Jasarat News:
2025-01-23@05:49:27 GMT

ٹکراؤ کی سیاست اور عوامی مفادات

اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT

ٹکراؤ کی سیاست اور عوامی مفادات

اسلام آباد میں جاری سرکس کا یہ کھیل عام آدمی کے مفاد یاپاکستان کی مجموعی سیاست کو دیکھیں تو اس میں تناؤ ٹکراؤ اور تفریق کے پہلو نمایاں ہیں۔ محاذآرائی اور سیاسی دشمنی نے سیاسی جماعتوں میں فاصلے پیدا کر دیے ہیں۔ اتفاق رائے کی سیاست کے مقابلے میں ایک دوسرے پر سیاسی بالادستی کی جنگ غالب نظر آتی ہے۔ طاقت کے مراکز ایک دوسرے سے نہ صرف الجھے ہوئے ہیں بلکہ اپنی طاقت کو بنیاد بنا کر دوسروں پر بالادستی چاہتے ہیں۔ حکومت اپوزیشن اورپس پردہ اسٹیبلشمنٹ سمیت بیوروکریسی ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں۔ یہ سیاسی بحران نہیں اور نہ ہی معاشی بحران ہے بلکہ اس کی ایک اہم جہت ریاست کے بحران سے جڑی نظر آتی ہے۔ کیونکہ جب ادارے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کرینگے تو اس سے سیاسی معاشی اور سیکورٹی کا استحکام ممکن نہیں ہوسکے گا۔ اس پورے کھیل میں سیاسی جماعتوں کیساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ بھی ایک فریق کے طور پر سامنے آئی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنی طاقت کی بنیاد پر عدلیہ کو بھی اپنے حق میں استعمال کرنا چاہتی ہے۔ جب کہ عدلیہ بھی کسی نہ کسی شکل میں اپنی طاقت دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس بحران نے ہمارے داخلی علاقائی اور خارجی معاملات کو کافی حد تک مشکل میں ڈالا ہوا ہے اور اسی بنیاد پر ہماری مجموعی ساکھ پر بہت سے سوالات اٹھ رہے ہیں اور لوگ کافی نالاں نظر آتے ہیں۔ کیونکہ عام آدمی کو جو مسائل بنیادی نوعیت کے درپیش ہے اس کا کوئی حل ان کو نظر نہیں آرہا۔ جو سیاست جمہوریت اور آئین کی پاسداری کے دعوے کیے جا رہے ہیں اس میں عام آدمی کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ طاقت کی اس لڑائی میں سب سے زیادہ عام آدمی کا استحصال ہو رہا ہے اور اس کی زندگیوں میں مشکلات پیدا ہو رہیں۔ لیکن شاید عام آدمی کے حالات کو بدلنے کی ترجیحات ہمارے نظام کا حصہ نہیں ہے۔ سیاسی طور پر ہم نے اپنے آپ کو الجھا لیا ہے اور سیاسی تقسیم نے لوگوں میں مزید سیاسی تقسیم پیدا کر دی ہے۔ اگرچہ سب یہی کہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہر فریق کا آئین اور قانون اس کی نظر میں مختلف ہے۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی آمدنی اور اخراجات میں جو عدم توازن پیدا ہو رہا ہے اس نے اس کی معاشی معاشی حالت کو کافی خراب کر دیا ہے۔ پاکستان میں پڑھا لکھا طبقہ ملک چھوڑ رہا ہے اور وہ ملک کے حالات سے کافی مایوس نظر آتا ہے۔ لوگوں میں عدم تحفظ بڑھ رہا ہے اور ان کو لگتا ہے کہ اس ملک کے نظام میں ان کی گنجائش کم ہوئی ہے۔ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے مسائل یا انصاف کی فراہمی کا نظام کافی متاثر ہوا ہے۔ ایک طبقاتی نوعیت کی حکمرانی کا نظام ہے جو ایک مخصوص طبقے کی اجارہ داری کو مضبوط بناتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کا پاکستانی سیاست میں کنٹرول پہلے بھی تھا لیکن اب بہت بڑھ گیا ہے۔ سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے سامنے خود کو بے بس سمجھتی ہیں یا انہوں نے بھی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے اپنے مفادات کو زیادہ تحفظ دیا ہے۔ سول سوسائٹی میڈیا اور عدلیہ کی آزادی پر بہت سے سوالات نظر آرہے ہیں۔ عالمی دنیا میں بھی ہماری ریاستی ساکھ پر سوال اٹھائے گئے ہیں اور ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم جمہوریت سے کافی دور دور ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی صورتحال پر بھی کافی تشویش پاکستان کے اندر بھی پاکستان سے باہر بھی پائی جاتی ہے۔ حکومتیںبھی اگرچہ دعوے کرتی ہے کہ اس نے عام آدمی کی حالت کو بہت بدل دیا ہے اور میڈیا پر بڑے بڑے اشتہارات کی بنیاد پر ترقی کے ماڈل کو بھی دکھایا جا رہا ہے۔ لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ لوگ بدحال ہیں اور ان کے پاس ترقی کرنے کے امکانات کم ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کوبھی خیراتی منصوبوں میں الجھا دیا گیا ہے اور ان کی ذات کی میڈیا پر سیاسی تشہیر کی جا رہی ہے۔ تعلیم اور صحت کا میدان اس وقت سب سے بڑا چیلنج بنا ہوا ہے اور حکومت کا ریگولیٹ سسٹم ناکامی سے دوچار ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں اس وقت طاقت کی لڑائی ہے اور اس طاقت کی لڑائی میں وہ صرف اپنا حصہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عوام کو جمہوریت کے نام پر ایک بڑے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہاہے۔ یہ لڑائی سیاستدانوں کی جمہوریت سے زیادہ اپنے ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی عوام کے مسائل سے لا تعلقی کا پہلو بڑا مایوس کن ہے۔ جماعتوں کی توجہ کا مرکز اسٹیبلشمنٹ ہے اور وہ اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی طور پر رام کرنے کے لیے ہر وہ کام کرنے کے لیے تیار ہیں جس سے ان کے اقتدار کو تحفظ مل سکے۔ لیکن عوام کو کیسے تحفظ ملے گا اس کا جواب پورے سیاسی نظام کے پاس نہیں ہے۔ خاص طور پر وہ جماعتیں جو وفاق صوبوں میں بار بار حکومتوں کا حصہ ہیں یا رہی ہیں لیکن عام آدمی کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔جمہوریت سے مراد عام آدمی کے مفادات ہوتے ہیں اور جب تک ایک جمہوری نظام میں عام آدمی کو اس کا حصہ نہیں ملتا تو وہ جمہوریت کے ساتھ کیوں اپنی وابستگی کو جوڑ ے گا۔ حقیقی جمہوریت کے مقابلے میں ایک ہائبرڈ اور کنٹرولڈ جمہوریت کا نظام بھی ہمارے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔ لیکن لگتا ایسا ہے جیسے ہم ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کے لیے ذرا بھی تیار نہیں ہیں اور ایک نیم حکیم سیاسی اور جمہوری نظام کو چلانا ہماری سیاسی مجبوری بنا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے ریاست جو پہلے ہی جمہوریت کے تناظر میں کمزور ہے اور اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے وہاں جمہوریت کا مضبوط نہ ہونا مزید جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنے گا۔ دنیا بھر میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں عوام کے ساتھ کم کھڑی ہوتی ہیں اور ان کے حق کی جنگ لڑتی ہیں جبکہ ہمارے ہاں بڑی جماعتوں کی ترجیحات میں عوام کے مقابلے میں طاقتور مراکز ہیں۔ اس لیے یہاں جو بھی احتجاجی تحریک چل رہی ہے یا ٹکراؤ کی سیاست ہے اس کے پیچھے بھی عوام سے زیادہ بڑی طاقتوں کی سیاسی خوشنودی کا حصول ہے۔ جب تک سیاست عام آدمی تک نہیں پہنچے گی اور لوگوں کو نظر نہیں آئے گا کہ جمہوریت ہمارے دکھوں کا مداوا کر سکتی ہے اس نظام کی ساکھ قائم نہیں ہو سکے گی۔اب سوال یہ ہے کہ عام آدمی کیا کرے اور کس سے اپنے دکھ کا اظہارکرے۔ کیونکہ عام آدمی کی آواز سننے کے لیے اس ملک کی سیاسی اشرافیہ اور طاقتور طبقہ تیار نہیں ہے۔ لوگوں کو جھوٹی تسلیاں اور خوشنما نعروں میں الجھا کر ایک بڑی ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں جبکہ ترقی کے نام پر زمینی حقائق بہت تلخ ہیں اور لوگوں کی زندگیوں میں دکھ پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے موجودہ نظام اپنی افادیت کھو رہا ہے اور اس نظام میں عام آدمی کا حصہ ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ لوگوں کو ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جہاں وہ اپنے بنیادی حقوق کی پاسداری کر سکیں۔ اس عمل یا نظام میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں یا اصلاحات درکار ہیں لیکن ان اصلاحات کی کڑوی گولیاں کھانے کے لیے کوئی تیارنہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے پاس مربوط نظام نہیں ہے اور وہ وقت گزاری کی سیاست کر رہی ہیں جس میں ان کے ذاتی مفادات اہمیت رکھتے ہیں سیاسی جماعتوں کے اس کردار نے پورے سیاسی نظام میں ایک خلا پیدا کر دیا ہے۔ جب سیاسی قیادتیں سیاسی بونوں کی طرح ہوں گی اور ان کے معاملات بہت محدود ہوں گے تو ان سے بڑے نظام کی توقع کرنا بھی خوش فہمی کے زمرے میں آتا ہے۔ طاقت کی اس لڑائی کو عام آدمی کی لڑائی کے ساتھ کیسے جوڑا جائے یہ بنیادی نوعیت کا سوال ہے۔ لیکن پھر یہ سوال بھی بنتا ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا اور ہم کام کا آغاز کہاں سے کریں گے۔ کیونکہ ہمیں عوامی مفادات کو تقویت دینے کے لیے سخت گیر اور کڑوی گولیاں ہضم کرنی پڑیں گی۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا جب اس ملک کی سیاسی اشرافیہ خود بھی اپنے آپ کو قربانی کے لیے پیش کرے۔ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے حالات ہمارے لیے کافی پریشان کن ہیں۔ ان علاقوں میں موجود انتہا پسندی‘ شدت پسندی یا دہشت گردی جیسے امراض کا علاج تلاش کر کے ہی ہم وہاں سیاسی استحکام پیدا کر سکتے ہیں۔ طاقت کے انداز میں ہم مسائل حل نہیں کرسکیںگے بلکہ مسائل کو اور زیادہ گمبھیر بنا دیںگے اور یہ عمل ریاست کے مفاد کے برعکس ہوگا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سیاسی جماعتوں عام آدمی کا عام آدمی کی جماعتوں کی جمہوریت کے رہا ہے اور جا رہے ہیں ایک دوسرے ہے اور اس لوگوں کو کی سیاست نہیں ہے کے ساتھ طاقت کی ہیں اور پیدا کر اور ان کا حصہ ہوا ہے دیا ہے کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

