Jasarat News:
2025-01-23@05:42:44 GMT

عمران خان کا سیاسی ورثہ: امیدیں، ناکامیاں اور تنازعات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

عمران خان کا سیاسی ورثہ: امیدیں، ناکامیاں اور تنازعات

عمران خان کی سیاسی جدوجہد پاکستان کی تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو غیر معمولی عزم، بلند توقعات، ناکامیوں اور تنازعات کی عکاسی کرتا ہے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی بنیاد رکھنے والے عمران خان نے ایک ایسے پاکستان کا خواب پیش کیا جو کرپشن سے پاک، انصاف پر مبنی اور ترقی یافتہ ہو ایک کامیاب کرکٹ کیریئر اور سماجی خدمات کے بعد سیاست میں قدم رکھنے والے عمران خان کو عوام نے ایک دیانت دار اور انقلابی رہنما کے طور پر دیکھا اور اعتماد کیا لیکن ان کا سیاسی سفر مشکلات، تضادات اور ناکامیوں سے دوچار ہی رہا ہے۔ عمران خان کی سیاست کا آغاز ایک مثالی وژن کے ساتھ ہوا تھا جس نے عوام کو ایک نئی امید دلائی تھی ان کے نعروں اور وعدوں نے خاص طور پر نوجوان نسل کو اپنی طرف متوجہ کیا جنہوں نے روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہو کر عمران خان کو تبدیلی کا استعارہ سمجھا 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی اور عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہوئے ان کی کامیابی کا سہرا ان کی پُرجوش تقریروں، کرپشن کے خلاف ان کے عزم اور ایک ’’نئے پاکستان‘‘ کے خواب کو جاتا ہے تاہم، حکومت میں آنے کے بعد ان کا دورِ اقتدار ان وعدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا جن کی بنیاد پر عوام نے انہیں منتخب کیا تھا۔

ان کی حکومت کے دوران مملکت کی معیشت شدید بحرانوں کا شکار رہی ہے مہنگائی کی بلند شرح، کرپشن، بے روزگاری میں اضافہ اور قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ ان کے دور کی نمایاں خصوصیات بنے عوام کو درپیش مسائل حل کرنے کے بجائے ان کی منصوبے مزید مایوسی کا سبب بنے عمران خان نے بارہا کرپشن اور غربت کے خاتمے کے دعوے کیے لیکن عملی طور پر ان کے اقدامات ان وعدوں سے مطابقت نہ رکھتے تھے اور مملکت ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہوئی۔

ان کی قیادت میں یوٹرن لینے کی عادت اور متضاد بیانات نے ان کی ساکھ کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچایا انہوں نے آئی ایم ایف سے قرض نہ لینے کا وعدہ کیا لیکن انہی کے در پر ماتھا ٹیکا امریکا پر اپنی حکومت کے خاتمے کا الزام عائد کرتے رہے پھر ان ہی سے حمایت کی بھیک مانگتا رہا۔ ان تضادات نے ان کی قیادت پر سوالات کھڑے کیے اور ان کی بین الاقوامی ساکھ اتنی متاثر ہوئی کہ ناقابل ِ اعتبار شخصیت تصور کیے گئے خارجہ پالیسی کے محاذ پر چین اور سعودی عرب جیسے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پیدا ہوا جس نے پاکستان کی سفارتی پوزیشن کو ناقابل ِ تلافی نقصان سے دوچار کیا ہے۔

عمران خان کی نجی زندگی بھی ہمیشہ تنازعات کا شکار رہی اور ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی رہی ہیں عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریان وائٹ بین الاقوامی میڈیا کی زینت بنی عمران خان کی شادیوں جن میں جمائما گولڈ اسمتھ، ریحام خان اور بشریٰ بی بی شامل ہیں نے ہمیشہ میڈیا اور عوام کی توجہ حاصل کی خاص طور پر بشریٰ بی بی کے ساتھ ان کے تعلق کو بدترین تنقید کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ انہیں عمران خان کی روحانی پیشوا اور سیاسی فیصلوں پر اثر انداز سمجھا جاتا تھا ان تنازعات کو ان کے مخالفین نے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جس سے ان کی شخصیت اور قیادت مزید پیچیدہ نظر آنے لگی۔

2022 میں عمران خان کے اقتدار کا اختتام تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہوا جو پاکستان کی تاریخ میں ایک انوکھا واقعہ تھا اس کے بعد ان پر کئی قانونی مقدمات کا سامنا رہا جن میں توشہ خانہ اور القادر ٹرسٹ کیسز سب سے زیادہ نمایاں رہے اور 14 سال کی قید بامشقت کا سبب بنے ہیں ان کے حامی ان مقدمات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں جبکہ ناقدین انہیں قانون کی بالادستی کا نتیجہ سمجھتے ہیں عمران خان کا عروج و زوال مخالفین کے لیے ایک سبق آموز اور ان کے حامیوں کے لیے ایک گہری مایوسی کا سبب بنا۔

