے خلاف احتجاج کیا تھا اور مختصر وقت کے لیے گرفتار بھی کرلیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ 16 جنوری کو قطر، مصر اور امریکی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان 3 مراحل پر مشتمل جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا، جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ان کی کوششوں سے یہ ممکن ہوا ہے۔
بعد ازاں دونوں فریقین نے معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ کیا اور حماس نے اس معاہدے کو اپنے مؤقف کی جیت قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے فلسطین کی آزادی کی راہ ہموار ہوئی ہے۔