ہم نہیں سمجھتے ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کوئی زلزلہ آجائے گا، عرفان صدیقی

پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور ہمیشہ رہا ہے، عرفان صدیقی - فوٹو: فائل

حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ ہم نہیں سمجھتے کہ ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست کے اندر کوئی زلزلہ آجائے گا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کی قیادتیں بدلتی رہتی ہیں، صدور آتے رہتے ہیں۔ ممالک کے تعلق ممالک سے ہوتے ہیں افراد سے نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیے تحریک انصاف حکومت کے جواب سے مطمئن ہوئی تو مذاکرات آگے چلیں گے: عرفان صدیقی 23 دسمبر کو مطالبات تحریری شکل میں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا: سینیٹر عرفان صدیقی حکومت بے اختیارہے تو کمیٹی کیوں بنائی، عرفان صدیقی کے PTI سے سوالات

عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت آنے سے پاکستان کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات پر بات کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہ بنانے کی میڈیا پر خبر چلتے ہوئے ابھی دیکھی ہے جو بالکل بے بنیاد ہے۔

انکا کہنا تھا کہ ہم نے پی ٹی آئی کا مسودہ سات جماعتوں کے ساتھ اسی دن شیئر کر دیا تھا۔ ہمارے اتحادی ابھی اپنی لیڈرشپ کے پاس گئے ہیں اور آپس میں مشاورت کر رہے ہیں، مشاورت کے بعد ہماری ذیلی کمیٹی بنی ہے جس کی آپس میں ایک میٹنگ ہوگی۔

عرفان صدیقی نے کہا کہ ابھی یہ بات ابتدائی مراحل پر ہے، سات جماعتیں اپنا اپنا موقف لے کر دو تین دنوں میں جمع ہوں گی۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی سیاست اور مذہبی ٹچ
  • عوامی پہاڑوں کو لیز کے نام پر ہڑپ نہیں ہونے دیں گے، کاظم میثم
  • 190ملین پاؤنڈ کیس کا عمران خان پر کوئی اثر نہیں، شیخ رشید
  • خود مختار ملک ہیں ، ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کوئی زلزلہ نہیں آئے گا، عرفان صدیقی
  • الیکشن کمیشن کا حکومت کے حق میں جھکاؤ سیاسی نظام کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے، سپریم کورٹ
  • ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست کے اندر کوئی زلزلہ نہیں آئے گا، عرفان صدیقی
  • ہم نہیں سمجھتے ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کوئی زلزلہ آجائے گا، عرفان صدیقی
  • ٹرمپ حکومت آنے سے پاکستان کی سیاست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، عرفان صدیقی
  • ہم نہیں سمجھتے ٹرمپ کے آنے سے پاکستان کی سیاست میں کوئی زلزلہ آجائے گا، عرفان صدیقی