عمران خان کی قیادت نے عوام کو اس وقت امید دلائی جب وہ مایوسی کے شکار تھے لیکن عملی طور پر وہ عوامی توقعات پر پورا نہ اتر سکے ان کی غیر مستقل پالیسیاں، تضادات اور نجی زندگی کے تنازعات نے ان کی شخصیت اور طرزِ حکمرانی کو متنازع بنا دیا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ان کے غیر متوازن فیصلے اور تنازعات نے پاکستان کی ساکھ کو غیر معمولی نقصان پہنچایا۔ عمران خان کی سیاست ایک ایسی داستان کے طور پر یاد رکھی جائے گی جو بلند خوابوں، ناقابل ِ عمل وعدوں، اور تنازعات کا مجموعہ تھی اور ان کا سیاسی سفر پاکستان کی تاریخ میں امیدوں، ناکامیوں اور تنازعات کا امتزاج تصور کیا جائے گا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی عمران خان کی اور تنازعات پاکستان کی اور ان

پڑھیں:

دنیا کی چھٹی بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا نشان عمران خان ہے، بیرسٹر گوہر

 پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی دنیا کی چھٹی بڑی سیاسی جماعت ہے جس کا نشان عمران خان ہیں۔ الیکشن کمیشن کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا انٹرا پارٹی انتخابات کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جا رہا حالاں کہ پارٹی سرٹیفکیٹ ان کا حق ہے، پی ٹی آئی واحد پارٹی ہے جس نے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، جس پر الیکشن کمیشن نے ایک نوٹس جاری کرکے آئینی و قانونی سوال اٹھائے تو ہم نے جواب جمع کرایا، الیکشن کمیشن میں کیس انہوں نے فائل کیا جنہوں نے پارٹی الیکشن لڑا ہی نہیں، ان 5 درخواست گزاروں نے پارٹی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا تھا۔ بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ پارٹی کے مرکزی دفتر پر چھاپے کے دوران ایف آئی اے دستاویز ساتھ لے گئی تھی، ہم نے عدالت میں درخواست دائر کی ہے کہ ہمیں پارٹی کی دستاویز واپس دی جائے، امید ہے پارٹی کے دفتر سے لی گئی دستاویز ہمیں واپس مل جائے گی، جس کے بعد امید ہے الیکشن کمیشن سے ہمیں پارٹی کا سرٹیفکیٹ ملے گا، پارٹی سرٹیفکیٹ ہمارا آئینی و قانونی حق ہے، امید ہے الیکشن کمیشن کی اگلی سماعت کے بعد سرٹیفکیٹ مل جائے گا۔ ایک سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ آئین میں لکھا ہے پارلیمنٹری کمیٹی بنے گی جس میں چیف الیکشن کمشنر کے نام جائیں گے، عمر ایوب نے سپیکر اور شبلی فراز نے چیئرمین سینیٹ کو پارلیمانی کمیٹی کے لیے خط لکھا ہے، نئی تقرری کے لیے اپوزیشن اور حکومت نے تین تین نام کمیٹی میں بھیجنے ہیں، ہم چاہتے ہیں کمیٹی بن جائے اور ہم اپنے تین نام بھیجیں، امید ہے چیف الیکشن کمشنر اور ممبر الیکشن کمیشن کا عمل جلد مکمل ہوگا، تاہم آئین میں ہے چیف الیکشن کمشنر ریٹائرڈ ہو جائے تو نئے چیف الیکشن کمشنر تک کام کرے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عمران خان کی سزاپر اپوزیشن متحرک ، اگلے ماہ اے پی سی بلانے پر غور
  • عمران کی سزاپر اپوزیشن متحرک ، اگلے ماہ اے پی سی بلانے پر غور بڑی بیٹھک جلد ہی متوقع
  • جماعت اسلامی بلوچستان کے عوام کیلئے ہمہ گیر جدوجہد جاری رکھے گی،لیاقت بلوچ
  • 190 ملین پائونڈ ریفرنس میں عمران خان کیخلاف فیصلہ قانونی نہیں سیاسی ہے
  • عمران خان کی رہائی اب 6 ماہ کی نہیں صرف دو تین ماہ کی بات ہے. حامدرضا
  • دنیا کی چھٹی بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا نشان عمران خان ہے، بیرسٹر گوہر
  • عمران خان بہت جلد بری ہوں گے: شہریار آفریدی
  • عوام کو حقیقی نمائندگی چاہیے
  • تحریک انصاف اور عمران خان کو سیاسی انتقام کا نشایا بنایا جارہا ہے: فیصل جاوید